نگاہ شوق گر میسر نہیں تجھ کو۔بقلم۔۔۔ محمد ناظم ملی تونڈاپوری، استاد جامعہ اکل کنواں۔
نگاہ شوق گر میسر نہیں تجھ کو۔
بقلم۔۔۔ محمد ناظم ملی تونڈاپوری، استاد جامعہ اکل کنواں۔
اگر دنیا کے حکما عقلا اور دانشوروں سے پوچھا جائے جی جناب ! انسان کا سب سے قیمتی اور انمول سرمایہ کیاہے؟ تو داناؤں کا یہ سارا طبقہ اور طائفہ یہی کہے گا کہ" وقت "
حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت انسان کا قیمتی سرمایہ ہے اچھے اور صالح کاموں میں وقت صرف کرنا کوئی ایسا گنجلک معاملہ نہیں کہ اس کے لیے دلائل پیش کیے جائیں اقوام و ملل کی تاریخ میں ہمیشہ وہی قومیں مہ تاباں بن کر چمکتی اور ترقی کرتی رہی ہیں جنہوں نے وقت کی قدر کی اور وقت کے تقاضے کو جانا اور اس کو بجائے یوں ہی گنوانے کے کام میں لایا اور اس کو کام میں لانا اپنا نصب العین قرار دیا زمانے ماضی میں افراد امت نے تو اس میں اپنا ایک خاص مقام پیدا کیا ہے وہ اپنی ایک منفرد تاریخ رکھتے ہیں جس کے تخت و تاج کی وسعتیں اسمان کی رفعتوں کو چھوتی رہی جس کے شوکت و ستوت کا پھیرا چہار دانگ عالم میں لہراتا رہا وقت کی اہمیت اور اس کی قدر و منزلت ان کے مذہب کی روشن تعلیمات کا ایک اہم پہلو ہے اور وقت کا صحیح استعمال اور اس کی قدر دانی کرنا ان کا ذاتی وصف اور تاریخی ورثہ رہا ہے مسلمانوں کا دور ترقی صدیوں اور سینکڑوں سالوں پر محیط ہے ان کے علم و دانش کی تربیت گاہیں دوسری اقوام کے بالمقابل بڑی منظم اور معقد رہی ہیں درس و تدریس اور علم و ہنر کے میدانوں میں جہاں وہ وقت کے قدردان تھے وہیں ان کے امراء حکماء اور عیش و عشرت میں پلے بڑھے بادشاہان اور ان کے محلات بھی اس قیمتی سرمایہ" وقت " کی قدردانی سے مرصع اور مرین نظر اتے ہیں ان کے یہاں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کیا جاتا رہا ہے کہ بے ہودہ اور بے فائدہ کاموں میں اپنے وقت کو برباد کرنا ضائع کرنا مصائب اور پریشانیوں کا باعث ہوا کرتا ہے اس لیے مسلمانوں کے یہاں رفتار وقت کے شعور و احساس کو ہمیشہ اجاگر رکھا جاتا رہا ہے اور اس بات کا کہ "الوقت اثمن من الذھب "وقت سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے- کا احساس بیدار کیا جاتا تھا ان کے یہاں یہ کہا جاتا تھا
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردون گھڑی عمر کی اور ایک گھٹا دی
واقعہ یہ ہے کہ عہد حاضر میں ادمی کو معطل اور بیکار بنانے کے لیے کیا کچھ یہاں موجود نہیں ہیں یہ انتہای دردناک اور کربنا ک دور ہے قلوب و اذہان پر جمود و تعطل اور غفلت کی دبیز چادریں تنی ہوئیں نظر اتی ہیں اس میں علم و عمل کا جو حال ہے وہ کسی زکی الحس اور صاحب فہم و ادراک سے مخفی نہیں طلباء اور حاملین علم و ہنر کے شائقین اور اس راہ کے مسافروں کا مزاج صحیح درس و تدریس سے دور ہوا جا رہا ہے یقینا ان کے یہاں موبائل کی دنیا اباد ہے اور وہ اپنی تمام کدو کاوش اپنی ذہنی توانائی اور قوت فکر و عمل اسی بے جان لاشے پر صرف کررہےہیں اور رات دن کا مشغلہ انکا اپنا موبائل ہی بن چکا ہے اور وقت کے یوں ہی گزر جانے اور ضائع ہو جانے کے احساس سے بھی انکا نہاں خانہ دل عاری اور ذوق مطالعہ سے خالی اور قرطا س و قلم سے بیگانہ نظر اتا ہے کسی عربی شاعر کا شعور چیخ کر کہہ رہا ہے
والوقت انفس ما عنایت بحفظہ
وارا ہ اسھل ما علیک یضیع
