اپنے آپ کو مکمل طور سے اللہ کے سپرد کرو۔قرآن کے نظر سے۔ازقلم : پروفیسر مختار فرید (بھیونڈی مہاراشٹرا)
اپنے آپ کو مکمل طور سے اللہ کے سپرد کرو۔
قرآن کے نظر سے۔
ازقلم : پروفیسر مختار فرید (بھیونڈی مہاراشٹرا)
اور ہم نے اس میں یعنی تورات میں ان کے لئے لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک و کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا قصاص بدلہ یعنی بدلہ ہوگا پھر جس نے اس قصاص کو بخش دیا تو اس کے لئے کفارہ گناہوں کی معافی یعنی وہ جو بخشنے کا عمل ہے اس کے لئے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہو جائے گا.
ظالم کون لوگ ہیں اور جو اللہ کے نازل کردہ فرمان کے ذریعے فیصلہ نہیں کریں گے تو وہی لوگ ظالم ہوں گے-
اس آیت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آس پاس کے معاحول پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جن مسائل سے ہمارے سماج دوچار ہے اور سارے مسائل ایسے ہیں جس کی وجہ سے پورا سماج بد امنی اور انسان میں عجیب غیر ضروری ایسی فضا بنا رہا ہے، جو ایک بیچینی اور اناکی کا معاحول ہے ہر طرف انسان کو اب انسان سے بھروسہ اٹھ گیا ہے یہ کوئی جملہ ایسا نہیں جو کسی ناول میں لکھا ہو یا کسی ڈرامے کا کوئی حصہ ہو یا کسی فلمی سٹار نے زبان سے آداکیا ہو یہ زندگی کی وہ حقیقتیں ہیں جن سے ہم منہ نہیں موڑ نہیں سکتے ۔ ہر انسان اپنے خودی میں مشغول ہے۔
ہم جدھر بھی نظر ڈالتے ہیں سی سی ٹی وی کیمرہ گورنمنٹ سے لے کر ہر آدمی ہر دکان، ہر مکان ،حتیٰ اس سے مسجدیں بھی نہیں بچیں ہیں جو عبادت گاہیں ہیں وہاں بھی کیمرے لگے ہوئے ہیں پہلے یہ تصور نہیں تھا انسانوں میں گناہوں کا جو مزاج تھا وہ بھی پہلے رہا ہوگا اور تھا ہی کہ قرآن خود اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ انسان کے پاس دونوں پہلوں موجود ہیں لیکن حالات کے ساتھ ساتھ چیزیں شاید زیادہ ہی خراب ہوتی چلی جارہی ہیں لہٰذا جو غلطیاں ہیں ان غلطیوں کی روک کے لیے جو تدبیریں کی جا سکتی ہیں ان میں سے بعض تدبیروں کا یہاں پہ ذکر کیا گیا ہے جب انسان بلکل پستی کے انتہاہی گہرائی تک پہنچ چکا ہے، جب یہ محسوس ہو سماج جو نظام حکومت ہے اس کو کہ اب یہ محسوس ہو کہ اس کی اصلاح ممکن نہیں ۔
جب حالات اسقدر بگڑ جائیں کہ ایک انسان کو کہیں اُمید کی کوئی کرن نظر نہ آئے تو ہم کیا کریں ؟ جو اب بہت آسان نہیں ہے، انفرادی طور پر اصلاح ممکن نہیں بلکہ اجتماعی طور پہ گورنمنٹ جو نظام حکومت ہے نظام عدل ہے جسے ہم عدلیہ کہتے ہیں اس کے توسط سے چیزیں قائم کی جاسکتی ہیں تاکہ انسان کے پاس جب کہیں خوف اور شوق دونوں ماحول ایک ساتھ ہوتے ہیں تب ہی انسان پرسکون زندگی گزارتا ہے اس میں ایک چیز بڑی اہم یہ بھی ہے کسی نے اگر مجھ پر زیادتی کی ہے تو مجھے کیا کرنا چاہیے اس زیادتی کا میں بدلہ لے سکتا ہوں، نظام کے مطابق قانون کے مطابق قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے لیکن اگر میں معاف کر دوں تو وہ میرے لئے بہتر ہے، اس میں بڑا خوبصورت پہلو ہے کسی نے ہمیں تکلیف پہنچائی اور ہمارے پر بہت سارے ظلم کئے ، جو بھی جن کا یہاں پر ذکر ہے اور اس وقت بھی انسان اگر یہ کہے کہ میں معاف کرتا ہوں تو اس سے بڑی کوئی جیت نہیں ہے کہ وہاں پہ خاموش رہنا معاف کرنا یہ اپنے آپ میں کمال درجے کی چیز ہے جو بہت آسان نہیں ہے ہر انسان کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
