(قسط 5) معاشی غلامی: سودی نظام اور عالمی تسلط کی تاریخ۔(تحریر: ابرارالحق مظہر حسناتی)

(قسط 5) معاشی غلامی: سودی نظام اور عالمی تسلط کی تاریخ۔
(تحریر: ابرارالحق مظہر حسناتی)

دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ طاقتور اقوام نے کمزور اقوام پر غلبہ پانے کے لیے مختلف حربے اپنائے ہیں۔ کبھی یہ غلبہ عسکری قوت کے ذریعے حاصل کیا گیا، تو کبھی ثقافتی یلغار کے ذریعے۔ لیکن موجودہ دور میں جس ہتھیار نے دنیا کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے، وہ "سودی نظام" ہے۔ یہ نظام طاقتور اقوام اور عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے کمزور اقوام کو معاشی غلامی میں دھکیلنے کا سب سے مؤثر ذریعہ بن چکا ہے۔
سودی نظام نے اپنی بنیاد یورپ کے جدید مالیاتی نظام کے آغاز سے رکھی، لیکن اس کی جڑیں مزید گہرائی میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس نظام نے رفتہ رفتہ نہ صرف معیشتوں بلکہ سیاسی و سماجی نظاموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور آج یہ نظام غریب ممالک کو قرضوں کے جال میں جکڑ کر ان کی خودمختاری کو مفلوج کر رہا ہے۔
سودی نظام کا آغاز اور ترقی
1694 میں "بینک آف انگلینڈ" کے قیام کو جدید بینکاری نظام کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ اس بینک نے حکومتوں اور تاجروں کو سودی قرضے دینا شروع کیے اور اس نظام کو ایک باقاعدہ شکل دی۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ میں معاشی استحکام اور سامراجی عزائم کے تحت سود کو ایک ضروری ذریعہ سمجھا گیا۔
جلد ہی سودی قرضوں کے ذریعے یورپی طاقتوں نے اپنی معیشت کو مستحکم کیا اور نوآبادیاتی اقوام کو کمزور کرنے کا عمل شروع کیا۔ مشرق وسطیٰ، افریقہ، اور ایشیا میں اقتصادی استحصال کو سودی نظام کے ذریعے مزید تیز کیا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے اس استحصالی نظام کو مزید فروغ دیا۔ برطانیہ، نیدرلینڈز، اور فرانس نے تجارت کے پردے میں نوآبادیاتی ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسا کر ان کے وسائل پر قبضہ کیا۔
19ویں اور 20ویں صدی میں معاشی غلامی
صنعتی انقلاب کے بعد یورپی اقوام نے اپنی صنعتی ترقی کے لیے نوآبادیاتی ممالک کو خام مال فراہم کرنے اور تیار شدہ اشیاء کی خریداری تک محدود کر دیا۔ اس استحصالی نظام کے تحت کمزور اقوام کو سودی قرضوں کے ذریعے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی معیشت کو انہی اصولوں پر چلائیں جو استعماری طاقتوں کے مفادات کے مطابق ہوں۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی نظام کمزور پڑنے لگا، لیکن اس کا نعم البدل عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے سودی تسلط کی شکل میں سامنے آیا۔ 1944 میں بریٹن ووڈز کانفرنس کے بعد "عالمی بینک" اور "آئی ایم ایف" جیسے ادارے وجود میں آئے۔ ان اداروں نے ترقی پذیر اقوام کو معاشی امداد اور ترقی کے نام پر سودی قرضوں میں جکڑ لیا۔ ان قرضوں کی شرائط اس قدر سخت تھیں کہ ان اقوام کی معیشتیں مزید بدحال ہوتی گئیں۔
ہندوستان اور سودی غلامی
برطانوی دور حکومت میں ہندوستان کو "سونے کی چڑیا" کے بجائے ایک مقروض معیشت میں بدل دیا گیا۔ تاج برطانیہ نے یہاں کے وسائل کو بے دریغ لوٹا اور مقامی صنعتوں کو تباہ کر کے ہندوستان کو ایک زرعی معیشت تک محدود کر دیا۔ آزادی کے بعد بھی ہندوستان سودی نظام کے شکنجے سے آزاد نہ ہو سکا۔ عالمی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کے لیے ملک کے وسائل اور عوام کی بہبود کو قربان کیا گیا۔
معاشی غلامی کی موجودہ شکلیں
آج سودی نظام اپنی جدید شکل میں عالمی معیشت پر حاوی ہے۔
1. قرض کے جال: ترقی پذیر ممالک کو ایسے قرضے دیے جاتے ہیں جن کی شرائط ان کے وسائل کو گروی رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔
2. مالیاتی اداروں کا کنٹرول: عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے غریب ممالک کی پالیسیاں کنٹرول کرتے ہیں۔
3. ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ: یہ کمپنیاں ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری کے نام پر ان کے وسائل اور مزدوروں کا استحصال کرتی ہیں۔
4. ڈالر کی بالادستی: امریکی ڈالر کو عالمی معیشت کی بنیاد بنا کر دیگر اقوام کو اپنی مرضی کے تابع رکھا گیا ہے۔
عالمی سودی نظام کے مقاصد
1. وسائل پر قبضہ: قرضوں کے ذریعے کمزور اقوام کے وسائل کو ہتھیانا۔
2. معاشی عدم استحکام: ترقی پذیر ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے روکنا۔
3. سیاسی کنٹرول: مقروض اقوام کو سیاسی طور پر بے اختیار بنانا۔
4. غربت کا تسلسل: غریب ممالک کو ہمیشہ مالیاتی اداروں کا محتاج رکھنا۔
اسلامی اقتصادی نظام: ایک متبادل حل
اسلامی اقتصادی نظام سود کے خاتمے کی بنیاد پر ایک منصفانہ معیشت فراہم کرتا ہے۔ یہ نظام شراکت داری، زکوٰۃ، اور منصفانہ تجارت پر مبنی ہے جو غربت کو ختم کرنے اور خودمختاری کو بحال کرنے کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔
آخری سوالات
کیا سودی نظام کے بغیر ایک منصفانہ عالمی معیشت ممکن ہے؟
کیا اسلامی اقتصادی اصول جدید دنیا کے لیے قابل عمل ہیں؟
ترقی پذیر ممالک سودی نظام سے آزاد ہو کر اپنی معیشت کو کیسے خودمختار بنا سکتے ہیں؟
یہ سوالات عالمی معیشت کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج کی قیادت کو چاہیے کہ وہ سودی نظام کے زہریلے اثرات کو سمجھتے ہوئے اس کا متبادل تلاش کرے تاکہ ایک منصفانہ، آزاد، اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھی جا سکے۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