"یعنی وقت ایک نفیس ترین شے ہے جس کی حفاظت کا تمہیں مکلف بنایا گیا ہے جبکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہی چیز تمہارے پاس سب سے زیادہ اسانی سے ضائع ہو رہی ہے"اس شعر کے ضمن میں اگر امت مسلمہ اور مسلم معاشرے پر ایک غائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ حقیقت وا شگاف ہو جاتی ہے کہ مسلم معاشرے میں سب سے زیادہ سستے داموں میں بکنے والا یہی گراں مایا سرمایہ وقت ہے جس کا کوئی مول اور بدل نہیں ہو سکتا مسلم معاشرہ ہی سب سے زیادہ ضیاع وقت کی مصیبت کا شکار ہے برخلاف اس کے سڑان کی ڈھیر پر پہنچا ہوا گندگی کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا Europe یورپ کا گلا سڑا معاشرہ اپنی ہزار خرابیوں کے باوجود اس ایک خوبی سے مزین نظر اتا ہے اور وہ خوبی ہے وقت کا قدردان ہونا ہے اپنی حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ ایک مربوط اور موقت نظام DC planeکے تحت گزارنے کا وہ یورپین European معاشرہ اج بھی نظر اتا ہے اج وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی information technology اور دیگر علوم و فنون کی سربراہی اور ترقیات کا ایک بڑا سبب یہی وقت کی قدردانی ہے یہ محقق ہے کہ زمانہ ماضی میں وہ قومیں جو وقت کی قدردان رہی ہیں انہوں نے اجڑے گلستاں کو پھر اباد کیا صحراؤں کو گلشن بنا ڈالا وہ فضاؤں میں رقص کرنے لگیں تسخیرعناصرپر کار بند ہوئیں پھول کی پنکھڑی سے ہیرے کا جگر چاک کیا ستاروں کو اپنی گرد راہ بنایا مریخ و ثریا پر کمندیں ڈالیں زمانے کی قائد بنیں وقت کے دھارے کو اپنی دسترس میں رکھا اور وہ جہاں تعمیر کرد کھایا کہ دنیا اج تک انگشت بدنداں ہیں۔ بالمقابل اس کے جو قومیں اس انمول سرمائے سے چشم پوشی کرتی رہیں زمانے نے انہیں پیچھے ڈھکیل دیا ان کو پس پشت ڈال دیا وہ غلامی اور کم ظرفی کے توق سلا سل میں مقید رہیں غربت قلاشی محتاجی فقیری اور افلاس نے بڑھ کر ان کا استقبال کیا کاسہ گدائی ان کے ہاتھوں میں تھما دیا وہ زمانے کے ہاتھوں پٹتی رہیں ان کا اشیا نہ ہمیشہ بجلیوں کی زد میں رہا اس تناظر میں جب ہم اپنے بزرگوں اور دنیا کی نامی گرامی شخصیات کے گلشن حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح وقت کے قدردان تھے اور اس سرمایہ "وقت" کو انہوں نے کس طرح اپنے کا اپنے حق میں کارامد اور مفید بنایا تھا اور وہ خود دنیا کے لیے کتنے مفید اور کارامد ثابت ہوئے تھے ہم ذیل میں چند مثالیں پیش کرنا چاہیں گے مشتے ازخروارے
حضرت مولانا ابوالکلام ازاد صاحب رحمت اللہ علیہ کی ذات والا صفات سے بر صغیر کا شاید ہی کوئی فرد ایسا ہوگا جو ان کو نہ جانتا ہو وہ ازاد ہند کے پہلے وزیر تعلیمات تھے ہندوستان کی تاریخ تو ان کے نام کے بغیر پوری ہی نہیں ہو سکتی ایک جگہ ان کے متعلق ادیب شہید بے پناہ صلاحیتوں کے مالک حضرت مولانا علی میاں ندوی نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں" مولانا کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جائے گا وہ ہندوستانی ثقافت اور ہماری قدیم تہذیب کے ایک ستون تھے. مزید لکھتے ہیں ان کا حیرت انگیز حافظہ ان کی غیر معمولی ذہانت ان کی حاضر دماغی اور بیدار مغزی ان کی ادبیت ان کی انشاء پردازی جو کسی وقت اور کہیں ان کا ساتھ نہیں چھوڑتی ان کی اپنے مطالعہ و معلومات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی عجیب و غریب صلاحیت ان کی سیاسی بصیرت اور دور بینی ان کی خودداری اور عزت نفس ہر شبہ سے بالاتر اور ہر اختلاف سے بے نیاز ہے مولانا ازاد رحمت اللہ علیہ کی زندگی کا عظیم کارنامہ الہلال ہے جس کی صداؤں سے پورا ہندوستان گونج اٹھا تھا اس نے بجھی طبیعتوں کو رعنائی اور دبے ہوئے جہاد کے جذبوں کو تازگی بخشی مردہ احساسات کو زندگی عطا کی اور اس سے افسردہ خیالات میں شادمانی ائی وہی" الھلال "جس کے بارے میں" شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ" نے فرمایا تھا" ہم اپنا سبق بھول گئے تھے الہلال نے ہم کو یاد دلادیا ۔مولانا ازاد رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اتنی کار امد اور مفید کیسے بن گئی؟کیا عوامل اسمیں کار فرما رہے ان کی سوانح حیات سے جس چیز کا پتہ چلتا ہے وہ یہی گوہر نایاب ہے جسے ہم وقت سے تعبیر کرتے ہیں حضرت مولانا ازاد صاحب رحمت اللہ علیہ خود ایک جگہ رقم طراز ہیں"جب پاؤں میں تیزی اور ہمت میں جولانی تھی تو رہ نوردی کا دروازہ نہ کھلا اب پامالیوں اور افتادگیوں سے نہ قدم میں پامردی رہی نہ ہمت میں کار فرمائی طلب نے انکھیں کھولیں اور غفلت نے کروٹ لی راہ دور۔ اور نشان منزل گم ۔اور کیسہ زاد خالی اور سر و سامان کار ناپید۔ وقت جا چکا ۔اور ہر ان ہر لمحہ کاروان مقصود سے دوری اور منزل مراد سے مہجوری بڑھتی گئی اب قدم کی تیزی اور ہمت کی چستی واپس بھی مل جائے تو بھی وہ دولت وقت کو واپس مل سکتی ہے جو لٹ چکی اور وہ قافل ہے امید کا پسماندگان غفلت کی خاطر لوٹ سکتا ہے جو جا چکا اپنے ذوق مطالعہ اور وقت کی قدردانی کے متعلق لکھتے ہیں"لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں مگر 12 13 برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشے میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگوں کی نظر سے اوجھل رہوں .جب لڑکپن میں سیر کے لیے نکلتا تو کتاب ساتھ لے جاتا. اور جھاڑیوں کے جھنڈ میں بیٹھ کر مطالعہ میں غرق ہو جاتا. والد مرحوم کے خادم خاص حافظ ولی اللہ مرحوم ساتھ ہوتے تھے وہ باہر ٹہلتے رہتے تھے .اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے" اگر کتاب پڑھنی ہی تھی تو گھر سے نکلا ہی کیوں؟
علامہ ابن جوزی رحمت اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ زمانہ طالبی علمی میں 20 ہزار کتابوں کا مطالعہ کر چکے تھے مدرسہ نظامیہ بغداد کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کر ڈالا تھا وقت کی قدر قیمت اور محنتوں مطالعہ ہی کی برکت تھی کہ اللہ نے ان سے وہ کام لیا جس کو شاید ہی ہم اپنی پوری زندگی میں نقل بھی نہ کر سکیں اقبال مرحوم نے کہا تھا
کچھ اور ہی نظر اتا ہے کاروبار جہاں
نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی
نگاہ شوق گر میسر نہیں تجھ کو
تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی
لہذا امت مسلمہ کو چاہے وہ تاجر ہو وہ کسان ہو یا دنیا کے کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتا ہو بالخصوص تعلیم و تعلم کے میدان میں پڑھنے پڑھانے والوں کے لیے لازمی اور ضروری ہے کہ وہ اپنے وقت کی حفاظت کرے وقت کی قدر قیمت کو پہچانے اور شوق مطالعہ اور علمی ذوق کو اپنے اندر پیدا کرے اس لیے
کہ انسان کو بناتا ہے اکمل مطالعہ
Comments
Post a Comment