کیا ہمارے معاف کرنے سے سماج میں اطمنان آئیگا ، مگر جب ایک انسان اسقدر بگڑ جائے جس کی وجہ سے سارے سماج میں فساد برپا ہو تب حکم یہ نہیں کے شر انگیز انسان کو کھلی چھوٹ دئی جائے۔ بلکہ حکم ہے کہ سختی سے اس پر قانون کے مطابق کاروائی کی جائے۔
سورۃ المائدہ آیت نمبر 33۔ ان کی بھی یہی سزا ہے جو الله اوراس کے رسول سے لڑتے ہیں اورملک میں فساد کرنے کو دوڑتے ہیں یہ کہ ان کو قتل کیا جائے یا وہ سولی چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں یہ ذلت ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا درد ناک عذاب ہے۔
ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان پر روک لگائی جائے تاکہ وہ آئیندہ اس طرح کی حرکت نا کرسکے ،پہلی بات جو کہی گئی ہے ، ان کو قتل کردیا جائے ، یا سولی پر چڑھا ئے جائے ،، یعنی اُن کی سزا سر عام ہو تاکہ دوسرے عبرت لیں، یا مخالف جانب سے ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں یعنی پوری طرح سے اُن کو سزا ایسی ہو جس کی وجہ سے وہ کسی کام کے نہ رہیں ، یا جلاوطن کردئے جائیں ۔ یہ ذلت اُن کے ایسے اعمال کے بدلے ہے جس کی وجہ سے سارا سماج پریشان ہوتا ہے۔
سورۃ ال عمران آیت نمبر 110 میں اللہ فرماتا ہے۔
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
یہ ہمارے اوپر لکھ دیا گیا ہے ، سماج کےامن و بہبودی ذمہ داری ہم پر عائد کردی گئی ہے۔ تاکہ ہم لوگوں کو اچھائی کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں۔ مگر ہم کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ جو ہم کہتے ہیں اُس پر کتنا عمل کرتے ہیں۔
سورة الصف آیت نمبر 2 اور 3 میں اللہ کہتا ہے۔
اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو،اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ہم پہلے آپنے اعمال کو ٹھیک کریں پھر اوروں کی طرف توجہ دیں انگریزی کی مشہور مثال ہے۔ اچھائی گھر سے شروع ہوتی ہے۔charity begins at home
یہاں پہ ہم سب کے لئے اس میں سبق ہی سبق اور عبرت ہی عبرت ہے یہ حکم بھی ہے اور اپنے آپ کو جج کرنے کے لئے ایک حکم اور مقام رتبہ بھی ہے کہ زبان سے ہم کتنا اقرار کرتے ہیں وہ بہت اہمیت نہیں رکھتا بلکہ عملی طور پہ ہم اپنے مسائل میں روزمرہ کے مسائل میں اللہ کی بھیجی ہوی کتاب کا ہم کتنا پاس و لحاظ رکھتے ہیں یہ زیادہ اہم ہے، ہم جذباتی طور پہ اپنے عزیزوں کا ساتھ دیتے ہیں یا ہم اللہ کے حکم مطابق ان کے خلاف گواہی دیتے ہیں اگر وہ گناہگار ہیں، اس بارے میں قرآن کیا کہتا ہے اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے ہیں ،تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں ۔
