میاں بیوی کے آپسی تنازعات کے حل کا قرآنی نسخہ۔از قلم۔۔مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
میاں بیوی کے آپسی تنازعات کے حل کا قرآنی نسخہ۔
از قلم۔۔مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
ازدواجی زندگی میں سکون راحت و چین اسوقت نصیب ہوگا جب میاں بیوی کے آپسی تعلقات خوشگوار ہونگے لیکن بسااوقات انسان ہونے اور طبائع و مزاج مختلف ہونے کے ناطے آپسی اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اگر ان اختلافات کو وقت پر اور صحیح طریقے پر حل نہ کیا جائے تو بعض اوقات یہ اختلافات اور جھگڑے میاں بیوی سے بڑھکر دونوں کے خاندانوں تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایکدوسرے پر الزامات اور بھتان تراشیاں شروع ہوجاتی ہیں اور پھر ایکدوسرے سے انتقام اور بدلہ لینے اور ایکدوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کورٹ و کچہری تک معاملات پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر میاں بیوی کے درمیان جدائیگی کی نوبت آجاتی ہے جو عام حالات میں بغیر کسی شدید عذر و مجبوری کے اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض و ناپسندیدہ عمل ہے
اگر شوہر کو اس بات کا اندیشہ ہوکہ اسکی بیوی اسکی اطاعت و فرمانبرداری نہیں کررہی ہے بلکہ اسکے خلاف اور اسکے نافرمانی پر اتر آئی ہے تو قرآن کریم نے شوہر کو اپنی بیوی کی اصلاح و درستگی کے لئے بالترتیب تین بہترین طریقے بیان فرمائے ہیں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں
اور جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو انکی سرکشی کا احتمال ہوتو انکو زبانی نصیحت کرو اور ( نہ مانے ) تو انکو لیٹنے کی جگہ میں تنہا چھوڑ دو ( یعنی انکے پاس مت لیٹو)اور ( اس سے بھی نہ مانے تو) انکو ( اعتدال کیساتھ ) مارو پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو انکے خلاف کاروائی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو یقین رکھو کہ اللہ تعالی سب کے اوپر سب سے بڑا ہے ( سورہ النساء )
اس آیت مبارکہ میں میاں بیوی کے آپسی جھگڑے اور اختلافات ختم کرنے کے لئے ایسا مرتب نظام بتلایا گیا ھیکہ جس کے ذریعے گھر کی اصلاح گھر کے اندر ہی ہوجائے اور میاں بیوی کا جھگڑا انھیں دونوں کے درمیان نمٹ جائے کسی تیسرے کے مداخلت کی ضرورت ہی نہ ہو
اسمیں مردوں کو خطاب کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا ھیکہ اگر تم عورتوں سے نافرمانی یا اطاعت میں کچھ کمی محسوس کرو تو سب سے پہلے سمجھا بجھا کر اسکی اصلاح کرو۔
حدیٹ شریف میں ھیکہ
جس عورت سے شوہر ناراض ہو اسکی رضامندی تک اسکی نماز قبول نہ ہوگی اور نہ کوئی نیکی آسمان کی طرف بلند ہوگی ( فتح الباری )
دوسری روایت میں ھیکہ جو عورت بھی اس حال میں انتقال کر جائے کہ اسکا شوہر اس سے خوش ہو وہ جنت میں داخل ہوگی ( ترمذی )
اگر سمجھانے بجھانے اور فہمائش کرنے سے اصلاح نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ھیکہ اسکو تنبیہ کرنے اور اپنی ناراضگی کے اظہار کے لئے خود علیحدہ بستر پر سوجائو یہ ایک معمولی لیکن بہتر سزا ہے اگر عورت اس سے متنبہ ہوجائے تو جھگڑا ہی ختم ہوگا اگر ان شریفانہ سزا پر بھی وہ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو تیسرے درجہ میں معمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے لیکن چہرے اور نازک مقامات پر نہ مارے اور ایسی مار نہ مارے جس سے بدن پر اسکا اٹر اور ڑخم نہ ہوجائے
لیکن نبئ کریم نے مارنے کی سزا کو پسند نہیں فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا کہ شریف اور بھلے لوگ ایسا نہیں کرتے
اسطرح اگر ظلم و زیادتی شوہر کی جانب سے ہو تو اسے بھی قرآن کریم کی اس آیت سے فہمائش کی جائے اللہ تعالی فرماتے ہیں
اور ان عورتوں کیساتھ خوبی کیساتھ گذران کیا کرو اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ھیکہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالی نے اسمیں کوئی بڑی منفعت رکھ دی ہو( سورہ النساء )
نبئ کریم کا فرمان ھیکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی اور گھر والوں کے حق میں بہتر ہے اور میں گھر والوں کے حق میں سب سے بہتر ہوں ( ترمذی )
یہ وہ بہترین نظام ھیکہ جسکی وجہ سے گھر کا جھگڑا گھر میں ہی اور بند کمرے کے اندر ہی ختم ہوجائے میاں بیوی کے علاوہ کسی تیسرے کو اسکی کوئی خبر ہی نہ ہو
لیکن بسااوقات دونوں کی ضد اور ہٹ دھرمی اور ظلم و زیادتی اور سرکشی کی وجہ سے جھگڑا طول پکڑتا ہے اور بات دونوں کے خاندانوں تک پہنچ جاتی ہے پھر دو شخصوں کی لڑائی دو خاندانوں کی لڑائی بن جاتی ہے تو اس فساد سے بچنے کے لئے قرآن کریم نے آپسی مصالحت کا ایک اور بہتر طریقہ بیان فرمایا ہے تاکہ اگر گھر کا جھگڑا گھر میں ختم نہ ہوجائے تو کم از کم خاندان میں ہی ختم ہوجائے آگے عدالت میں جانیکی نوبت ہی نہ آئے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں
اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنیکا اندیشہ ہوتو ( انکے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے ) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو اگر دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ تعالی دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرمادیگا بے شک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے ( سورہ النساء )
قرآن کریم نے حکم یعنی منصف فرماکر دونوں شخصوں کے اوصاف بھی بیان فرما دیئے کہ ان دونوں میں اختلافات کو دور کرنے اور صحیح فیصلہ کرنیکی صلاحیت موجود ہو یعنی وہ اہل علم بھی ہوں اور دیانتدار بھی ہوں
لیکن عام طورپر ایسے موقعوں پر اسکا خیال نہیں کیا جاتا بلکہ ایسے افراد کو بلایا جاتا ہے جو نہ صاحب علم ہوتے اور نہ انکے اندر صحیح طور پر فیصلہ کرنیکی صلاحیت ہوتی ہے اور نہ صحیح سمجھ بوجھ ہی ہوتی ہے تو اختلافات ختم ہونے کہ اور اختلافات اور جھگڑے بڑھ جاتے ہیں اسلئے ایسے موقعوں پر اہل علم دیانتدار تجربہ کار خیر خواہ اور صحیح فیصلہ کرنے والوں کو بلانا چاہیئے
قرآن کریم نے میاں بیوی کے آپسی اختلافات اور جھگڑوں کو ختم کرنے لئے بہترین طریقے بیان فرمائے ہیں اگر ہم ان طریقوں کو اپنائے تو خوش اسلوبی اور آپسی اتفاق و اتحاد اور پیار و محبت کیساتھ ہمارے آپسی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں شریعت کے احکامات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے
Comments
Post a Comment