آج - 27 اپریل .....اردو میں ما بعد جدید نظریہ کے حامل شاعروں میں اپنی منفرد شناخت، نگارشات اور نو تراشیدہ لفظی ترکیبات کے سبب معروف اور ممتاز شاعر” مقیم اثر بیاولی صاحب “ کا یومِ وفات...(بشکریہ...ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی)
آج - 27 اپریل .....اردو میں ما بعد جدید نظریہ کے حامل شاعروں میں اپنی منفرد شناخت، نگارشات اور نو تراشیدہ لفظی ترکیبات کے سبب معروف اور ممتاز شاعر” مقیم اثر بیاولی صاحب “ کا یومِ وفات...
(بشکریہ...ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی)
اردو میں ما بعد جدید نظریہ کے حامل شاعروں میں اپنی منفرد خصوصیات، اچھوتی اور نرالی نگارشات اور نو تراشیدہ لفظی ترکیبات کے سبب مقیم اثرؔ بیاولی ثم مالیگانوی کا نام ممتاز اور نمایاں مقام و منصب پر فائز ہے۔ آپ ادارہ رسیدہ روایتی ترقی پسندی، فیشن زدہ روایتی جدیدیت پسندی، کوتا ہ رسیدہ اشتراکیت پسندی کے فرقہ وارانہ تعصبات کے خول سے ماورا ہمہ جہت و ہمہ گیر بلکہ عالمگیر و آفاقی روحانیت پسند، اخلاقیت پسنداور فطری انسانی بصیرت و بصارت کے حامل سکندرانہ اداؤں اور قلندرانہ جلال کے امیٖن ایک اچھے اور سچے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ انشاپرداز اور مایۂ ناز نثر نگار بھی ہیں۔
بقولِ نظام صدیقی :
’’ پچاسوں دیوانوں کا دیوانہ شاعر … مقیم اثرؔ کا ما بعد جدید تخلیقی شعری کردار اکیسویں صدی کو محیط وہ برق رَو معانی آفریں، جہت نما، روشن سفر ہے، جو بھٹکی ہوئی غزل اور نظم کا قبلہ درست کر دے گا۔ ‘‘
مقیم اثرؔ کی شاعری کے موضوعات متنوع اور گوناگوں، ہمہ گیر و ہمہ جہت ہیں۔ آپکی شعر کائنات کے موضوعات کا دائرہ آدمی، زندگی، زمانہ، کائنات، خالقِ کائنات، فطرت کے گہرے حقائق، جبر و اختیار، مقامِ آدمیت، منصبِ رسالت، عقیدے سے گہری وابستگی، قضا و قدر، جذباتی بے رشتگی سے پیدا شدہ تنہائی، سماجی بے گانگی، لایعنیت، احساسِ زیاں، احساسِ نا تکمیلیت، لا حاصلی، یاسیت، لا حاصلی، درد و غم، شعلہ فگنی، احتجاج، انحراف، جلال، جمال، عاشقی، رندی، سرمستی، آلامِ روزگار، دعائے بزرگاں، جفائے دوستاں، آزارِ دشمناں، اعترافِ حقیقت، پابندیِ وقت، غمِ ذات، غمِ کائنات، اقدار کی پامالی، مادیت کے فروغ سے بڑھتے جرائم وغیرہ کو اپنی وسعتوں میں محیط کرتا ہے۔
مقیم اثرؔ بیاولی، 27 اپریل 2017 کو انتقال کر گئے۔
(بشکریہ...ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی)
مقیم اثر بیاولی صاحب کے یوم وفات کے موقع پر موصوف کے منتخب و منفرد کلام احباب کی خدمت میں پیش ہیں.....
انتخاب و پیشکش.....طارق اسلم
عریانیت نے چھین لیا جسم سے لباس
ملتے ہیں اب غزل میں بھی شہوانیت کے بت
غیروں کے تبصرے کا بھروسہ نہیں مجھے
تنہایوں میں آ ! مری اچھائیوں سے مل
سورج ، چاند ، ستارے ، جگنو ، آنسو ، دیپ
تجھ بِن سب کے گھر میں اندھیرا لگتا ہے
غزل اپنے عصری تقاضوں کے باعث
کبھی گل کبھی خار میں ڈھل رہی ہے
تشنگی ساحلِ تشنہ کی بجھادے تو کہوں
اپنے کوزے میں اگر رکھتا ہے پانی ، دریا
جسم کے اندر اندھیرا دور تک پھیلا ہوا
پھر بھی خوش ہم صورتوں کو اپنی چمکاتے ہوئے
اک نئی گمنامی پھر ڈھونڈے گی تمھیں
آج اگر شہرت کے افق تک پہنچے ہو
اصلیت چہرہ بدلنے سے کہیں چھپتی ہے
خود کو میں خود سے چھپاؤں یہ ضروری تو نہیں
چند لفظوں کے علاوہ اور کیا دادِ ہنر
کب اثر فن کار کو اس کا صلہ دیتے ہیں لوگ
برف میں دیکھ کر شرار اثر
کوہساروں کا حوصلہ چُپ ہے
شب کے کاغذ پہ نہ کیوں نور کی تحریر لکھوں
دشتِ بے سمت میں اندازۂ شب ہے مجھ کو
خواب کی تتلیوں پہ مرتا ہوں
یہ بھی جینے کا اک بہانہ ہے
دھوپ ہی دھوپ ہر اک سمت نظر آتی ہے
شاخِ بے برگ پہ طائر کا بسیرا بے بس
مشرق و مغرب کے پیمانوں میں ہے جھوٹی شراب
جس کو پی کرسب بنے پھرتے ہیں حق کے پاسباں
اثر وجودِ بشر ظلمتوں سے خائف ہے
خدادراز کرے سلسلہ چراغوں کا
ہرایک عہد کی تصویر جلوہ گر اس میں
اثر اسی سے ہوئی اور باوقار غزل
"خاموشی" کو "منبر کی روشنی" سمجھتا ہے
"بے خودی" کو دیوانہ "آگہی" سمجھتا ہے
وقت سے آگے چلنے کی کوشش کی تھی
پچھلی صف میں آج کھڑا ہوں دنیا کی
تم تو خیر اپنے تھے تم سے کیا گلہ کوئی
ہم نے دشمنوں کو بھی بارہا دعا دی ہے
میر، غالب اور مومن کے طرف داروں میں ہم
پھر بھی ہم کو اے غزل رنگِ جدا درکار ہے
خون اگرزندہ ہے رگوں میں رستے میں گل زار بہت
مرنا سیکھو پیدا ہوں گے جینے کے آثار بہت
شہرِ حاتم میں تھے جو چاہتے مل سکتا تھا
مانگتے کیسے، تھے خوددار سمندر ہم لوگ
یہ بھی اعزاز ملے گا تمہیں اپنے فن کا
دل میں احساس جنم لے گا اکیلے پن کا
اس دور کے انسان کی ہر فکر پہ لعنت
تعمیر کا مقصد اگر انسان کُشی ہے
"آنسوؤں کی بارش" کا زور کس طرح چلتا
"یاد کی منڈیروں" پر ہم نے "دل جلایا" تھا
نئے الفاظ بھی سوزِ غزل کی روح تک پہنچے
اثر یہ فیضِ بے پایاں ہے غالب کے دبستاں کا
Comments
Post a Comment