ماہ ذی الحجة الحرام کا پیغام۔ازقلم : مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔

ماہ ذی الحجة الحرام کا پیغام۔
ازقلم : مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔

  ماہ ذی الحجة الحرام کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے اور خصوصا اسکے پہلے عشرے کی جسکی قرآن مجید کے سورہ الفجر میں قسم بھی کھائی گئی ہے اس مہینے میں اور عبادتوں کی ادائیگی کیساتھ خصوصا دو عبادتوں کو بڑی خصوصیت اہمیت اور فضیلت حاصل ہے ایک حج بیت اللہ اور دوسری سنت ابراھیمی یعنی قربانی 
   ماہ ذی الحجة الحرام شروع ہوتے ہی اور خصوصا جب آدمی ان عبادتوں کو کرنے میں مشغول ہوجاتا ہے تو کئی ہزار سال پہلے انجام دیئے ہوئے یہ اعمال اور گذرے ہوئے یہ واقعات اسکے نظروں کے سامنے آجاتے ہیں اور اسکے دل و دماغ کی ایک عجیب کیفیت و حالت ہوجاتی اور اس پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ ایک عجیب مستی و وجد میں آجاتا ہے اور وہ یہ محسوس کرنے لگتا ھیکہ گویا یہ واقعات و حالات اسکی نظروں کے سامنے ابھی پیش آرہے ہوں اور یہ کیفیت اسکے ایمان و یقین میں ترو تازگی اور بڑھوتری کا ذریعہ بنتی ہے 
  حج کے دوران جو اعمال و افعال کئے جاتے ہیں ان میں اکٹر وہ اعمال ہیں جو حضرت ابراھیم علیہ السلام اور انکے اہل و عیال کی جانب سے ادا کئے گئے ہیں اور یہ اعمال اللہ تعالی کی بارگاہ میں اسقدر مقبول اور پسندیدہ ہوگئے کہ اللہ تعالی رہتی دنیا تک انکو باقی اور محفوظ رکھا 
   حضرت ابراھیم علیہ السلام کی پوری زندگی امتحانات اور آزمائشوں سے بھری پڑی ہے چاہے پھر وہ اپنے اہل و عیال کو مکہ مکرمہ جیسے بنجر اور بے آب و گیاہ زمین پر بسانا ہو یا اپنے اکلوتے محبوب اور نوجوان صاحبزادے کی منی کے میدان میں قربانی ہو غرض یہ کہ جب حضرت ابراھیم علیہ السلام ان امتحانات اور آزمائشوں میں کھرے اترے اور کامیاب ہوگئے تو اللہ تعالی نے انھیں مقام خلت سے بھی سرفراز فرمایا 
   حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ہمیں اپنے اسوہ اور کردار سے یہ بتلایا اور یہ پیغام دیا کہ اللہ تعالی کے حکم کے بجاآوری اور اسکی رضامندی اور خوشنودی سے بڑھکر اور کوئی چیز نہیں ہے اور اگر اسکے حصول کیخاطر اپنا سب کچھ قربان کردینا پڑے تو آدمی کو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے اور حالات چاہے کتنے ہی مشکل کٹھن اور دشوار کیوں نہ ہوں آدمی کو کبھی گھبرانا اور پہلو تہی نہیں کرنا چاہئے اسلئے کہ جسے اللہ تعالی کی رضامندی اور خوشنودی نصیب ہوئی وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہوگیا 
   اسطرح جو کام اخلاص و لللہیت کیساتھ انجام دیا جاتا ہے اگر وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبول ہوجاتا ہے تو اللہ تعالی اسکو باقی اور محفوظ رکھتے ہیں اور لوگوں کی زبانوں پر ہمیشہ اسکا تذکرہ رہتا ہے اور لوگ اسکو اپنے لئے ایک آئیڈیل اور نمونہ بھی بناتے ہیں جیساکہ حج و قربانی کے ادائیگی سے ٹابت ہوتا ہے اسلئے کہ ہزاروں صدیاں گذر گئیں لیکن نہ لوگوں کے دلوں سے انکی یادیں ختم ہوئیں اور نہ ہی زبانوں سے انکا تذکرہ ہی ختم ہوا 
   اسلئے ہمیں اپنا محاسبہ اور جائزہ لینا چاہئے کہ ان عبادتوں کے ادا کرتے وقت ہمارے دل و دماغ اور ایمانی حالت و کیفیت میں کوئی تبدیلی و انقلاب اور کوئی بڑھوتری ہوتی ہے یا نہیں ؟ یا صرف رسمی و رواجی طورپر شہرت و بڑائی کے لئے ان عبادات کو انجام دیتے ہیں حج و عمرہ کی کٹرت و زیادتی پر تو ہم فخر کرتے ہیں اور اسکا تذکرہ بھی کرتے ہیں لیکن ہم نے اپنی خواہشات و جذبات کو کتنا شریعت کے تابع بنایا ؟ اور اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کے لئے ہم نے اپنی خواہشوں اور چاہتوں کو کتنا قربان کیا ؟ ہمیں اس بارے میں اپنا محاسبہ اور جائزہ لینا چاہئے 
      اللہ تعالی ہمیں حج و قربانی کے مقصد و پیغام کو سمجھنے اور ہر چھوٹے بڑے عمل کو اخلاص و للہیت کیساتھ کرنے اور اپنی چاہتوں خواہشوں اور جذبات کو اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کے حصول کے خاطر قربان کردینا کا جذبہ شوق اور توفیق نصیب فرمائے

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