مجھ کو کسی سے کام کیا میرا کہیں قیام کیا میرا سفر ہے در وطن میرا وطن ہے در سفراز قلم امیر حمزہ بلگام۔
مجھ کو کسی سے کام کیا میرا کہیں قیام کیا
میرا سفر ہے در وطن میرا وطن ہے در سفر
از قلم امیر حمزہ بلگام۔
دنیا کی پوری زندگی ہی در حقیقت ایک سفر ہے اسی لئے آقائے نامدار تاجدار مدینہ نے فرمایا کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل دنیا میں اس طرح زندگی گزارو گویا کے تم مسافر ہو یا اجنبی ہو ، اگر خود غور کریں تو حضر میں بھی آدمی کی مسافر ہی سی حیثیت ہے گھر سے دفتر، دفتر سے گھر اور گھر میں بھی دیوان خانہ سے مطبخ کی طرف مطبخ سے خواب گاہ کی طرف ، خواب گاہ سے بیت الخلاء کی طرف ،لیکن گھر میں آدمی اپنے اہل خانہ میں اس طور پر گھل مل جاتا ہے کے اسکو اسکا احساس نہیں ہوتا، مگر جب وہ اپنے اہل خانہ سے دور کہیں جاتا ہے تو اس کو اس کا احساس ہوتا ہے اور یہ سفر اس کو یاددہانی کراتا ہے کے تو دنیا میں ایک مسافر ہے اور دنیا ایک سرایہ ہے
دنیا کو سرایہ پھر ہم کیوں نہ کہیں لوگو
کچھ دیر رکا تھا میں پھر وقتِ سفر آیا
رب تعالٰی نے بھی سفر کے متعلق کہا قل سیروا فی الارض الخ زمین میں گھوموں پھروں تاکے ان عجائبات کو دیکھر تم معرفت رب حاصل کرو، سفر انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے اور زندگی کی حقیقت سے روشناس کراتا ہے ، میرے خیال کے مطابق سفر تجربات کا ایک ایسا سمندر ہے جو تجربات کے گوہر نکال کر مسافر کی آغوش میں ڈال دیتا ہے اسی لئے انسان کو سفر کرتے رہنا چاہیے۔ شعر وشاعری کی نوک پلک سنوار لینے کی غرض سے کرناٹک اردو اکادمی کی جانب دوسری مرتبہ اپنا رخت سفر باندھا، اور شہر بلگام سے 24 ..8.....22 کو بذریعہ ٹرین شہر گلستاں کی طرف چل پڑے، ہمیشہ کی طرح مفتی اسماعیل صاحب اس سفر میں بھی میرے ہمراہ تھے ، جیسے ہی ٹرین چل پڑی ہم ماحضر تناول فرماکر اپنی اپنی سیٹ پر جاکر لیٹ گے ، لیکن لاکھ کوشش کے باوجود نیند نہ آسکی،
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی
نیند نہ آنے سبب یہ تھا کے ہمارے اس بوگی میں سارے اسکول کے بچے تھے جو کسی مقابلہ کے لئے بنگلور جارہے تھے ، اور انہوں نے ساری بوگی کو اپنے سر پر اٹھا رکھا تھا ، اور عجیب عجیب شرارتیں کر رہے ےتھے، ان کی شرارتیں دیکھر ذہن میں شعر گونج رہاتھا،
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی
