معراج نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سفر۔ ازقلم۔۔سعدیہ فاطمہ عبدالخالق۔(مدینتہ العلوم گرلز پرائمری اسکول ناندیڑ مہاراشٹر)
معراج نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سفر۔
ازقلم۔۔سعدیہ فاطمہ عبدالخالق۔
(مدینتہ العلوم گرلز پرائمری اسکول ناندیڑ مہاراشٹر)
8485884176
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور ساری نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں ، محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا ہے ، وما ارسلنک الا رحمتہ اللعالمین (الانبیاء: 107)
اس تعبیر کی وسعت اور ہمہ گیری پر غور کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات شامل ہے اور قیامت تک آنے والے عرصے کو حاوی ہے یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعے کے مطابق بھی ہے ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے زندگی کے ہر گوشے میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اسوہ ، رحمت کا نمونہ ہے لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت باعثِ سعادت صد افتخار ہے ، جو ذات الٰہی ، آسمان سے زمین پر آدم علیہ السلام اور حوّا علیہ السلام کو بھیج سکتی ہے وہی ذات الٰہی زمین سے آسمان پر اپنے محبوب کو بلاتی ہے ، واہ رے قدرت کتنا حسین امتزاج ہے ، سبحان اللّٰہ
عربی زبان میں اسرای ، رات کی سیر کو کہا جاتا ہے ، بعض علمائے کرام اسرای سے مراد مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک کی سیر اور مسجد اقصی سے سدرۃالمنتہی تک کی سیر کو معراج سے تعبیر فرماتے ہیں اور بعض علماء کرام دونوں کو معراج کہہ دیتے ہیں اور عوام میں بھی یہی رائج ہیں ،
بخاری وہ مسلم میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں آرام فرما تھے کہ مکان کی چھت کھلی اور جبرائیل علیہ السلام مع جماعت ملائکہ کی تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے بیدار کیا انہوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صدر مبارک کو چاک کیا اور اسے آب زم زم سے دھویا ، اس کے بعد سونے کا ایک طشت ایمان و حکمت سے بھر کر لائے اور اسے اس میں ڈال کر بند کر دیا اور ساتھ لے کر چل پڑے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص سواری لائی گئی جس کا نام براق تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہوئے اور سب سے پہلے مدینہ طیبہ ( اس وقت کا یثرب) میں دو رکعت نماز پڑھی ، وادی سینا شجرہ موسی کے قریب دو رکعت نماز ادا فرمائی پھر مدین میں دو رکعت نماز پڑھی پھر بیت اللحم میں پیدائش عیسی علیہ السلام کے قریب دو رکعت نماز ادا فرمائی اور وہاں سے روانہ ہوئے تو ایک بوڑھی نے آپ کو آواز دی جبرائیل علیہ السلام نے اس کی جانب التفات سے منع فرمایا پھر آگے ایک بوڑھے نے آواز دی تو بھی جبرائیل علیہ السلام نے ان کی جانب متوجہ ہونے سے منع فرمایا ، بوڑھی عورت دنیا تھی جس کی عمر ختم ہونے کو ہے اور بوڑھا شخص شیطان تھا ، پھر مسجد اقصی میں پہنچے وہاں ارواح انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و التسلیمات موجود تھیں ، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اس کے بعد اذان ہوئی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کرائی ، بعض روایت میں آتا ہے کہ انبیاء کرام علیہ السلام کے علاوہ سماوی فرشتے نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی جب نماز ادا فرمائی گئی تو سماوی ملائکہ نے جبرائیل امین سے دریافت کیا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین علیہ السلام ہیں ، ملائکہ نے پوچھا کہ کیا ان کے پاس بلانے کا پیغام بھیجا گیا تھا جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ,, ہاں ،، فرشتوں نے کہا کہ اللہ تعالی ان کو زندہ و سلامت رکھے بڑے اچھے بھائی اور بڑے اچھے خلیفہ ہیں ( تلخیص از سیرت المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ج:1 ) پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے سے کہا کہ کھولو ، اس نے کہا کہ کون ، انہوں نے جواب دیا جبرائیل ، اس نے پوچھا کہ کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ، انہوں نے کہا کہ ہاں میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، اس نے سوال کیا ، کیا وہ بلائے گئے ہیں ، انہوں نے اثبات میں جواب دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے آسمان پر تشریف لے گئے تو ایک شخص کو دیکھا جس کے دائیں اور بائیں بہت سی پرچھائیں تھی جب وہ دائیں دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں دیکھتے تو روتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر انہوں نے ,, مرحبایانبی الصالح مرحبا یا نبی ابن الصالح ،، کہا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کون ہے ، انہوں نے بتایا یہ آدم علیہ السلام تھے اسی طرح دیگر انبیاء کرام علیہ السلام سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہر نبی و رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ,, مرحبا یا اخی الصالح ،، کہہ کر آپ کا استقبال کرتا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ,, مرحبا یا نبی الصالح ،، کے ساتھ مرحبا یا ابن الصالح ،، بھی کہا اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی اواز آرہی تھی اس موقع پر اللہ تبارک و تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر 50 نمازیں فرض کی اس عطیہ ربانی کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کیا فرض کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو بارہ بارگاہ ایزدی میں حاضر دیں اور کم کرائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کی متحمل نہیں ہو سکے گی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دربار خداوندی میں حاضر ہوئے تو ایک حصہ کم کر دیا گیا دوبارہ موسی علیہ السلام نے مشورہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر دوبارہ تشریف لے گئے جس طرح اپنی امت کی خاطر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی چکر لگائے ، آخر حق تعالیٰ نے نے کم کرتے کرتے پانچ نمازیں فرض قرار دے دی ، ان پانچ نمازوں پر ثواب اب بھی 50 نمازوں کا ہی ملے گا روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین عطائے ربانی ملے ، سورۃ بقرہ کی آخری آیات ، جن میں ایمان وہ عقائد کی تکمیل و تشریح مذکور ہے اور دور مصائب کے خاتمے کی بشارت ہے ، دے تھے حق جل مجدہ نے خاص مژدہ سنایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو کوئی شرک نہ کرے گا اس کی مغفرت کر دی جائے گی اور تیسرا عطیہ نمازوں کا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے اس کے بعد سدرۃ المنتہیٰ (انتہا کی بیری کا درخت) کی سیر کرائی گئی ، اس درخت پر شان ربانی کا پرتو تھا ، جس سے اس درخت کی ہیت تبدیل ہو گئی اور پھر اس میں حسن کی وہ کیفیت پیدا ہوئی جس کو کوئی زبان لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی ، اس میں انوار تجلیات کے ایسے رنگ ظاہر ہوئے ، جو زبان و بیان سے باہر ہے ، اسی مقام پر جبرائیل علیہ السلام کو آپ نے اصلی شکل میں دیکھا ، سبحان اللّٰہ ، پھر جنت اور دوزخ کی سیر کرائی گئی پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی واپسی ہوئی ، قران کریم اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء وہ معراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا ، یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزر کر اتنا بڑا سفر اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصے میں مکمل کر دیا اللّٰہ تعالی جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے اس کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے کیونکہ وہ تو قادر مطلق ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اس کے تو ارادے کرنے پر چیز کا وجود ہو جاتا ہے ، معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے حالت کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر اپنے مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو ملا ہے ، واقع معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قران کریم سورہ بنی اسرائیل میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائی اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام اور مرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر حتی کہ کسی مقرب ترین فرشتے کو نہیں ملا ہے اور نہ ملے گا نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتمم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند و اعلی مقام پر میرا کی رات میں ہوا نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا بلکہ اللّٰہ تعالی نے فرضیت نماز کا تحفہ بذات خود اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا نماز اللّٰہ جل شانہ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سبب ہے بڑا ذریعہ ہے نماز میں اللہ تبارک و تعالی سے مناجات ہوتی ہے اللہ ہم سب کے علم و عمل کو قبول فرمائے اور اللّٰہ ہم سب سے راضی ہو جائے آمین۔
Comments
Post a Comment