یکم مئی یومِ مہاراشٹر : (خصوصی مضمون) مسلمانوں کی تعلیمی،سیاسی،سماجی واقتصادی صورتحال کامختصر جائزہ.مہاراشٹر کی تاریخ،حقائق،وتجزیہ۔ متحدہ مہاراشٹر تحریک میں 106 لوگوں نے اپنی جانوں کو قربان کیا ان میں چار مسلمان بھی تھے. (مضمون نگار :مرزا عبدالقیوم ندوی اورنگ آباد.)


یکم مئی یومِ مہاراشٹر : 
(خصوصی مضمون)  مسلمانوں کی تعلیمی،سیاسی،سماجی واقتصادی صورتحال کامختصر جائزہ.
مہاراشٹر کی تاریخ،حقائق،وتجزیہ۔
 متحدہ مہاراشٹر تحریک میں 106 لوگوں نے اپنی جانوں کو قربان کیا ان میں چار مسلمان بھی تھے.
 (مضمون نگار :مرزا عبدالقیوم ندوی اورنگ آباد.) 9325203227 
_____________________________
 
 یکم مئی 1960کو لسانی بنیاد پر ریاست مہاراشٹر کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے لیے مسلسل تیس سال تک جدوجہد کرنا پڑی،اس میں 106 لوگوں نے اپنی جانوں کو قربان کیا۔انےمیں تین مسلمانوں کے نام بھی آتے ہیں (۱)محمدعلی (۲)سیدقاسم (۳)منشی وزیر علی۔اور شاعر امر شیخ۔سب سے پہلے ملک میں لسانی بنیادوں پرریاستوں کی تشکیل کے نظریہ کو 1928میں قبول کیا گیا۔اس کے لیے ملک کی ریاستوں میں زبردست تحریکیں چلائی گئیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر کانگریس نے 1948میں ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل اور پٹہ بھی سیتارمیا شامل ہیں۔
مہاراشٹر ریاست کے قیام کے لیے ایک متحدہ مہاراشٹر کمیٹی قائم کی گئی۔10اکتوبر 1955 میں حکومت ہند نے جسٹس فضل علی کمیشن قائم کیا۔اس کمیشن نے مرکز کو اپنی رپورٹ سونپ دی۔اس شفارش میں ممبئی کو ذولسانی (گجرات،مراٹھی)شہر کا درجہ دینے کی بات کہی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں ممبئی،ودربھ،مراہٹواڑہ،کاروار، نیپانی،مغربی مہاراشٹر مل کر متحدہ مہاراشٹر بنایا جائے۔اس طرح کی شفارش کی گئی تھی۔ کمیشن شفارشیں و فیصلہ متحدہ مہاراشٹرکمیٹی کو منظٰور نہیں تھا۔اس زبردستی کے فیصلہ کے خلاف زبردست عوامی تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک میں مختلف تنظیموں و جماعتوں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ ان میں کسان مزدور پارٹی، پرجا سماج وادی پارٹی، کیمونسٹ پارٹی،شیڈول کاسٹ فیڈریشن، جن سنگھ، ہندو مہاسبھا و دیگر سماجی وعوامی تنظیموں نے حصہ لیا۔ ان تحریکوں اور ان کے بانیوں پر نظرڈالی جائے تو ان میں اکثریت برہمن سماج کے دکھائی دیں گے۔ ایک خاص نظریہ و منصوبہ کی بنیاد پر ریاست مہاراشٹرکاقیام عمل لایاگیا۔یہ بات قابل غور ہے کہ جب ملک میں کہیں تقسیم ہوئی تو اسمیں نقصان مسلمانوں ہی کو اٹھانا پڑا ہے۔ انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ کیا تو نقصان مسلمانوں کا ہوا۔انگریز یہ ملک چھوڑ کر گئے تب نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا،ملک کی تقسیم نے لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ عربوں کھربوں روپے مالیات کی جائیدادیں اجاڑی لوٹ لی گئیں۔ ہزاروں عورتوں کی عزت وعصمت کو تار تارکیا گیا۔ اسی طرح جب ریاست مہاراشٹر کا قیام عمل میں آیا اس وقت بھی مسلمانوں کو ہی نقصان اٹھانا پڑا۔ریاست کے قیام سے قبل ممبئی،گجرات ودیگر علاقوں پر مسلمانوں کی تجارتی اقتداری تھی،بڑ ی بڑی کمپنیوں کی ایجنسیاں ان کے پاس تھیں۔ سقوط حیدرآباد اور مراٹھواڑہ کی تشکیل،پولیس ایکشن کا خونی ہنگامہ ان میں بھی مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوا،ان کی تجارت معیشت،زمین و جائیداد،سب کچھ اجڑگیا۔
