.مسلمانوں کے عصری تعلیمی ادارے اور ثقافتی پروگرام۔ (گیدرنگ __Gathering ) قسط(2)

.مسلمانوں کے عصری تعلیمی ادارے اور ثقافتی پروگرام۔ (گیدرنگ __Gathering ) 
             قسط(2) 
ازقلم۔۔۔مولوی شبیر عبدالکریم تانبے

   کسی ادارے کی انتظامیہ کے مسلمان افراد پر مشتمل ہونیکی وجہ سے وہ ادارے اسلامی ادارے نہیں بن جاتے یا انکو اسلامی ادارے نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ اسمیں اسلامی تعلیمات اسلامی تہذیب و اخلاق اور اسلامی کلچر کو ترجیح نہ دی جائے اسطرح ایسے تمام عقائد و نظریات اور ایسے طور وطریقے اور ایسی تہذیب و کلچر سے بچا نہ جائے جو اسلامی تعلیمات اور اسکی تہذیب و کلچر کے خلاف ہوں 
  اسلئے انتظامیہ کو اپنے ادارے کے لئے ایسے اصول و ایسے قوانین بنانے چاہیے جس سے طلبہ کرام کے اندر اپنے دین سے لگاؤ و محبت اچھائیوں اور نیکیوں اور حسن اخلاق اور اسلامی تہذیب و کلچر سے وابستگی کا جذبہ پیدا ہوجائے اور ایسے تمام باتوں اور طریقوں پر روک لگا دینی چائے جو اسلامی تعلیمات اسلامی تہذیب اور شرم و حیا کے خلاف ہوں اور جس سے دل و دماغ میں نفسانی خواہشات و جذبات کے پیروی کا جذبہ پیدا ہوتا ہو 
  اسلئے کہ ہمارے ان اداروں کے قیام کا مقصد صرف عصری علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنا ہی نہیں ہے بلکہ طلبہ کرام کے اندر ایمان و اسلام اور اسلامی تہذیب کی بقا اور حفاظت کیساتھ عصری علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنا ہے 
   اسلئے انتظامیہ کا بھی دیندار اور دینی تعلیم سے واقف ہونا اسطرح انھیں اسلامی تہذیب و کلچر سے لگاؤ ہونا بھی ضروری ہے صرف دنیاوی علوم و فنون سے واقفیت اور جہاندیدہ اور تجربہ کار ہونا ہی کافی نہیں ہے 
   اسطرح اساتذہ کرام کا انتخاب اور تقرر صرف اعلی ڈگریوں کی بنیاد پر نہ کیا جائے بلکہ انتخاب کے وقت اسکی دینداری اور حسن اخلاق اور اسکے اسلامی تہذیب و کلچر سے وابستگی اور لگاؤ کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہئے اسطرح ادارے سے اسکی خیرخواہی اور اسکے ترقی کے جذبے کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اسلئے کہ طلبہ کرام اپنے اساتذہ کرام کو اپنے لئے آئیڈیل اور نمونہ بناتے ہیں اور انکے اثرات کو قبول کرتے ہیں اسلئے اساتذہ کرام تقرر اور انتخاب کے وقت اسکا خاص خیال رکھنا چاہئے 
    ہمارے یہ ادارے جو ہمارے طلبہ و طالبات کے ایمان و اسلام کی حفاظت اور انکے اخلاق وعادات کو اعلی و معیاری بنانے اور اسلامی تہذیب و کلچر سے انھیں مانوس کرنے اسطرح انھیں دینی و اسلامی ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے قائم کئے گئے ہیں لیکن ان اداروں میں اسلامیات اور دینیات کا نصاب کیا ہوتا ہے اور اسکے لئے کتنا وقت دیا جاتا ہے یا دینیات اور اسلامیات کے نصاب کا طلبہ کرام کے نتائج پر کچھ اثر ہوتا ہے یا نہیں ؟ اسطرح انتظامیہ اور طلبہ کرام کے نزدیک اسکی کیا اہمیت وقعت اور حیثیت ہے یا صرف رسمی طور پر ایک زائد چیز سمجھکر اسکو رکھا گیا ہے کیا اس طریقے سے طلبہ کرام کے اندر دینی اسلامی اور اخلاقی تبدیلی لائی جا سکتی ہے اسکا بھی جائزہ لینا چاہئے کیا صرف کوئز یا اور کوئی دینی پروگرام رکھنے کی وجہ سے ہمارا مقصد حاصل ہوسکتا ہے ؟ 
   اسلئے قوم و ملت اور انتظامیہ کو بیٹھکر اس بارے میں غور و فکر کرنا چاہئے کہ ہمارے ان اداروں سے ہمارا مقصد حاصل ہورہا ہے یا نہیں  
    اگلی قسط ان شاء اللہ آئندہ

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