قربانی کی حقیقت۔ ازقلم : مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
قربانی کی حقیقت۔
ازقلم : مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
ماہ ذی الحجہ میں خصوصیت کیساتھ دو عبادتیں انجام دی جاتی ہیں ایک حج بیت اللہ جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے اور دوسرے سنت ابراھیمی یعنی قربانی
قربانی یہ ایک عظیم عبادت ہے جو اللہ تعالی کی بندگی کے طورپر انجام دی جاتی ہے اور اسکی ایک عظیم ترین حکمت حضرت ابراھیم علیہ السلام کی عظیم ترین قربانی کے مقصد کو تازہ کرنا اور اسکو زندہ کرنا ہے نیز اس میں فقراء و محتاجوں کی غمگساری تعاون اور عید کے موقع سے انکے اہل و عیال کو خوشی کی فراہمی ہے اور نتیجہ میں اسلامی معاشرہ کی بھائی چارگی کا تعلق قوی تر ہوتا ہے اور اجتماعیت اور آپسی محبت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں ( تحفة الباري)
احادیث مبارکہ میں اسکے بڑے فضائل بیان ہوئے ہیں
آپ نے فرمایا یوم النحر میں ابن آدم نے خون بہانے سے محبوب تر کوئی عمل نہیں کیا اور بلا شبہ وہ بروز قیامت اپنے سینگ کھر اور بالوں سمیت آئیگا اور یقینا اسکا خون روئے زمین پر گرنے سے قبل بارگاہ الہی میں پہنچ جائیگا پس اسے خوشدلی سے انجام دو ( ابن ماجہ ترمذی )
ایک حدیث میں آپ نے قربانی کو حضرت ابراھیم کی سنت قرار دیا اور فرمایا کہ اسکے ہر بال اور اون میں ایک نیکی ملیگی ( احمد ابن ماجہ )
آپ نے فرمایا جو حیثیت و گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرےبوہ ہرگز ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ( احمد ابن ماجہ )
قربانی کا حکم
جس رشید مسلمان کے پاس 10 ذی الحجہ سے 13 ذی الحجہ تک اپنے مصارف و ضروریات سے زائد اتنا مال ہو کہ قربانی کر سکتا ہے تو اس پر قربانی کرنا سنت موئکدہ ہے اگر ایک شخص پر متعدد افراد کا نفقہ واجب ہو ( مثلا بیوی بچے وغیرہ ) تو ان پر قربانی سنت کفایہ ہے یعنی ان میں سے کوئی ایک انجام دے تو بقیہ سے اسکا مطالبہ ساقط ہوگا گرچہ ثواب صرف قربانی کرنے والے کو ملیگا
البتہ امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا کہ اگر وہ دوسروں کو ثواب میں شریک کرے تو یہ جائز ہے حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے آپ کے دور مسعود میں ایک شخص اپنے اور اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری کی قربانی دیا کرتا تھا ( موئطا مالک ابن ماجہ ) ( تحفة الباري)
اسطرح ایک بڑے جانور میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں جیساکہ حضرت جابر فرماتے ھیکہ ہم نے حدیبیہ میں آپ کیساتھ ایک اونٹ سات کی جانب سے اور گائے کو سات کی جانب سے نحر ( ذبح ) کیا
کوئی شخص دوسرے کی جانب سے اسکی اجازت کے بغیر قربانی نہیں کرسکتا خواہ وہ شخص زندہ ہو یا مردہ اگر زندہ شخص کی اجازت ہو یا میت وصیت کرچکا تھا تو انکی طرفسے قربانی صحیح ہے
حضرت علی آپ کی طرف سے دو مینڈھوں کی قربانی کرتے اور فرماتے کہ آپ نے مجھے ہمیشہ آپ کی جانب سے قربانی کا حکم دیا ( ابو داود ترمذی بیہقی )
زندہ کی جانب سے قربانی کرے تو بظاہر تقسیم میں یہ نائب شمار ہوگا تقسیم اسکی اجازت پر موقوف نہ ہوگی میت کی وصیت سے قربانی کرے تو مکمل صدقہ کردینا واجب ہے
اسطرح اپنے گھر پر گھر والوں کے روبرو قربانی کرنا مستحب ہے تاکہ وہ خوش ہوں اور گوشت سے مستفید ہوں ( تحفة الباري)
اسلئے اجتماعی طورپر دوسری ریاستوں میں بڑے جانوروں پر قربانی کرنے سے بہتر یہ ھیکہ حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھروں پر اپنے گھر والوں کے سامنے اپنی حیثیت و گنجائش کے اعتبارسے چھوٹے جانوروں پر قربانی کا اہتمام کریں تاکہ قربانی کا اصل مقصد اور اسکی روح باقی رہے ورنہ آئندہ نسل کو پتہ بھی نہیں چلیگا کہ قربانی کیا ہوتی ہے ؟
اسلئے کہ آج لوگ چھوٹے جانور پر قربانی کی گنجائش اور وسعت ہونے کے باوجود آسانی سہولت اور اپنے پیسوں کے بچاو کے لئے اس مروجہ اجتماعی قربانی کے طریقہ کار کو اپنا رہے ہیں جو مناسب نہیں ہے
اللہ تعالی ہمیں شریعت مطہرہ اور سنت نبویہ پر عمل کرنیکی توفیق عطا فرمائے
Comments
Post a Comment