ظلم کے معنی واضح ہو کہ ظلم کہتے کسے ہیں ظالم کسے کہتے ہیں اب یہاں سوچنے کے ضرورت ہے کیا واقعی ہم انہی لوگوں میں شامل ہیں جو ظالم ہیں اور اگر ہم ان میں اپنے آپ کو شامل نہیں سمجھتے ہیں تو اللہ کی نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے ہمیں بھی اپنے اوپر یہ لازم کرنا ہوگا کہ اللہ کی فیصلہ اسی کی روشنی میں ہو چاہے ،ہماری گواہی ہمارے اپنے والدین کے خلاف ہمارے اپنے بچوں کے خلاف ہمارے اپنے بھائی بہنوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو لیکن سچی گواہی دینا لازمی ہے۔
سورة النساء آیت نمبر 135 میں اللہ فرماتا ہے، اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے،
بدلہ لینے کا ذکر قرآن میں سورۃ البقرۃ آیت نمبر 178 میں آیا ہے،
ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس کا بدلہ آزاد ہی سے لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو توا س عورت ہی سے قصاص لیا جائے ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے دردناک سزا ہے۔
یہاں قرآن میں جس قصاص کا ذکر ہے وہ تورات کے حوالے سے بلکہ پوری وضاحتوں کے ساتھ بتائی گئی ہے اور وجہ اس کی کیا ہے کہ قرآن ہمیں ہر شخص کو ہر فرد کو بہترین اخلاق اور کردار کی تربیت دیتا ہے ہر ایک کی عزت کے لئے حکم ہے برائی کے جواب برائی سے نہ دینے کا حکم ہے ہر ایک سے اچھا بولنے کا حکم ہے لیکن اسی کے ساتھ اگر کہیں پہ معاملات ایسا ہو کہ کوئی جارح یا ظالم ہے یا اس طرح کا مجرم ہے جو اس طرح کی حرکتیں کرنے کا عادی ہو چکا ہے اور وہ کوئی آپ کو نقصان پہنچا دیتا ہے تو اس کی لئے پھر قرآن میں سزا کا نظام جو ہے وہ ایک روک تھام کے طور پہ ہے یعنی سخت ہے تاکہ لوگ اس کے خوف سے ایسا نہ کریں یہی قصاص کی حکمت ہے اور اسی لئے قرآن یہ کہتا ہے کہ اسی میں لوگوں تمہارے لئے زندگی ہیں کیونکہ اگر جرم کرنے والے کو اس کی بروقت سزا نہ ملے اور مناسب سزا نا ملے گی تو جرم سماج سے کم نہیں ہو جائےگا، انصاف کا نظام جو ہے وہ اگر درست ہے اور تیز ہے ہرصورت کے ساتھ ہے ،وہاں جرائم کم ہوتے ہیں لیکن اگر نظام ایسا ہو کہ سزا ملنے میں اور فیصلہ ہونے میں بہت وقت لگ جائے تو پھر وہ نظام کمزور ہے کیونکہ جوکچھ ہونا چاہئے جلد از جلد ہو ، نا کہ اگر انصاف جو ہے اس میں دیر ہو جائے تو وہ نہ ہونے جیسا ہے جسٹیس ڈیلیٹ جسٹیس ڈینائٹ تو فیصلے انصاف جو ہیں وہ حق کے ساتھ ہوں اس پہ عمل درامد فوری ہو کیونکہ یہ بات ہمیں سمجھنی چاہیئے کہ قرآن ہم کو بہترین اخلاق کی تعلیم دیتا ہے ، اس بات کو قطی نظر انداز نا کریں ہر چیز کیجئے اپنے طور سے کوئی مشورہ ایسا نا دیجئےجو قرآن کے احکامات کے خلاف ہو، کیونکہ اللہ کے احکام میں ہمیں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہے،