مہاراشٹرمیں مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال:
 ریاست مہاراشٹر کی تشکیل سے قبل انگریزوں کے اقتدار اور زیر اثر بے شمار تعلیمی ادارے قائم تھے۔ان اداروں میں مسلمانوں کی مالدار،زمین دار وتاجروں کی ا ولادیں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ان کے علاوہ ممبئی کے بہت سے مالدار اور اصحاب خیر حضرات نے مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کے لیے انجمنیں،فلاحی ادارے قائم کیے،اینگلو اردو ہائی اسکول بنائیں،ممبئی میں انجمن اسلام،اسماعیل یوسف کالج، ناگپورکا انجمن ادارہ، کھام گاؤں کا انجمن اسلام،پونہ میں اینگلواردو ہائی اسکول،انجمن اشاعت تعلیم اردوہائی اسکول جالنہ۔ ان کے علاوہ دینی مدارس نے ناقابل فراموش کارنامے انجام دیے ہیں۔ ان میں اورنگ آباد کا جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم،انوارالعلوم نگینہ مسجد،مالیگاؤں کے مدرسہ بیت العلوم،معہد ملت، بمبئی کے کئی تعلیمی ادارے،شامل ہیں اورایسے بے شمار دینی تعلیمی ادارے،دارالعلوم جوخاموش دینی محاظ کوسنبھالے ہوئے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں کا معیارتعلیم بڑھا ہواتھا۔ گرچہ کہ تعداد کم تھیں لیکن کوالٹی خوب تھی۔مسلمانوں کے تعلیمی ترقی و خوشحالی میں میمن برادری کا ناقابل فراموش رول رہا ہے۔ انہوں نے خطیررقومات کے علاوہ بڑی بڑی زمینیں وقف کیں اور ان کی مالی سرپرستی فرمائی۔مراہٹواڑہ چونکہ نظام حیدرآباد کے زیراثر و تابع تھا۔اس لیے مراہٹواڑہ میں تعلیم کی صورتحال دیگر علاقوں کے مقابلے میں قدرے بہترتھی۔نظام سرکارنے اپنے علاقوں میں تحتانیہ،فوقانیہ اورسٹی کالج قائم کرکے اپنی مملکت میں تعلیم کوخوب فروغ دیا۔ علاقہ کے کوکن کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کے تعلیم وتربیت کے لیے کئی ادارے کوشاں تھے۔تحتانیہ وفوقانیہ کے بعد یہ اسکول ملٹی پرپزکے نام سے چلائے جانے لگے۔اورنگ آبادمیں انجمن اشاعت اسلام،مولاناآزادکالج اور اردوایجوکیشن سوسائٹی،پونہ میں اینگلواردوہائی اسکول اعظم کیمپس،پربھنی میں مؤید المسلمین اور پر بھنی ایجوکیشن سوسائٹی،ناندیڑمیں مدینہ العلوم ہائی اسکول وجونئر کالج،ثناء ہائی اسکول، بیڑ میں انجمن اشاعت تعلیم۔ الغرض مہاراشٹر کے مسلمانوں نے اپنے دم و بوتے پر مسلمانوں کے تعلیمی محاذکو سنبھالا اس میں کوئی شک نہیں ریاست مہاراشٹر میں اردوکے اسکولوں کے جو صورتحال ہیں وہ ملک کے دیگر کئی ریاستوں کے مقابلہ میں بہتر ہے نے زبردست تعلیمی محاذ پرکام کیا۔ ان کے علاو ہ بہت سارے ادارے ہیں جواچھے انداز میں مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال کوبہتربنانے کے لیے کوشاں ہیں ان کی خدمات کوفرامو ش نہیں کیاجاسکتا۔
اقتصادی صورتحال:
