حیرت میں ہے عالم تیرے اقصی کے سفر سے بقلم۔۔۔محمد ناظم ملی تونڈاپوری استاد جامعہ اکل کواں
بقلم۔۔۔محمد ناظم ملی تونڈاپوری استاد جامعہ اکل کواں
یوں تو حضور ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ ان کی توقیر و عزت ان کا افتخار و شرف کائنات کے اندر تمام چیزوں سے اعلی و بالا اور بڑھ کر ہیں احترام و اکرام اور افتخار و عزت کی جتنی صورتیں ہو سکتی ہیں وہ تمام کے تمام سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر رب العالمین نے پوری فرما دی جس کو یوں تعبیر کیا گیا
يا صاحب الجمال ويا سيد البشر
من وجهك المنير لقد نور القمر
لا يمكن الثناء كما كان حقه
بعد از خدا بزرگ توئ قصہ مختصر
جو شرف جو افتخار رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے عنایات فرمائیں ہیں ان میں اسراءاور معراج کے سفر کو بڑی اہمیت و وقعت حاصل ہے واقعہ معراج حضور صاحب قاب قوسین صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کا اعلی شاہکار ہیں اس سفر سے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعنا لک ذکرک کا اظہار ہے وہیں خدائے بزرگ و برتر کی حاکمیت اعلی اور اس کی قوت قاہرہ کا بھی اظہار عام ہے بعض محققین نے اس کو اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز اور اعجازدونوں بیان فرمایا ہے یعنی یہ ایک مخصوص شرف و عطا اورایک بڑا معجزہ ہے تاریخ انسانیت بلکہ تاریخ انبیاء میں یہ بات صرف اور صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے ۔ ہاں اس کے علاوہ معجزات دیگر انبیاء علیہم السلام کو بھی دیے گئے ہیں اس لیے کہ معجزات صرف اور صرف انبیاء علیہم السلام کی ذوات بابرکات ہی کو دیےجاتے ہیں۔ ہاں جو باتیں اورخوارق عادت چیزیں انبیا کے علاوہ اللہ اپنے نیک بندوں کو عنایت فرماتا ہے وہ معجزہ نہیں بلکہ کرامت ہوتی ہے یوں باور کرتے چلیں کہ معجزہ انبیاء کی خصوصیات ہیں ان کے علاوہ صحابہ کرام تابعین تبع تابعین اولیاء اور خدا کے نیک بندوں سے جو عجائبات رونما ہوتے ہیں وہ کرامت کہلاتے ہیں اور معجزہ ہو یا کرامت عقائد کے باب میں اہل سنت والجماعت کے نزدیک حق ہیں یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ معجزہ ہو یا کرامت ان سب کا فاعل حقیقی اللہ رب العزت کی ذات ہی ہوتی ہے نا کے نبی۔ اور جب اس کرشمہ خداوندی کو انسان اپنی عقل و نگاہ سے تولنے اور پرکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی عقل مات کھا جاتی ہے اور وہ حیرانی وہ استعجاب کا شکار ہونے لگتی ہے۔ جبکہ اس کو اپنی طرف نہیں قادر مطلق کی طرف منسوب کر کے دیکھنا چاہیے! معجزہ درحقیقت اتمام حجت ہوتا ہے ہم زیل میں چند مثالوں کے ذریعے بات کی توضیح کرنا چاہیں گے
سب سے پہلے سیدنا ادم علیہ السلام کی خلقت پھر سیدہ حوا کی پیدائش اسی طرح طوفان نوح کی قہرمان لہروں اور لپیٹوں میں سفینہ نوح کا بسلامت جودی پہاڑ پر ٹہر جانا اور طوفان خداوندی کی عام بلا میں قوم عاد کا ہلاک ہو جانا اور اسی طوفان میں ہود علیہ السلام کا اپنے ماننے والوں کے ساتھ محفوظ رہنا ۔قوم کی طلب پر صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا پہاڑ سے برامد ہونا اتش کدہ نمرود کا بحکم خداوندی ابراہیم کے لیے گل و گلزار ہو جانا اور اسی اگ کا موسی کے لیے ضرررساں بن جانا چھری کی فطرت ہے کاٹنا مگر اسی چھری کا حلقوم اسماعیل پر بے اثر ہو جانا اور دیدار حسن یوسف کے وقت زنان مصر کی انگلیوں کا کٹ جانا اسی طرح ایوب علیہ السلام کی ٹھوکر سے پانی کا نکلنا اور پھر اس کا ان کے حق میں شفایاب ہو جانا موسی علیہ السلام کو دی گئی ایات بینات جن میں عصا ۔ید بیضاء ۔قمل۔ضفا دع۔فلق بحر۔من و سلوی۔انفجارعیون۔نطق جبل۔اور الواح تورات۔یہ تمام معجزات ہے جو معجزات کلیم اللہ کہلاتے ہیں اسی طرح شکم ماہی میں یونس علیہ السلام کا 40 دن تک زندہ و سلامت رہنا حضرت مریم کے پاس بے موسم تازہ پھلوں کا انا۔اور ارذل عمر۔یعنی عمر کے اخری دور میں زکریا علیہ السلام کا صاحب اولاد ہونا۔پیدائش کے معروف طریقے سے ہٹ کر سیدنا عیسی علیہ السلام کا تولد ہونا۔ان سب معجزات کا فاعل حقیقی اللہ رب العزت ہی ہے اگرچہ کہ انبیاء علیہم السلام سے اس کا صدور ہو ا ہے قران حکیم میں بے شمار جگہوں پر اللہ رب العزت نے اس کی واضح تصریح کی ہے۔ وهو الله في السماوات والارض خالق كل شيء وهو على كل شيء قدير اور ایک جگہ یوں فرمایا يولج الليل في النهار ويولج النهار في الليل يخرج الحي من الميت ويخرج الميت من الحي۔ اشیاء کو حسن صورت سے معمور کر دیں تاثیر و تاثر سے بھر دیں یا بےکار و معطل کر دیں سب اسی اللہ کے ہاتھ میں ہیں