یہ اس بات پر منحصر کے کیا جرم اس طرح کا ہے کہ اس میں سارا سما ج متاثر ہو رہا ہے یا صرف آپ ذاتی تور پر متاثر ہورہے ہیں ۔ اگر صرف آپ متاثر ہورہے ہیں تو سختی مت کیجئے بلکہ منہ سے بھی برامت کیجیے زبان سے بھی برامت کہیں اس کی جذبات کو بھی ٹھیس نا پہنچائیئے لیکن کوئی آپ کو نقصان پہنچایا تھا تو پھر اس کو بدلہ اسی طرز پر ہو جیسے آپ کی چوٹ ہے ۔
یہ بات یہاں سمجھائی گئی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ انسانیت کے لیے ایک طرح سے اپنا حکم بلکہ نصاب ظاہرکرتا ہے کیونکہ یہ بات جو قرآن میں کہی گئی ہے ۔
لوگوں تمہارے لیےقصاص زندگی ہے ۔کیونکہ تمہیں اگر سکون کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو جو مجرم ہے جو عادی ہو چکا ہے جس کے ساتھ نفسیاتی ماحول کی وجہ سے ایک عادت سی پڑچکی ہے کہ وہ اگرکوئی بات نہیں مانتا ہے ظلم کرتا ہے ظلم و ذیادتی کرتا ہے تو پھر اس کو سزا دینا ضروری ہے اور جو پھر وہ سزا اللہ کے احکامات کے مطابق کیونکہ جو اللہ نے حکم نازل کیا ہے یعنی جو اللہ کی کتاب ہدایت آئی ہے جو جب سے آدم اور آدمیت کو زمین پر اتارا گیا ہے جب سے یہ سلسلہ چل رہا ہے ، اور جو اس کے مطابق فیصلے نہیں کرتا اس کو قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ ظالم ہیں تو تھوڑا سا یہاں ایک دفعہ ہم پھر ظالم کی وضاحت کر لیںاور دیکھ لیں کہ ظلم کے معنی کیا نکل کے آتے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں ظلم کا تھوڑا سا محدود مطلب ہے ظلم کے بنیادی معنی ہے کسی دوسری کے ملکیت میں بیجا دخل دینا حد سے گزر جانا راقم کے مطابق ظلم کے معنی ہے کسی چیز کو اس کی اصل پر نہ رکھنا چاہے کمی یا ذیادتی کر کے یا اسے اس کے صحیح وقت اور اصل جگہ سے ہٹا کر یعنی کسی بھی کو اصلیت سے پرے ہٹادیتا ہے ،جس مقصد کے لیے اس نے کسی بات کو ہٹا دیتاہے، وہ ظلم کہلائے گا کسی چیز کواپنی اصلیت سے ہٹادینا اس کا توازن بگاڑ دینا بھی ظلم ہے ابن فارس نے اس کے بنیادی معنی تاریکی اور حد سے گزر کر کسی چیز کو بے جگہ کر دینا بتائے ہیں ظلم و ہی تارکی ہےکیونکہ جس طرح تاریکی میں کچھ نہیں سوچتا اور کچھ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا وہی کیفیت یہاں پر اب سورۃ بقرہ میں جو چیز ہے یہ بڑی جامع بات ہے جو کہی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ کی حدود کو توڑتے ہیں وہ ظالمین ہیں ،ظالمین کی یہی تعریف ہے۔ اس لیے کہ انسانیت کے حقوق کو اللہ کی قوانین کی مددسے ہی طے کیا جا سکتا ہے اور جو شخص ان قوانین کو توڑتا ہے اللہ کی حدود کو توڑتا ہے وہ انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے
لہٰذا اللہ کی حدود یعنی قوانین کو توڑنے والا ظالم ہے کیونکہ وہ حقوق انسانیت کی راہ میں حائل ہوتے ہیں، جو لوگ اللہ کے نازل کردہ کتاب کی مطابق فیصلہ نہ کریں وہ ظالم ہیں کیوں ظالم ہیں کیونکہ وہ اس طرح سے اپنے حقوق میں زیادتی کر رہے ہیں اور دوسروں کی حقوق ہڑپ کر رہے ہیں اور جو چیز جس مقصد کیلئے تھی اس مقصد کیلئے نہیں استعمال کی جا رہی ہے کیونکہ سب سے بڑا ظلم وہ اپنے اوپر اور کتاب اللہ اور اللہ کی ہدایت پر کر رہے ہیں کہ یہ کتاب آئی تھی عمل کرنے کے واسطے مگر عمل نہیں کر رہے ہیں تو ایک ظلم ہے ،انھوں نے اپنی ذات سے بھی ظلم کیا کیونکہ ان کی ذات کا ان کے نفس کا تقاضہ یہ تھا کہ وہ اللہ کی بندگی میں رہتامقصد اللہ کی بات نہیں رکھی تو نفس کے ساتھ ظلم کیا اپنی شخصیت کے ساتھ ظلم کیا اور جو کتاب ہدایت آئی تھی اس کتاب ہدایت کو سمجھ کے اس پر عمل نہیں کیا تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہواتو یہ دوہرا ظلم ہے جب ہم کرتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں ہم لوگ اندھیرے میں بھٹکتے ہیں
سورۃ المائدہ آیت نمبر 46 میں اللہ فرماتا ہے۔
اور ہم نے ان کے پیچھے ان ہی کے قدموں پر عیسیٰ مریم کے بیٹے کو بھیجا جو اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا تھا اور ہم نے اسے انجیل دی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا تھا اور راہ بتانے والی اور ڈرنے والوں کیلئے نصیحت تھی
متقین کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے یہاں چند خاص چیزیں ہیں جنہیں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جس بھی کتاب کو بعد میں بھیجا ہے وہ کتاب پہلے موجود کتاب کے سلسلے میں مصدق کہلاتی ہے یعنی جو اس کا پیغام تھا اس وحی پیغام بھی وہی پیغام ہے اگرچہ اس میں خرد برد انسانی اپنے حرکات اور اپنے مقصد کے تحت جو انسان کی اپنی کوششوں کے نتیجے میں کوئی ایڈٹنگ یا کوئی مفہوم کی تبدیلی اس میں واقع نہ ہوئی ہو وہ وہی ہوتا ہے جو پہلے سے پیغام میں ہوتاآ رہا ہے
لفظ مصدق استعمال کیا گیا ہے کہ جس کی معنی تصدیق کرنے والا ہے اور یہاں بھی اس بات کو دو مرتبہ استعمال کیا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم وہ مصدق ہے اور مزید یہ کی جو کتاب ہے وہ بھی مصدق ہے یعنی ظاہر سے بات ہے کتاب و صاحب کتاب دونوں اپنے سے پہلے نبیوں اپنے سے پہلے کتاب و صاحب کتاب کی تصدیق کرنے والے ہیں مزید اس میں دو الفاظ ہیں جو کامن ہیں تمام کتابوں کے ساتھ میں ہدایت اور نور ہے ۔
مزید اس میں عقل کو جھنجھوڑ نے والی چیزیں موجود ہیں جب انسان چلتا ہے تو راہیں خود بخود کھلتی چلی جاتی ہیں مزید اس میں یہ بھی بات کہی گئی ہے کہ اس میں نصیحت بھی ہے قرآن مجید میں اگر دیکھا جائےتو تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کی گئی ہے ، جو کتاب ہمارے پاس آئی وہ اللہ کے طرف سے جدید ایڈیشن ہے اُسے قرآن کہتے ہیں اس کو اس طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے اس کو پوری طور سے بتلایا گیا ہے ، اور کچھ گائیڈ لائنز ہیں یہ کرو یہ مت کرو اب بھی کچھ ایسے بنیادی باتیں ہیں اور کچھ ایسے رہنمائی کے لئے اصول دئیے گئے ہیں کہ جن کی روشنی میں ہم اپنی زندگی کے مختلف مسائل حل کر سکتے ہیں تورایت کی بھی یہی صفت تھی انجیل کی بھی یہی صفت ہے پھر اور جو آسمانی کتابیں ہیں ان کے ساتھ بھی اس کا ذکر ہے ۔ یہاں اگر اسی آیت کی زبان ہم استعمال کریں تو جو اللہ نے نازل کیا ،وہ جو ترتیب چلی آرہی پہلے تورایت کا ذکر ہے اور وہ کئی نبیوں کے دور کا ذکر ہے ،اس میں اس کےبعد جو بھی صحیفے آئےاور آتے رہے اور وہ یقینا اس میں لوگوں نے در و بدل کرتے رہے لوگ اس میں تبدیلی حسب منشاہ کرتے رہے اور ہم سب اس چیز سے واقف ہیں ۔
