یا رب تیری زمین پر زمین کی خاطر یہ جنگ
کیوں ہے۔ ہر فتح شکست کے ماتھے پر نوع انسان کا خون کیوں ہے۔
از قلم۔۔۔
مختار فرید،بھیونڈی۔
قتل و غارت گیری کے واقعات سے تاریخ کے صفحے بھرے پڑے ہیں۔ مفکر اور دانشوروں نے اس مو ضوع پر لکھ لکھ کر کتابیں بھر دئی ہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم شرم شار ہوتے رہتے ہیں خاصتاّ مسلمان۔ ہمارا سارا
فلسفہ دھرا کے دھرا رہ جاتا۔ اسلام ،اور مسلم جس کی معنی سلامتی اور امن کے ہوتے ہیں۔ اور اکثرہم قرآن کی سورة المائدہ آیت نمبر ۳۲ کا حوالہ دیتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ کسی جاندار کو قتل کرنا گویا سارے انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ یعنی سخت ترین جرم ہے۔ ( سورة لمائدہ آیت نمبر ۳۲ ۔ )
اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی اورہمارے رسولوں ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں سے بہت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔
یہ قرآن میں لکھا ہوا ہے اور کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا۔ اسلام اور سلامتی ہم سے منسلک ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سارے فسادات کی جڑ ہم سے جُڑی ہوئی ہیں۔ہم دیکھیں گے کہ کیا ان باتوں کا دیرپا حل ہے۔ ہر انسان نے آپنی مسولیت اور ذمہ داری کو پہچان لینا چاہیے۔ ہم اگر اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ کتاب اللہ سے بڑھ کر کوئی ھدائیت نہیں اور محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی لیڈر نہیں تو ہمارے لئے حالیہ حالات سے نمٹنے کا ان راستوں سے بہتر کوئی راستہ نہیں۔
پہلا اصول تو اللہ کی کتاب سے اُوپر لکھ دیا گیا ہے۔ سورة المائدہ آیت نمبر ۳۲۔ خلاصتاٌ۔ کسی کی بھی جان لینا سارے انسانیت کو قتل کر دینے کے برابر ہے۔ اگر ہم قرآن کے لفظوں پرغور کریں تو ہم بہت ساری باتیں جان لیں گے، لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ من قتل نفسا ، " جس نے بھی کسی نفس کا قتل کیا "۔ یہاں لفظ نفس کا استعمال ہوا ہے۔ نفس یعنی ایسی مخلوق جو سانس لیتی ہے۔ اس طرح اس میں ہر جاندار شامل ہوگیا۔ مگر اسی آیت میں آگے لکھ دیا گیا ہے۔ قتل اگر بغیر سبب کے کیا گیا، ہم اُن جانوروں کا قتل کرتے ہیں جن جانوروں کا گوشت کھانا حلال قرار دیا ہے۔ جن جانوروں کا گوشت حرام ہے. اُنھے بھی بغیر کسی وجہ سے مارنا منع ہے۔ یہ ہے قرآن کا حکم۔ آئے اب ہم دیکھیں گے کہ اس حکم کو کس طرح نافذ کیا جائے۔ قرآن حکم دیتا ہے اور حضور صل اللہ علیہ و سلم اِن احکامات کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہو گا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما
نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ ( صحیح بخاری حدیث نمبر ۸۹۳ )
مختصراً۔ ہر انسان کیا یہ فرض ہے کہ جو لوگ اُس کے ماتحت ہیں اُن کی رہنمائی کا ذمہ اُس کا ہے۔ اور جب اللہ نے ذمہ داری عائد کی تو اُس ذمہ داری کا حساب لیا جائےگا۔ اب یہ سوال ہم آپنے آپ سے کریں؟ کہ اِس زمن میں ہم نے کیا کیا۔ کس حد تک ہم نے اِس پیغام آمن کو نافذ کرنےمیں کوئی کردار نبھایا۔ کیا ہم ایک اچھے خاندان کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ کیا خاندان کا سربراہ آپنی ذمہ داری قبول کرنے اور نبھانے تیار ہے ؟ آجکل کے خاندان گھٹ کر صرف ماں باپ اور بچے بچیوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ بہت ہی کم ایسے گھرانے ہونگے جس میں دادی اور پوتا پوتی رہتے ہوں۔
یہ حقیقت ہے کہ انسانی ذہن بہت جلد سیکھنے کی قدرت رکھتا ہے۔ بچہ جو ماحول میں آنکھ کھولتا ہے بڑے حد تک اُسی ماحول میں ڈھل جاتا ہے۔ ہمارا نشانہ ہر وہ بچہ ہونا چاہیے جو بولنا سیکھ رہا ہے۔ بچپن سے ہی ذہن کو اسطرح مولڈ کیا جائے جس ذہن میں صرف امن اور سلامتی کی فکر جڑ پکڑے۔ یہ پودا ہمیں لگانا ہے جس کا پھل کئی سالوں کے بعد ہی سہی ملے۔ ہمارے ان مشکلات کا حل ہے مگر کافی وقت طلب اس کا نتیجہ آنے کے لئے تقریباً ۲۰ سے ۲۵ سال لگیں گے۔ یہ سوچ کر ہم قدم آگے نہیں بڑھائیں گے تو منزل کہاں ملے گی۔
ہم سب ایک عہد کریں کہ گھر کے سب لوگ دن میں ایک بار جمع ہوں اور گھر کا بڑا جس پر اللہ کے رسول نے ذمہ داری ڈالی ہے وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اللہ کا یہ پیغام ہر فرد کو رٹا دے کہ۔ کسی کی جان لینا حرام ہے۔ ایک اللہ کی عبادت کریں۔ دنیا کے ہر انسان برابر ہیں۔ عورتوں کی عزت کریں۔
قرآن ہمارے لئے زندگی گزارنے کی راہ واضح کرتا اسلئے قرآن معنی کے ساتھ روز پڑھںا آپنے اوپر واجب کرلیں اور جو آیت راہ بتاتی ہے، اس پر عمل کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنائیں اور حتی امکان سب دوستوں کو دن میں ایک بار یہ نصیحت پہنچا ئیں۔ یہ جد وجھد ایک دن رنگ لائے گی۔ آؤ اللہ سے دعاء کریں کہ اللہ ہم سب کو امن و سکون عطاء کرے۔
Comments
Post a Comment