حکمراں ہیں بس وہی باقی بتان ازری
گردش لیل و نہار کو وہ روک دے یا نظام سیارگان کو معطل کر دے انسانی رفتار حیات کو بے کار کر دے تو اس کی مرضی میں کون ہے جو دخل دے؟ سمندر کو بخارات میں اور بخارات کو ابر میں اور پھر ابر کو برسات میں بدل دیں افتاب سے مہتاب کو روشن کر دے اور چاند کی روشنی سے سمندر میں مدوجزر ज्वार भाटा پیدا کر دے تو کون ہے؟ جو اس کے معاملات میں دخل دے؟االہ مع الله قليلا ما تذكرون کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور ہے جو اس کام کو انجام دیں بہت کم ہیں ایسے لوگ ہیں جو اس کا شعور رکھتے ہیں جب فاعل حقیقی اللہ رب العالمین ہی ہے تو نہ کسی کو تبدیل و تنسیخ میں نا ہی معطل و بے کار کرنے میں کوئی اختیار ہےنہ ہو سکتا ہے پھر وہی اللہ جس نے انسان کو بنایا ۔نباتات جمادات حیوانات اور گیتی وگردوں کی تمام مخلوقات پر اس کو فوقیت و افضلیت دی عقل و خرد سےاسکو نوازا جب وہی انسان خدا کی دی ہوئی اس عقل کے بوتے پر اسمان و زمین کے قلابے ملائے مریخ ثریا پر کمندے ڈال دے چاند کی زمین کو بھی زیر پا کر لیں شمس و قمر کی اصطلاحوں میں باتیں کرنے لگے اوراس طرح فکر گستاخ فطرت کی طاقتوں کو عریاں کریں تو پھر معراج نبی کا انکار کیوں؟دیکھیے نا انسان ایک محدود طاقت کی بنیاد پر اس قدر عجائبات زندگی کو پیش کر سکتا ہے تو و ہ قادر مطلق ذات جو سمتوں اور جہتوں سے پاک ہو جو کھانے پینے سونے جاگنے اور دیگرچیزوں سے بھی پاک ہو پھر جس کی قدرت کی نہ کوئی حد ہو نہ حساب جب ایسی ذات ہی لے کر جائے تو پھر اسرا ء اور معراج کا انکار کیوں؟ذرا اس طرح سمجھیے کہ انسان مخلوق ہے اور اپنے خالق کی قلیل عطا پر وہ اتنا ترقی کر لیں کہ اصوات کو الفاظ میں اور الفاظ کو مفہوم میں تبدیل کر کے افکار و خیالات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیے اسی طرح اپنی حیات کی اسودگی کے لیے نت نئی دریافتیں کر لیں تیز رفتار سواریاں بنا لیں فی گھنٹہ 600 کلومیٹر رفتار کی ٹرینیں اور خلائی سفر کے لیے سواریاں بھی ایجاد کر لیں آسائش حیات کے لیے بلور و سنگ اور اب و اتش اور خشک تر سے خوب استفادہ کریں غذا علاج ذرائع ابلاغ وسائل حمل و نقل الات حرب و ضرب ہوائی جہاز موبائل ویڈیو ٹیلی ویژن ٹیلی فون اور سورج کی شعاعوں کو گرفتار کریں اور خلاؤں میں پھل فروٹ اور سبزیات پیدا کرنے کی اصطلاحوں میں کامیاب ہو جائیں تو پھر اس قادر مطلق مختار کل خالق بحر و بر زمین و اسمان کا مالک جس کی شان ہی کن فیکون ہے جب وہی یہ کہے سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام الى المسجد الاقصى. کہ ہم نے اپنے سب سے زیادہ محترم و مکرم بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات و رات بلکہ رات کے کچھ حصے میں عروج و کمال کی منزلیں طے کرائی بہشت برزخ جنت جہنم اور ساتوں اسمان کی سیر کرائی سدرۃ المنتہی اور پھر عرش عظیم تک لے جائیں ثم دنى فتدلى فكان قاب قوسين او ادنى کہ شرف سے نوازے تو بھلا اس میں تعجب اور انکار کیسے؟ اور اگر اس سے انکار ہے؟ تو یہ حقائق کا انکار ہے بلکہ قدرت کا انکار تصور کیا جائے گا اور سوا کفر کے اور کیا کہا جاۓ گا. جب انسان اپنی محدود طاقت و قوت سے اس کا موازنہ کرے گا تو ضرور دھوکہ کھا جائے گا اسی لیے اس قادر مطلق اقا نے پہلے ہی فرمایا سبحان۔ کہ لے جانے والی ذات پاک ہے ساری کمزوریوں سے تواب یہ مانا جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود نہیں گئے بلکہ اپ کو لے جایا گیا اور کون لے گیا ذات سبحان! اس لیے حیرت اور استعجاب نہیں ہونا چاہیے
زنجیر بھی جنبش میں تھی بستر میں بھی تھی گر می
حیرت میں ہے عالم تیرے اقصی کے سفر سے۔۔ جاری
Comments
Post a Comment