توریت کے تعلق سے یہ معلوم ہے اور ہم کو قرآن میں بتلایا گیا ہے کہ جن لوگوں کو ذمہ داری دی گئی تھی جن کی حفاظت میں دی گئی تھی انہوں نے اس میں ترمیم کی تھی۔ اسی لیے قرآن سے وہ دور شروع ہوا ہے ۔ جس کے لیے اللہ تعالی نےیہ اعلان کر دیا کہ اب اس کی حفاظت ہم کریں گے ۔
سورۃ الحجر آیت نمبر 9 میں اللہ فرماتا ہے۔ بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے،
تو اب یہ قرآن جس امت کے پاس ہے جن لوگوں کے پاس ہے جو اس کے امین بنائے گئے ۔اور اس کے پیغام کو نشر کرنے کی ذمہ داری جن دی گئی جن کے لیے قرآن یہ کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں چن لیا ہے وہ اب اس میں تبدیلی تو نہیں کر سکتے لیکن شیطان اپنے چال میں اور اپنے ارادوں میں اس طرح سے کامیاب رہا کہ تبدیلی وہ نہیں کرا سکا لیکن اس کو بند کر کے طاق پر رکھتے ہیں ۔یہ کتاب ہدایت جو تھی بند کر کے رکھ دی گئی طاقوں میں سجا دی گئی ہے۔ شیطان نے آپنا کام کردیا اور امت یہ سمجھ رہی ہے ، کہ اللہ کا فرمان پورا ہورہا ہے۔ قرآن نہیں بدلا ، اور ہمارےبڑوں نے اس کا گہرا مطالعہ کیا ہے ،اور ہم ان کے احکام پر چلیں گے کیونکہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں کہ ہم اس کی گہرایوں کو سمجھ سکیں ۔
اور اوپر سےیعنی جنہوں نے اپنی دوکان کھولی تاکہ اُن کی اپنا فلسفہ یا اپنا قلبی اطمینان ہو۔ جو رسم چلے آ رہی ہیں ویہی چیز عبادت کے نام پر لوگوں نے بتا دی اسی پر چلتے چلے گئے اور یہ احساس بھی ختم ہو گیا کہ قرآنی کتاب ہدایت ہے جس کو پڑھ کے سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اگر احساس ہوتا تو ہم سب ذہن رکھتے ہیں اچھے ذہن رکھتے ہیں ایک عمدہ ذہن رکھتے ہیں اللہ نے بہترین ساخت پر ہمیں بنایا ہے
سورۃ التین آیت نمبر 4 ، بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے،
اور ہم ہر چیز میں بے انتہا سوال کرتے ہیں کچھ لوگ عام سطح کے کچھ لوگ اعتدال اور باریک بین ہوتے ہیں اور کچھ بال کی خال نکالتے ہیں ہم یہ کہتے ہیں لیکن ایک عام انداز کے آدمی سے بال کی خال نکالنے والے تک یہ سوال نہیں کرتا کہ اس کتاب ہدایت کو تو ہم نے سمجھا نہیں ہدایت کہاں سے مل رہی ہے تو یہ ایک ایسا نفسیاتی معاملہ ہے ، ایک روک لگا دیی گئی ہے ہمارے ذہنوں پر اور اس میں ہم بھی شریک رہے کہ ہم نے اپنے ذہن کو اس طرف موڑا ہی نہیں ۔ حضرت ابراہیم کے اس راستے پہ نہیں چلے جس میں انہوں نے حق کی تلاش کری تھی ہم اگر اپنے زندگی میں چاروں طرف جو ہو رہا ہے اور اس میں حق کی تلاش میں لگتے تو سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھتا ہے کہ جو تضاد ہمیں اپنے یہاں نظر آ رہے ہیں جو چیزیں فطرت میں ہم دیکھیں ، اللہ تعالیٰ کی کاینات میں کوئی بھی چیز نہ تو فضول ہے نہ بلا وجہ ہے ہماری زندگی میں بہت سی چیزیں فضول اور بے وجہ نظر آتی ہیں اور ہم کبھی نہیں سوچتے ہمیں ایسا کیوں لگ رہا ہے توبہر حال قصہ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لیا کتاب اپنی جگہ محفوظ ہے لیکن دو سر رخ پلٹ گیا جس وقت تک اس کی حفاظت ان لوگوں کے پاس تھی جن پہ ذمہ داری دی گئی تھی اس وقت تک شیطان انہیں کے ذریعے کام کراتا تھا جو تبدیلیاں کرتے تھے ۔اسی لیے تورات کے دور کے بعد یہاں کہا جا رہا ہے کہ اسی تندروی سے ہم ہمکنار ہیں۔ اس پہ اللہ نے حضرت عیسیٰ کو انجیلی اور جیسا اللہ نے فرمایا کہ قرآن پہلے بھیجی ہوئی کتابوں کی تصدیق بھی کرتی تھی ساتھ ہی ان کمی کی بھی بات اجاگر کر دیتی تھی جو اس میں کر دی گئی تھی کیونکہ یہاں جس تسلسل کی بات ہے اس میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ تسلسل ہمیں بتا رہا ہے کہ اللہ کی ہدایت چلی آرہی ہے، یہ ہدایت تھی ، نور تھا ،تورات میں بھی یہی بات آ رہی ہے انجیل میں بھی آ رہی ہے قرآن میں بھی یہی بات چلی آ رہی ہے تو یہ ہدایت آئی ہے ، یہ شریعت میں اللہ نے جو ہدایت اور جو راستہ دکھایا ہے تمام انسانیت کو وہ ایک ہی تھا ایک ہی طریقے بتائے گئے اس سے پہلے جو اس کے ذمہ دار اور محافظ تھے جو ان کے علماء احبار تھے ربانی تھے ، واضع لیکن جوبھی نظر آتا ہے کہ تبدیل ہوا اب اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت اپنی ذمہ لے لی قرآن کے لیے بھی یہ کہا گیا ہے کہ ہدایت اور نور ہے اور ہم یہاں بھی بھی دیکھتے ہیں جو تورات کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے۔متقین کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے یہ چیز قرآن میں شروع میں بتائی گئی ہے قرآن کے تعلق سے بھی یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ ھدی للمتقین ۔ یہ کتاب متقین کے لئے ھدایت ہے، متقین صرف دو جملے میں واضع کئے جاسکتے ہیں، یعنی کے قرآن میں دئے گئے احکامات جس بات کو کرنے کا حکم ہے اور جس کام سے روکا گیا ہے۔ جو انسان اس بات کا پوری طور سےپابند ہے ،وہ متقیٰ ہے۔
یعنی تمام ہدایت جو چلی آرہی ہیں جس تسلسل سے جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کااساس جو ہے وہ تقویٰ ہے اس میں کوئی ملاوٹ یا گنجائش نہیں ہے کہ اچھا تھوڑا سا اللہ کے کہنے سے کر لیا ہے کچھ دوسرے کہنے سے کر لیا ہے چاہے وہ دوسرا میرا خود نفس ہو میرے بڑے ہو ں ،میرا سماج ہو رسم و روایات ہوں ۔ کیونکہ جب بھی کوئی دوسرا آتا ہے ، تو ہم اللہ کو چھوڑ وہ دوسرے خدا کے حکم پر چلتے ہیں ۔ہمارا نفس اور ہمارے رسم رواج ہمارے خدا بن گئے ہیں ، ہم آج کے سسٹم میں آج کے نظام میں اگر ہم دیکھیں تو اس کی مثال ہمیں جی پی ایس سسٹم سے ملتی ہے کہ اگر ہم گاری میں بیٹھے ہیں اپنے کہیں جانے کے لیے ہم نے اپنا جی پی ایس سسٹم لگایا تاکہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں اور جب جی پی اس ،نظام نے ہماری رہنمائی کے لئے راستہ بتانا شروع کیا تو ہم بجائے اس بتائے ہوئے نقشے کے آپنی مرضی کے مطابق راستہ اختیار کریں تو منزل کہا ں ملے گی۔
