قناعت پسندی اور میانہ روی کی اہمیت و فضیلت۔ازقلم : مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
قناعت پسندی اور میانہ روی کی اہمیت و فضیلت۔
ازقلم : مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
اللہ تعالی نے مخلوقات کی پیدائش سے ہزاروں سال پہلے انکی تقدیریں لکہی اور اسمیں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور دنیا میں جسقدر انقلابات اور تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہ اسی ازلی منصوبے اور پلان کے تحت ہوتی ہیں جس کو تقدیر کہا جاتا ہے اسلئے دنیا میں کوئی واقعہ یونہی اور اتفاقی طورپر نہیں ہوتا
اللہ تعالی خالق ہونے کیساتھ ساری مخلوقات کے رازق بھی ہیں یعنی تمام مخلوقات کو رزق بھی وہی عطا فرماتا ہے اسلئے کہ تمام مخلوقات کے رزق کی ذمہ داری بھی اسی نے لی ہے جیساکہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے
اور یہ دنیا انسان کے آزمائش امتحان اور عمل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور اللہ تعالی مختلف طریقوں سے اپنے بندوں کا امتحان لیتے ہیں کبھی نعمتیں اور راحتیں عطا فرماکر اور کبھی تو حالات اور مصائب کے ذریعے جیساکہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اسکو واضح کیا گیا ہے اور کامیاب وہی ہوتا ہے جو ان حالات میں ثابت قدم رہتے ہوئے اپنے رب کی تقدیر اور تقسیم سے راضی اور خوش رہتا ہے
انسان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اسکے روزی روٹی کا ہوتا ہے اور ہروقت انسان اسکے لئےحیران و پریشان ہوتا ہے دن ورات اسکے حصول کے لئے محنت و کوشش کرتا ہے یہانتکہ اپنا آرام و راحت بھی اسکے لئے قربان کردیتا ہے لیکن پھر بھی سکون قلب اور اطمینان قلب حاصل نہیں ہوتا بلکہ جتنا زیادہ کماتا ہے اتنی ہی زیادتی کی حرص و لالچ بڑھ جاتی ہے اسلئے کہ حدیث شریف میں ھیکہ قبر کی مٹی ہی انسان کے پیٹ کو بھردیگی
اسلئے زندگی گذارتے وقت قناعت پسندی اور میان روی اختیار کرنا چاہئے جیساکہ حدیث شریف میں اسکی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے اور اس امت کا امتحان اور آزمائش بھی مال ہی کے ذریعے ہوگا اسلئے رزق و روزی کے معاملے میں اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی ہوتے ہوئے رزق کے حصول کے لئے وہ طریقہ اپناناچاہئے جو پاکیزہ اور حلال ہو اور شریعت نے اسکو جائز قرار دیا ہو حرام اور ناجائز طریقہ سے کمایا ہوا مال دنیا و آخرت میں نقصاندہ اور وبال جان بنیگا اور اس سے عبادتیں اور دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں
اسلئے مال و دولت کی زیادتی کو مالداری نہیں کہا گیا بلکہ نفس کی بے نیازی یعنی قلب میں زیادتی کی حرص و لالچ کے نہ ہونے کو بہترین مالداری کہا گیا ہے
بلکہ نبئ کریم کا ارشاد گرامی یے
یقینا وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام لے آیا اور جسکو بقدر کفاف روزی عطا کی گئ اور جو کچھ اللہ تعالی نے اسے عطا فرمایا ہے اس پر قناعت کی توفیق دی گئی
بقدر کفاف سے مراد ضرورت کے مقدار نہ ضرورت سے کم کہ پریشانی لاحق ہوجائے اور نہ ضرورت سے زیادہ کہ آدمی سرکشی کرنے لگے
اسلئے اگر آدمی اسراف اور فضول خرچی سے بچے اور خرچ کرنے میں درمیانی راہ اختیار کرے تو کبھی تنگی اور فقر و فاقہ لاحق نہی ہوتا جیساکہ مشہور مقولہ ہے
ماعال من اقتصد یعنی جسنے خرچ کرنے میں درمیانی راہ اختیار کی وہ کبھی تنگدست نہیں ہوتا ہے
اللہ تعالی ہمیں حلال اور پاکیزہ رزق عطا فرمائے اور قناعت پسندی کی توفیق عطا فرمائے اور فقرو فاقہ اور رزق کی تنگی سے ہماری حفاظت فرمائے۔
Comments
Post a Comment