نمبروں کا کھیل، حقیقت کا درد۔ازقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین۔
نمبروں کا کھیل، حقیقت کا درد۔
ازقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین۔
کہتے ہیں کہ اعداد کبھی جھوٹ نہیں بولتے، لیکن لیکن یہاں کہنا پڑے گا کہ جو لوگ اعداد بولتے ہیں، وہ ضرور جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ مئی 2025 میں دہلی کے کسی دفتر میں بیٹھے ایک صاحب نے اعلان کیا کہ بھارت جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن گیا ہے۔ خبر آگ کی طرح پھیلی، میڈیا نے شور مچایا، سیاستدانوں نے نعرے لگائے، اور عوام نے تالیاں بجائیں۔
لیکن کہانی میں ایک موڑ یہ آیا کہ اڑتالیس گھنٹے بعد اسی دفتر کے ایک اور صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ بھائی، ابھی تو یہ ہوا ہی نہیں، شاید سال کے آخر تک ہو جائے۔ اب یہ بتائیے کہ یہ کیا تماشا ہے؟ کیا یہ وہی بھارت ہے جس کی سنجیدگی کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا؟
وہ پرانا زمانہ یاد آتا ہے جب اعداد و شمار کا کام یہ تھا کہ وہ حقیقت بیان کریں، نہ کہ خوابوں کی تعبیر کریں۔ آج کل ہر چیز میں ایک جادوگری ہے، اعداد میں بھی۔ کوئی کہتا ہے ہم چوتھے نمبر پر ہیں، کوئی کہتا ہے نہیں ابھی پانچ پر ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہم ترقی کر رہے ہیں، کوئی کہتا ہے نہیں ہم پیچھے جا رہے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اعداد کو خدا بنا لیا ہے۔ GDP کے آگے سجدہ ریز ہیں، growth rate کے گن گاتے ہیں، اور trillion dollar economy کے خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی سوچا ہے کہ یہ سب کچھ کس کے لیے ہے؟
میں جب اپنے گاؤں جاتا ہوں تو وہاں کا کسان مجھ سے پوچھتا ہے کہ میاں، یہ بتاؤ کہ ہماری معیشت بڑھ رہی ہے تو میرا پیٹ کیوں نہیں بھرتا؟ میں کیا جواب دوں؟ کہوں کہ بھائی، آپ کو پتا نہیں، ہمارا GDP 4.1 trillion dollar کا ہو گیا ہے؟ وہ کہے گا کہ میاں، یہ ڈالر شالر کیا ہوتا ہے، مجھے تو روپیہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔
یہ کہانی صرف ایک کسان کی نہیں، کروڑوں لوگوں کی ہے۔ جب میں پڑھتا ہوں کہ ملک کی دولت کا چالیس فیصد صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس ہے، تو میرے ذہن میں کھیل کا وہ منظر آتا ہے جہاں ایک بچہ تمام گولیاں اپنے پاس رکھتا ہے اور باقی بچے تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔
پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کیسی ترقی ہے جو اپنے ہی لوگوں کو پیچھے چھوڑتی جائے؟ کیسا عروج ہے جو صرف کاغذوں پر نظر آئے، زمین پر نہیں؟ کیسی خوشحالی ہے جو صرف چند گھروں میں چمکے، گلیوں میں اندھیرا ہو؟
دیکھیے کہ جب بھی کوئی سیاستدان اعداد کا سہارا لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ حقیقت سے بھاگ رہا ہے۔ کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، اور غربت بھی۔
وہ زمانہ یاد آتا ہے جب لوگ کہا کرتے تھے کہ حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ ہر آدمی کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرے۔ آج کل کہتے ہیں کہ حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ GDP بڑھائے اور global ranking میں اوپر آئے۔
اب یہ بھی ہوا ہے کہ میڈیا نے بھی اعداد کی پوجا شروع کر دی ہے۔ کوئی چینل کہتا ہے کہ ہم چوتھی بڑی معیشت بن گئے، کوئی کہتا ہے کہ ہم جلد تیسری بن جائیں گے۔ لیکن کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ معیشت کس کی ہے اور کس کے کام آتی ہے؟
یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 3.8 فیصد خرچ کرنا کافی ہے؟ کیا صحت پر فی کس محض چھیاسی ڈالر خرچ کرنا مناسب ہے؟ کیا خواتین کی لیبر فورس میں صرف تیئیس فیصد شمولیت قابل فخر ہے؟
سمجھ یہ آتی ہے کہ ترقی کا اصل مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس کتنے ڈالر ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ کتنے خوش ہیں۔ خوشحالی انڈیکس میں ہمارا 126واں نمبر اس بات کا ثبوت ہے کہ اعداد کی دنیا میں کچھ اور ہی چل رہا ہے، اصل دنیا میں کچھ اور۔
یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی ملک اپنے اعداد پر زیادہ فخر کرنے لگتا ہے تو وہ اپنے لوگوں کو بھولنے لگتا ہے۔ اور جب لوگ بھولے جاتے ہیں تو پھر کوئی GDP، کوئی trillion dollar economy کام نہیں آتی۔
یہ وقت اس بات کا ہے کہ ہم اعداد کی شعبدہ بازی سے باہر نکلیں اور اصل ترقی کی بات کریں۔ وہ ترقی جو گاؤں میں بھی نظر آئے، جو غریب کے گھر میں بھی پہنچے، جو عورت کو بھی آگے بڑھائے، جو بچے کو بھی پڑھائے۔
کیونکہ بالآخر تاریخ یہ نہیں پوچھے گی کہ ہم کون سے نمبر پر تھے، بلکہ یہ پوچھے گی کہ ہم نے اپنے لوگوں کے لیے کیا کیا۔ اور یہ سوال آسان نہیں ہے۔
آج جب یہ سب لکھا جا رہا ہے تو بچپن کا وہ کھیل یاد آتا ہے جہاں آنکھوں پر پٹی باندھ کر چیزوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ لگتا ہے کہ آج بھی وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے - آنکھوں پر اعداد کی پٹی باندھے، حقیقت کو پکڑنے کی کوشش میں۔
شاید وقت آ گیا ہے کہ اب یہ پٹی ہٹا دی جائے۔
Comments
Post a Comment