یہی ہمارا انجام ہوگا آخرت میں اور دنیا میں بھی، آخرت کی کامیابی دونوں جہاں کی کامیابی یہ ہمارا مقصد حیات ہے اب اس میں وہ نقشہ جو ہمیں ایک راستہ دکھا تا کہ اس راستے پر آپ چلیے اگر ہم اس راستے پر چل پڑتے ہیں تو پھر وہ راستہ ہمیں ہدایت دیتا چلا جاتا ہے کہ آپ ادھر موڑئے اب یہ کیجئے اور وہ کیجئے لیکن اگر ہم اس راستے پر جاتے ہی نہیں تو پھر اس جی پی ایس میپ سے ہمیں ہدایت نہیں ملے گی تو اگر ہم اللہ کی ہدایت پر آگے تقوی کا راستہ چھوڑ کسی اور کے بتائے ہوئے راستے کو فالو کرتے ہیں تو اس میں اللہ کا قصور ؟
اور اگرہم اللہ کے دئے ہوئے راستے سے چلتے ،ہیں تو پھر ہمیں ہدایت ملتی چلی جاتی ہے جب تک کہ ہم منزل پر نہیں پہنچ جاتے ہیں اور یہ منزل پہنچے کی کیفیت یہ ہے کہ ایک منزل سے ہم گزرتے ہیں اور دوسری منزل کی طرف جاتے ہیں یعنی فوری زندگی دنیا کی زندگی سے ہم گزرتے چلے جاتے ہیں اور کامیابی کے ساتھ گزرتے ہیں جس طرح اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ اللہ کا تقوی اختیار کرتے رہتے ہیں ان کے لئے خوشخبری ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہے تو یہاں بھی کامیابی سے گزرتے ہیں اور یہ لئے کہ آپ نے جی پی ایس کے بتائے ہوئے راستے سے گزر جر منزل مقصود پر کامیابی سے گزرتے ہوئے اور آخری منزل تک پہنچ جاتے ہیں تو حدالمتقین بہت اہم بات ہے ہمیں کتاب سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے محض اس کو سمجھ کے پڑھنا اور اس پہ غور و فکر کرنا ہی ضروری نہیں ہے کیونکہ اکثر کوئی اگر یہ سوچے کہ میں قرآن سمجھتا بھی ہوں اس پہ غور و فکر بھی کرتا ہوں اس کے نوٹس بھی میں نے بنا رکھے ہیں میں نے ہدایت لکھ رکھی ہیں سب لیکن اگر میں عمل نہیں کر رہا تو میں ابھی متقین کے زمرے میں نہیں آتا۔
اور اگر میں متقین کی صنف میں نہیں آتا تو مجھے ہدایت نہیں ملے گی یعنی قرآن کو پڑھا سمجھا اورغور و فکر کیا اور اس کے بعد اپنے نے ایک خاکہ تیار کیا کہ مجھے زندگی اس طرح گزارنا ہے اب اگر میں نے اس طرح گزارنا شروع کر دی تو میں متقی ہو گیا ؟ جب ہم عمل کرنا شروع کرتے ہیں تو یہ بڑی عیاں اور واضع ہو ا کہ ہم ھدایت کے راستے پر ہیں ، کیونکہ اللہ کے احکامات پہ آنے سے پہلے انسان جب اپنے نفس کے مرضی کی زندگی گزارتا ہے تو اس کا انداز دوسرا ہوتا ہے بدکلامی بھی کرتا ہے غصہ بھی کرتا ہے انصاف بھی نہیں کرتا معاملے رشتداروں کے حق کے زمن میں نیت صاف نہیں ہوتی رشتدار اور متعلقین سے صرف قرابت بندی کی رسم نبھاتا ہے۔اس کو اپنے قریبی رشتے داروں سے بھی غرض کی محبت ہوتی ہے رشتوں کی اخلاص کی محبت نہیں ہوتی مال کمانے کے حرص کرنے کے انداز دوسرے ہوتے ہیں پوری زندگی کے نقشہ الگ ہوتا ہے لیکن قرآن کو سمجھ کے جب وہ قر
Comments
Post a Comment