اقراء ہائی اسکول سالار نگر میں "طلباء کی"افسانوی نشست.
جلگاؤں (عقیل خان بیاولی) اقراء ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام اقرا اردو ہائی سکول و جونیئر کالج سالار نگر جماعت دہم میں یوم ہندی کی نسبت سے طلباء کی افسانوی نشست کا انعقاد ڈاکٹر ہارون بشیر کی صدارت میں منعقد کیا گیا خان فرحت تبسم مبین نفیس بانو شیخ اسماعیل، ثنا انیس شیخ بحیثیت مہمانان خصوصی موجود رہیں۔
ذیشان اقبال کی تلاوت قران سے نشست کا اغاز ہوا ۔افسانوی نشست کے اغراض و مقاصد شعبہ اردو کے ڈاکٹر انیس الدین علاؤ الدین شیخ نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم جس زبان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس زبان کے علم و ادب سے آشنا ہونا اس کے قلمکاروں کو جاننا ہمارے لیے ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمیں مادری زبان کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کا علم ، اس کے علم و ادب کو بھی جاننا ضروری ہے۔ اردو کی قریبی زبان ہندی ہے جو کہ قومی زبان کا مقام رکھتی ہے ۔ اسی یوم ہندی کی نسبت سے اس نشست کا انعقاد کیا جس میں کچھ مخصوص افسانہ نگاروں کے افسانے، افسانچے بذریعہ دہم جماعت کے طلباء پیش کریں گے جس سے طلباء کو ایک نئی سمت نئی سوچ و فکر ملیں گی۔ خود سے تحریر کا شوق پیدا ہونگا,ادب سے دلچسپی و لگاؤ پیدا ہو۔ ان مقاصد کے پیش نظر پروگرام منعقد گیا۔
سب سے پہلے عبدالہادی نے افسانے کے امام پریم چند کا تفصیلی تعارف پیش کر کے خراج عقیدت پیش کیے۔ عفان فاروق نے پریم چند کے افسانوں کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہا کہ انکے افسانوں میں دیہاتی زندگی اور حقیقی زندگی کو کردار کے ذریعہ پیش کرنے کا ایک طرز تھا۔ حذیف نثار شیخ نے مقامی افسانہ نگار رحیم رضا کے ،جنت کی مٹی، اس افسانے کو پیش کیا، عبدالمقیط رفیق نے ڈاکٹر عبدالعزیز عرفان کے تین افسانچے سناکر داد وصول کیے۔ شیعبان شیخ نے سعادت حسین منٹو کا ،تقسیم، افسانہ کو سنا کر سامعین کی توجہ اپنی طرف متوجہ کی۔ شاویز جاوید شیخ نے قابل تعریف افسانہ سنائیں۔
خطبہ صدارت میں ڈاکٹر ہارون بشیر نے نشست منعقد کرنے پر پروگرام کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر انیس الدین علاؤ الدین شیخ کا گل دے کر حوصلہ افزائی کیے نیز شریک طلباء کو مبارکباد پیش کی اور تحریری صلاحیت کو جلا بخشنے کے لیے رہنمائی فرمائی مزید اردو اور ہندی کے ربط کو موثر انداز میں پیش کرتے ہویے یہ بات بتائی کہ اردو اور ہندی میں بہت ہی یکسانیت ہے ۔دونوں زبانیں اپنی اپنی جگہ مسلم ہیں ہندی ہماری قومی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ جبکہ اردو ہماری مادری زبان ہے اور ہم مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر ہماری مادری زبان پر عبور رہا تو ہم کسی بھی زبان کو اسانی سے سیکھ سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ اپنی مادری زبان پر عبور حاصل کرے۔ ساتھ ہی ہمارے شہر میں بھی کئ افسانہ نگار ہیں ہمیں ان کے افسانوں اور دیگر تخلیقات کا مطالعہ کرنا چایۓ۔ روزانہ کے روداد لکھنے کی مشق کرنی چاہیے ایک طالب علم کی رف کاپی اس کی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ رف کاپی میں کون سے نکات کو اہمیت دیتا ہے ہمیں چاہیے کہ ہماری خدا ذات صلاحیت کو اپنے تخیلات و غور و فکر کر کے اسے تحریری شکل دے۔ روزانہ تحریر کرنے سے انسان کی شخصیت میں نکھار اتا ہے تحریر کے لیے مطالعہ کا شوق ہونا اشد ضروری ہے۔ مطالعے کے لیے ہمیں چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے ہمارے اطراف میں جو قلم کار رہتے ہیں ان سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے قلم کار اصل میں سماج کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔
ڈاکٹر انیس الدین شیخ نے اپنے منفرد لب لہجے میں اور علم کی روشنی میں مدلل حوالے دے کر اپنے نظامت کا فریضہ ادا کیا جب کہ رسم شکریہ رضوان شیخ لطیف نے ادا کیا۔
Comments
Post a Comment