میڈیا اور اس کی ذمہ داریاں ۔۔۔۔۔!!!از قلم ۔۔ مولوی شبیر عبدالکریم تانبے.


میڈیا اور اس کی ذمہ داریاں ۔۔۔۔۔!!!
از قلم ۔۔ مولوی شبیر عبدالکریم تانبے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    دنیا کے جمہوری نظام میں میڈیا کو اس کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے حالات کے بنانے اور بگاڑنے میں اور دنیا کو اپنے کنٹرول میں کرنے میں آج میڈیا بڑا کردار ادا کررہا ہے یوں تو میڈیا کو حکومت سے آزاد ادارہ تصور کیا جاتا ہے لیکن ہر حکومت اپنی بقاء کے لئے میڈیا پر اپنا کنٹرول اور اپنا تسلّط قائم رکھنا چاہتی ہے جس کے اثرات آج پوری دنیا میں اور خصوصا اپنے ملک عزیز میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔
   اپنی بات دوسروں تک پہنچانے اور دوسروں کے حالات کو جاننے کا ایک اہم ذریعہ میڈیا ہے سائنس اور ٹکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں پوری دنیا گویا ایک گاوں کی طرح بن چکی ہے چند سیکنڈ میں پوری دنیا میں خبریں پہنچ جاتی ہیں۔
   اس لیے میڈیا والوں کو چاہیے وہ الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہو اپنے مقام و مرتبے اور اپنی حیثیت کا احساس کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو امانتداری کے ساتھ صحیح طورپر ادا کرنی چاہیے اور حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ میڈیا پر نظر رکھے اور اس کو بے قابو نہ ہونے دے۔ 
     اختلافات لڑائیاں جھگڑے بد گمانیاں دوریاں الزامات اور بہتان تراشیاں اکثر غلط خبروں پروپیگنڈوں اور خبر دینے والے کے قابل اعتبار اور قابل اعتماد نہ ہونےکی وجہ سے پیش آتے ہیں اس لیے دین اسلام نے اس بارے میں بڑی واضح ہدایات دی ہیں۔ 
     قرآن کریم نے لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ کسی فاجر و فاسق کی بات پر بغیر تحقیق کے کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہیے اس لیے علماء کرام فرماتے ہیں کہ کسی فاسق کی خبر کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کہ دوسرے ذرائع سے سے تحقیق کرکے اس کی صداقت اور سچائی ثابت نہ ہوجائے ۔
   بعض علماء کرام فرماتے ہیں اگر نیک و صالح آدمی کی خبر میں بھی کسی قرینے کی وجہ سے شبہ ہوتو تحقیق کرنے سے پہلے اس پر عمل نہیں کرنا چاہئے تو فاسق و فاجر کی خبر کسی بھی طرح بغیر تحقیق کے قابل قبول نہیں ہوگی ۔
    اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نیوز چینل والوں اور رپوٹر حضرات کا قابل اعتماد ہونا ضروری ہے اس طرح دی جانے والی خبر پوری تحقیق شدہ ہو سنی سنائی نہ ہو 
   نبئ کریم ارشاد فرماتے ہیں کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے بس اتنا یی کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو دوسروں سے بیان کرنا شروع کردے 
   عام طورپر یہی ہوتا ہے کہ سنی سنائی ہوئی باتیں بغیر تحقیق کئے ہوئے معاشرے اور سماج میں پھیلا دی جاتی ہیں جس سے حالات بگڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔
   اس لیے ایک مسلمان ہونے کے اعتبارسے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر اور ناپ تولکر اور تحقیق کے بعد ہی کوئی بات کہیں اس لیے کہ قیامت کے روز اللہ تعالی کی عدالت میں ہمیں جواب دینا ہے 
  اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم پر چلائے۔ 
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