ہائے رے ووٹ تیری طاقت !از قلم۔۔۔۔۔۔ محمد ناظم ملی ٹونڈاپوری
ہائے رے ووٹ تیری طاقت !
از قلم۔۔۔۔۔۔ محمد ناظم ملی ٹونڈاپوری
بعض لوگ ہیں کہ وہ ابھی بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی دیوار اٹھانے ہی میں مصروف ہے جبکہ عدوان اسلام و مسلمان باوجود فرقوں جماعتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہونے کے وہ اپنے اندر کس طرح کا اشتراک اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے پر لگے ہوئے ہیں دیکھنے میں تو یہ بھی نظر ارہا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں وہ کس طرح اپس میں متحد ہو رہے ہیں باوجود اپسی تنازعے کے ان میں اجتماعیت نظر ارہی ہیں ذہن ثاقب ہوں؛ ہوش تابندہ ہوں؛ انکھیں کھلی اور بیدار ہوں ؛تو سب کچھ دکھائی دے سکتا ہے ؟اور عقل رساں اور دانا و بینا دل کو یہ سمجھانے اور باور کرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی یہ حقیقت ہے کہ۔ حالات کی سنگینی انسان کو سب کچھ سکھا دیتی ہے مگر مسلمانوں کا ذہن ان کی طبیعت نہ جانے کس مٹی کی بنی ہوئی ہے کہ وہ اتنے حالات اور سنگین حالات سے گزرنے کے باوجود اپس کے انتشار کو ختم نہیں کر سکتے اس وقت اگر دنیا میں سب سے زیادہ انتشار۔ نفاق پھوٹ اور نا اتفاقی۔ باہم چپقلش ایک دوسرے سے شکر رنجی اگر کہیں ہیں تو وہ صرف اور صرف مسلم معاشرہ اور مسلم سماج ہے ورنہ جن کی مخالفت اور اپسی دشمنی ضرب المثل تھی یعنی یہودی اور عیسائی۔ وہ بھی اج ایک ہو رہے ہیں جن کی عداوت اور اپسی بغض و عناد کو قران مجید نے واضح فرمایا تھا اسی طرح ہندوستان میں سینکڑوں خداؤں کا تصور رکھنے والے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے عجیب عجیب طرح کا عقیدہ رکھنے والے" ورن ووستھا"वर्ण व्यवस्था پر یقین رکھنے والے بھی حالات کے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہو کر اپس میں متحد ہو رہے ہیں مگر جن کی شان ہی اپس میں متحد ہونا اور متحد رہنا بتلائی گئی تھی اور تاریخ میں جن کا اتحاد مثالی اور بے نظیر تھا !اور کیوں نہ ہوتا؟جن کی بنیاد ایک ہے 'جن کا مطمح نظر ایک ہے ؛جو ایک ہی خدا؛
ایک ہی نبی؛ ایک ہی رسول؛ اور ایک ہی کتاب کو ماننے والے ہیں باوجود اس کے تشتت اور انتشار ان میں خوب سرایت کر رہا ہے پیر پھیلا رہا ہے
اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ میں حرب و قتال جاری تھا اس درمیان " روم" Italy کے سربراہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ حضرت علی جو خلیفہ راشد ہیں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے بد سلوکی کی ہے تم پر جنگ مسلط کی ہے تم چاہو تو میں تمہاری طرف لاہ و لشکر کے ساتھ ا کر تمہاری نصرت و مدد کروں گا اور بہت جلد تم مجھ کو اپنے پاس پاؤ گے جی ہاں! حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر اس کی مدد سے حملہ کرتے اور برتری حاصل کر لیتے مگر اس مرد جلیل مرد خدا اور اسلام کے بطل جلیل نے اس رومی بادشاہ کو ایسا جواب دیا جس سے اس کے حوصلے گنگ ہو گئے تاریخ کہتی ہے جیسے ہی امیر معاویہ کے ہاتھوں میں یہ خط پہنچا خط دیکھتے ہی امیر معاویہ کی رگ حمیت اسلامی پھڑک اٹھی اور پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پورے ہوش و حواس اور غیض و غضب کے ساتھ اس کو لکھ بھیجا کہ۔ اور رومی کتے! اگر تو نے کسی طرح کی کوئی نادانی کی اور مکاری سے پیش ایا تو یاد رکھ کل میدان میں علی کے لشکر کی طرف سے پہلا ادمی امیر معاویہ ہوگا جو تجھ سے جنگ کرے گا۔ یہ ایک نہیں ایسی بیشتر مثالیں تاریخ میں موجود ہیں مگر اج وہی امت مسلمہ فلسطین کے مسئلے میں الجھی ہوئی نظر اتی ہے۔ "او آئ سی o I c "٥٢ اسلامی ممالک کا ارگنائزیشن organisation فلسطین کے معاملے میں ساحل بکنار تماشہ بیں بنا ہوا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ عربوں کی ذاتی شرافت اور بہادری بھی نظر اتش ہو چکی ہے ان کی غیرت اسلامی اور حمیت اسلامی بیمار و مضمحل نظر ارہی ہے اور اسلام کے نام پر بننے والا ملک بھی جیسے اس کے منہ میں دہی جم گئی ہو کوئی ڈائیلاگ نہیں اور نہ کوئی صحیح طور کا بیان اور اسی طرح روس اور۔ انکل سام امریکہ کو ہوش میں لانے والا اور اپنے ملک سے مار بھگانے والا طالبان اخر کیوں چپی سادھے ہوئے ہیی؟کون سی ایسی مجبوری درپیش ہیں کہ کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں کسی زمانے میں اقبال نے بڑے درد کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا
اے لا الہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ کردار قاھرانہ
سچائی یہی ہے کہ اج فلسطین کے مسئلے پر نہ گفتار دلبرانہ ہے نہ ہی کردار قاہرانہ ہے اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت کے اکثر حصوں میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے؟کتنے مسائل ان کے سامنے منہ پھاڑے کھڑے ہیں؟ ہماری گفتگو کا موضوع یہی ہے کہ اج ہند کی سرزمین پر ہماری حالت کسی مرغ بسمل کی طرح ہو چکی ہے۔ اوقاف؛ حجاب؛ اذان؛ تین طلاق؛ بلڈوزر؛ دینی مدارس و مکاتب؛ اور مساجد؛ لسانی و مذہبی تعصب؛ ہجومی تشدد؛ mob linching۔ مسلمان نوجوانوں اور علماء کی گرفتاریاں؛ یو سی سی یعنی" یونیفارم سول کوڈ" ucc اسی طرح این ار سی NRC اور جان و مال کا عدم تحفظ بکھرتی ہوئیں عصمتیں۔ اور لٹتی ہوئیں عزتیں۔ یہ اور اس طرح کے کئی مسائل ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑے ہیں تعصب و حسد کا عفریت (جن) کس طرح بوتل کے باہر ا چکا ہے ایسے پرخطر اور پراشوب ماحول میں ہمارے لیے کیا سبیل اور کیا راستہ ہو سکتا ہے جس سے ان تمام باتوں پر انکش अंकुश یعنی روک لگائی جا سکتی ہے۔ یقینا اس کے لیے ہمارے پاس دو راہیں۔ اور دو زاویے ہیں۔ جن کو قران مجید نے اور سرکار دو عالم ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عنایت کیا ہےا۔ نمبر ایک "رجوع ال اللہ"یعنی ہم خلوت میں ہو یا جلوت میں ہمیں ہر وقت اللہ کی ذات کا استحضار کرتے ہوئے گناہوں سے بچتے ہوئے نصرت و امداد طلب کرنا جیسا کہ بدر کی رات میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے گریا و زاری کر کے اس بھیانک واردات میں بھی کامیابی اپنے نام مقدر کروا لی تھی۔ دوسرے نمبر پرہے قران مجید کا یہ حکم کہ واعتصموا بحبل اللہ جمیعاولاتفرقوا۔ علامہ اقبال نے جس کو کہا تھا
ایک ہو تو بن سکتے ہیں خورشید و مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا فائدہ
یعنی اپس کا اتحاد و اتفاق جو بڑے بڑے مسائل کے حل میں بہت مفید اور موثر ثابت ہوتا ہے یقینا ہمارے اپس کا اتحاد و اتفاق عہد حاضر کے بڑے بڑے عفاریت بڑے بڑے فراعنہ نماردہ قیاصرہ اور اکاسرہ کے دماغ درست کرا دے گا اس لیے کہ "ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے" ! اور جمہوریت میں ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے ! انسانوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ! یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ جتنا متحد ہوگا اتناہی اس کے نتائج اور اثرات ظاہر ہوں گے جس کا ہم نے گزشتہ لوگ سبھا الیکشن میں تجربہ کر لیا ہے ہاں اس کے لیے ہر صاحب فہم و ادراک اور صاحب سمجھ ادمی کو محنت کرنا پڑے گی اور وہ محنت کیا ہے ؟ وہ محنت ہے ہزارہا شکوہ و شکایات کے باوجود کسی بھی سیکولر ذہن اور جمہوریت پسند پارٹی کو متحد ہو کر ووٹ کرنا ہوگا۔ جن جن ریاستوں میں الیکشن ہیں وہاں کے مسلمانوں کو اس فارمولے پر عمل کرنا ہی پڑے گا اور اگر اس میں کسی طرح کی کوئی نادانی کی گئی تو پھر پانچ سالوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا بھی پڑے گا یہ ذہن نشین کر لیجئے ! کہ جمہوریت میں ووٹ ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے 400 پار کر نعرہ لگانے والے لوگ سبھا میں 180 پر ہی سمٹ گئے یہ متحدہ ووٹ ہی کی طاقت تھی
ہائے رے ووٹ تیری طاقت !
Comments
Post a Comment