آخر کار ٹرین برق رفتاری سے دوڑتے ہوئے صبح ساڑھے سات بجے منزل مقصود شہر بنگلور پر آرکی ، جو ایک زمانہ میں نواب حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی سلطنت خداداد میسور کا حصہ تھا، اور اب ریاست کرناٹک کا صدر مقام ہے، اور نہایت سر سبز وشاداب ہونے کی وجہ سے شہر گلستاں کہلاتا ہے ،قدرے بلندی پر ہونے کی بناپر یہاں کا موسم بھی بڑا خوشگوار ہے، اکادمی میں پروگرام 11 بجے سے تھا، اس لئے ہم یہاں سے سلطان شاہ مرکز چلے گئے ضرورت و ناشتہ وغیرہ سے فراغت کے بعد میں نے کروشی کے مشہور و معروف شاعر آفتاب عالم شاہ نوری سے رابطہ کیا کے آپ کہاں ہے جو ایک دن قبل ہی بنگلور پہنچ چکے تھے تو انہوں نے بذریعہ گوگل اپنا لوکیشن بھیجا ہم اس لو کیشن کا پیچھا کرتے ہوئے ان تک پہنچے ،
رستہ دیکھا رہا بھٹکوں کو جا بجا
خواجہ خضر سے دوستوں گوگل بھی کم نہیں
پھر یہاں سے سیدھا ہم اردو اکادمی پہنچے تو وہاں گرم جوشی کے ساتھ منیر احمد صاحب جامی نے ہمارا ایسا استقبال کیا، جیسا وہ ہمیں برسوں جانتے ہو، ان کے خیر مقدم کو احساس کر کے بے ساختہ نوک قلم سے یہ شعر صفحہ قرطاس پر رقم ہوا،
داغ ایک آدمی ہے گرما گرم
خوش بہت ہوگے جب ملے گے
آپ
آخر کار ساڑھے گیارہ کے قریب منیر احمد صاحب جامی کے حمدیہ قطعات کے ذریعہ مجلس کا آغاز ہوا پھر کچھ ہی دیر بعد شہ نشین پر ڈاکٹر قدیر سر گروہ صاحب جلوہ افروز ہوئے اور مائک اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے درس نثر نگاری کا آغاز گذشتہ کل کی کلاس کے اہم عناوین سے کیا ، ابہام کنایہ کو سمجھاتے ہوئے کہا ، کے کلام خوبصورت بنتا ہے محاسن کلام سے ،اور وہ تشبہ استعارہ وغیرہ ہے ،پھر تشبہ اور استعارہ کے مابین فرق بتایا، کے تشبہ کے اندر تشبہ کے الفاظ مستعمل ہوتے ہیں ۔۔الفاظ تشبیہ ۔۔ جیسا ، سا، سی ۔،مانند ،گویا ، ہوبہو وغیرہ ہے اقسام تشبیہ مشبہ ، مشبہ بہ، حرف تشبیہ، وجہ تشبیہ ، غرض تشبیہ ۔ استعارہ وہ ہے جس میں تشبیہ کے الفاظ مستعمل نہ ہو ، اس کو سمجھانے کے لئے یہ شعر پڑھا
کس شیر کی آمد ہے کے رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیرِ کفن کانپ رہاہے
پھر علامت کے متعلق کہا اور اس کی تشریح میں یہ شعر کہا
تو شاہیں ہے بصیرہ کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اس میں نوجوان مراد ہے اور اس شعر میں اس کی علامت کا تذکرہ ہے ۔
پھر فن افسانے کا رخ کرتے ہوئے کہا نظم کی دو قسمیں ہیں، ایک افسانوی ادب، دوسرا غیر افسانوی ادب ،جس کا تعلق کہانی سے ہو وہ افسانوی ادب کہلاتا ہے ، کہانی کی سب سے پہلی صنف کا نام داستان ہے، داستان یہ ایک تفریح کا ذریعہ تھا ،جس میں فوق الفطرت باتیں ہوا کرتی تھی ، داستان نے ناول کو جنم دیا، ناول نگار نے زمینی مسائل اٹھائے اور لوگوں کے گوش گزار کئے ، پھر ناول سے افسانے نے جنم لیا ،افسانہ کہنے کے لئے کیاکیا اجزائے ترکیبی ہونا چاہیے، پلاٹ ۔۔ نفس موضوع ۔۔ وہ چست ہونا چاہئے ،نہ زیادتی ہو ،نہ کچھ کمی ہو ، نمبر دو کردار ، کردار کی بھی دو قسمیں ہیں ، اہم کردار ، معاون کردار ، اہم کردار جس کے ارد گرد پوری کہانی گھومتی ہے ، اور اہم کردار کہانی کا محور ہوتا ہے ، جنس کے اعتبار سے دو طرح کے کردار ہوتے ہیں ایک مرد کا کردار ایک عورت کا کردار ، کردار کے متعلق سب سے اہم بات یہ ھیکہ کوئی کردار لکھنے سے قبل اس کے مزاج کو سمجھنا ضروری ہے مثلا اگر ڈرک ڈراور کا کردار ہوتو اس سے اسی لب ولہجہ میں گفتگوکرائے ، اور کہاں کا کردار ہو وہاں کا انداز گفتگو ہو مثلا اگر کردار ممبئی کا ہو اور اس سے بنگلور ی انداز میں گفتگو کرایا جائے بالکل غلط ہے ، نمبر تین مکالمہ، تاثرات قائم کرنے کے لئے کلام ضروری ہوتا ہے ، اور اسی سے کردار کی نظریات کا پتا چلتا ہے ، جیسا کردار ہو ویسا مکالمہ ہو ، نمبر چار منظر نگاری کہانی کہاں کی ہے یہ واقعہ پیش کرتا ہے ، افسانہ نگار لفظوں سے منظر پیش کرتا ہے ، منظر ایسا ہونا چاہئے کے دیکھنے یا پڑھنے والا منظر میں کھوجائے، مثلا کرشن چندر کے افسانے دیکھے ، مختصر افسانہ وہ ہے جو ایک نشت میں پڑھاجائے، افسانے کے لئے آخری ضروری شئی نقطہ عروج ہے ، نقطہ عروج نام ہے اضطرابی کیفیت کا یعنی قاری بے چین ہوجائے کے اب آگے کیاہوگا، اب کیا ہوگا ، جس ناول یا افسانے میں نصیحت کی جائے وہ افسانہ یا ناول ناکام ہوتے ہیں، درس کے اختتام پر افسانچہ کا موجد سعادت حسن منٹو ہے اور افسانچہ افسانے سے نکلا ہے اور دو افسانے پڑھنے کی گزارش کرتے ہوئے گفتگو کا اختتام کیا ، اردو کے تیرہ افسانے ، گرم کوٹ ۔ پھر اس کے بعد منیر احمد صاحب جامی نے مائک اپنے ہاتھوں لیتے ہوئے افسانچہ کے متعلق کہا ، کے سب سے چھوٹا افسانچہ چین کے ایک فرد نے لکھا اور وہ یوں تھا،
ایک آدمی ٹرین میں بیٹھا ہوا تو اچانک ایک شخص آیا اور اس سے پوچھا کے کیا تم نے کبھی بھوت دیکھا ہے اس نے کہا نہیں اتنا پوچھ کر وہ غائب ہوگیا ، اس کے بعد جامی صاحب نے دعائیہ کلمات کے ذریعے مجلس کو پائے تکمیل تک پہنچایا ، اردو اکادمی ہی سے ظہرانہ اور نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر دارالعلوم سبیل الرشد پہنچے، وہاں مفتی ھارون صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں نے اپنی کتاب تشویقات بطور ہدیہ پیش کی ، جس کو کرناٹک اردو اکادمی نے ہی شائع کیا ہے ، پھر وہاں سے تقریبا آٹھ بجے اسٹیشن پہنچکر کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر ، ڈرین میں بیٹھ گئے جو ہمیں ساڑھے چھے بجے کے قریب بحمد للہ ہماری عارضی قیام گاہ شہر بلگام لا کر چھوڑ گئی، میں نے عارضی قیام گاہ اس لئے کہا کے اصل قیام گاہ ہم سب کی شہر خموشاں ہی ہے
یہ شہر خموشاں کی بوسیدہ مٹی
وہی جا کے ہم کو بھی سونا پڑے گا
Comments
Post a Comment