 اس سے پہلے ہم اوپر بیان کرچکے کہ آزادی سے قبل بلکہ آزادی کے کچھ سالوں بعد تک ملک کی تجارت وصنعت،زراعت ومعیشت،درآمد وبرآمد پرتقریباََ مسلمانوں ہی چھائے ہوئیں تھے۔ خصوصاََ کپڑے کے مل،پاورلوم کی صنعتیں،مسلمانوں ہی کے ہاتھوں میں تھیں۔آزاد ی کے بعد یہ منظرنامہ بدل گیا۔منصوبہ بندطریقے سے مسلمانوں کی تجارت کو نشانہ بنایاگیا۔ مہاراشٹر میں مسلمانو ں کے پاس پاورلو م کی زبردست صنعت تھی۔ممبئی،بھیونڈی،مالیگاؤں،جلگاؤں،کھام گاؤں اور ریاست کے کئی علاقوں میں مسلمان مختلف صنعت و حرفت میں پیش پیش تھیں۔بیڑ کے مسلمانوں کے پاس چرم سازی او رگپتی کا فن اپنے عروج پر تھا۔مسلمانوں صرف مزدور بن رہ گیا ہے (یہ صورتحال صرف مہاراشٹر ہی کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے) مہاراشٹر میں سب سے زیادہ کانگریس پارٹی ہی اقتدار میں ر ہی ہے۔مسلمانوں کے تعلیمی ومعاشی و اقتصادی صورتحال کے سدھار کے لیے کچھ نہیں کیا،نہ ہی ان کو چھوٹی چھوٹی کے قیام کے لیے کوئی تعاون کیااور کہیں دیا بھی ہوتو اس کا من حیث القوم کوئی اثر نظر نہیں آتا smal industriesکو حکومت نے بڑھاوا دیا،ان کی ہر طرح کی امداد کی یعنی زمینیں اور مالی تعاون کیا،M.I.D.C میں مسلمانوں کا دور دورتک کوئی نشانہ نہیں۔تقریباََہر ضلع میں ایم ا ٓئی ڈی سی قائم ہیں لیکن ان میں مسلمانوں کا نام ونشان نہی۔امداد باہمی بینکوں،کوآپریٹیو سوسائٹیوں،ضلع بینکوں شوگر فیکٹریوں،فیڈریشنوں،مہامنڈلوں پر مسلمانوں کا نام تو دور دو رتک نظر نہیں آتا۔مہاراشٹر کے قیام کے کچھ سالوں تک سرکاری نوکریوں میں مسلمان تقر یباََ 35%تھا لیکن اب صورتحال 3.5%ہوکررہ گئی ہے۔کانگریس نے مسلمانوں سے وعدے تو بہت کیے لیکن اس کو نبھایا نہیں۔ ابھی حال ہی میں اس کا اعتراف کانگریس پارٹی کے سنیئر لیڈر اورپارٹی میں مسلم چہرہ،سلمان خورشید نے کہاکہ کانگریس کے دامن پر مسلمانوں کے خون کے نشان ہے۔
سیاسی و سماجی صورتحال:
 تعلیمی و اقتصادی صورتحال کے تجزیہ کے بعدہم بات کرتے ہیں مسلمانوں کے سیاسی و سماجی صورتحال کی۔سیاسی و سماجی اعتبار سے مسلمان آج مہاراشٹر میں کہاں کھڑا نظر آتا ہے۔مراہٹواڑہ میں پولس ایکشن نے مسلمانوں کے طاقت وحوصلہ کو توڑکر رکھ دیاتھا اس وقت مسلمان ایسے خوفزدہ تھیں کہ سراٹھاکر چلنا مشکل ہوگیا تھا۔ جن سنگھ،ہندو مہاسبھااور دیگر کئی ہندواحیاء پرست تنظیموں وجماعتوں بشمول کانگریس مسلمانوں کو کچلنے دبانے میں کو ئی کسر نہ چھوڑی۔مہاراشٹرکے مختلف علاقوں میں بے شمار فسادات ہوئے،ان میں نقصان مسلمانوں ہی کا ہوا۔بابری مسجد کی شہادت اور ممبئی بم دھماکوں سے قبل مسلمانوں کاٹرینوں میں سفر کرنامشکل ہوگیا تھا۔مسلمانوں کو سماجی اعتبارسے ابھرنے نہیں دیا گیا۔ان کی خدمات واعترافات کو سرہایا نہیں گیا۔انہیں کبھی ٹاڈا،پوٹا،مکوکاجیسے قانون تحت جیلوں میں بھراگیااورہمیشہ خوف ہراس کی صورتحال رکھی گئی۔کبھی فسادات کرواکرتو کبھی تجارتی استحصال کرکے۔اور اب تو کچھ سالوں سے دہشت گردی و ہشت پسندی کی بنیاد پرجیلوں میں ان کی آبادی بڑھائی جارہی ہے۔
 سیاسی اعتبارسے بھی مسلمانوں کو پنپنے نہیں دیاگیااور پورے مہاراشٹر ڈاکٹررفیق زکریا، مولانا ضیاء الدین بخاری،غلام محمودبنات والا، عبدالرحمن انتولے،محمد اسحق جمخانہ والا،ابو عاصم اعظمی، ان کے علاوہ کچھ اور مسلم قائدین ہوں گے ان میں کسی کو بڑا بننے نہیں دیا گیا۔ سیاسی اعتبار سے خود مسلمانوں کی طرف سے کوئی خاص اقدام ٹھوس کوششیں نہیں کی گئیں جو ریاست کی سیاست پراثراندازہوسکے۔ بلاشبہ مرہٹواڑہ میں تعمیر ملت،مسلم لیگ او کچھ وقتی وہنگامی تنظیموں و جماعتوں نے مسلمانوں کی سیاسی وسماجی صورتحال کوبدلنے کے کوششیں کیں ہیں۔جمعتہ العلماء ہند،جماعت اسلامی ان قومی تنظیموں نے وقتاََفوقتاََمسلمانوں کی رہنمائی فرمائی،جماعت ا سلامی ہند پرتو پابندی عائد کی گئی،اس کے رہنماؤں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔
 مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے کبھی سیمی، لشکر طیبہ، جیش محمد، انڈین مجاہدین،حرکۃ الجہاد، جیسی نام نہادتنظیموں کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کوگرفتارکیاجاتاراہا۔اگر مسلمانوں کی سیاست میں حصہ داری کی بات کریں تو ہمیں بہت مایوسی ہوگی۔پورے مہاراشٹر میں تو ایک ہی M.Pہے،ممبر اسمبلی کی تعدادبھی بہت کم ہے،مقامی سیلف گورنمنٹ میں مسلمان نہیں کہ برابر ہیں۔ ضلع پریشد،پنچایت سمیتیوں میں تو دور دور تک نظرنہیں آتے۔ سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ ووٹ کی بنک کی صورت میں دیکھا ہے۔ ان کے حقوق کے بارے میں کبھی توجہ نہیں دی گئیں۔ اورنگ آبادمیں ایک وقت یہ تھا کہM.P  مسلم،M.L.Aمسلم صدربلدیہ مسلم اسی طرح ریاست کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت موجود تھی۔
مسلمانوں کے پسماندگی کے اسباب:
 مسلمانوں کے سیاسی وسماجی واقتصادی وتعلیمی پسماندگی کے کئے اسباب ہوسکتے ہیں اگر ان کا موازنہ ہم ریاست کے سماجی و مذہبی طبقات کو سامنے رکھ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دلت سماج کوریزوریشن کی سہولت،تنظیمی بنیادیں مستحکم،تعلیمی میدان میں ان کی پیش قدمی اورساتھ میں سیاسی وزن وقوتاََوفوقتاََ اقتدار میں حصہ داری جس کی بنیادپر وہ آج مہاراشٹرکے کئی اعلی عہدوں پرسرفراز ہیں۔دوسرا مراہٹہ سماج وہ اقتدار پر حاوی رہا،ریاست کے جملہ و سائل پران کاتصرف رہا (دیکھئے باکس)ریاست کی زرعی،تعلیمی،اقتصادی اور سیاسی اداریں ان کے قبضہ میں ہیں اس لیے وہ آج آگے ہیں۔ برہمن،جین،عیسائی،سندھی سماج تو ان کے پاس پہلے ہی سے پیشہ،علم ودولت تھی اس لیے انہیں زیادہ پریشانیوں کا سامنا نہیں کرناپڑا۔ بے چارے مسلمان توانہیں نہ ریزوریشن کی سہولت ملی،نہ انہوں نے کوئی اعلی تعلیم حاصل ا ورنہ سیاست میں ان کاعمل دخل رہااس کے سبب سے وہ پیچھے رہیں۔ آزادی کے بعدکبھی انہیں فسادات کے خوف میں مبتلا کیا اوراب تو دہشت گردی و دہشت پسندی کے نام پہ ان کو ہراساں وپریشان کیا جا رہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ مالیگاؤں بم دھماکہ میں جن ہندودہشت گردو ں کو پکڑا گیا تھا،انہیں عدم ثبوت کے بناپرچھوڑ دیا گیا ہے۔گؤونش ہتیہ کے نام پر مسلم قصائیوں کی معیشت کو تباہ کیا جارہاہے۔ ہزاروں قصائی جو اس کاروبار سے منسلک ہیں انہیں بھی بے روزگاری کا سامنا ہے۔ 
 بہرحال یہ ایک مختصرسا خاکہ ہے مہاراشٹر کے مسلمانوں کا ضرور ی نہیں کہ آپ اس سے اتفاق رکھتے ہو، یہ ایک کوشش ہے میں نے آئینہ دیکھایا ہے،آئیندہ کسی موقع پر مہاراشٹر کے مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی،مذہی،اقتصادی اور سیاسی صورتحال پرتفصیل سے لکھا جائے گا۔ 
تصویربھی ابھریں گی،لکیریں توملا یاس 
یوں کچھ نہ بنانے سے تو بنتانہیں کچھ بھی

 مرز ا عبدالقیوم ندوی     
اورنگ آباد    
 9325203227

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