اردو کو سائنسی علوم سے جوڑنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈاکٹر مہتاب عالم۔۔’’اردو ہماری تہذیب ہے،تہذیب ختم تو تعارف بھی ختم ہو جائے گا ۔‘‘اقراء تھیم کالج کے زیر اہتمام 'اردو کی مہک ،محبت ،مسائل و حل' موضوع پر منعقدہ سیمینار میں شرکاء کا اظہار خیال 'موج افکار مشتاق کریمی' کی رونمائی۔
اردو کو سائنسی علوم سے جوڑنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈاکٹر مہتاب عالم۔۔
’’اردو ہماری تہذیب ہے،تہذیب ختم تو تعارف بھی ختم ہو جائے گا ۔‘‘
اقراء تھیم کالج کے زیر اہتمام 'اردو کی مہک ،محبت ،مسائل و حل' موضوع پر منعقدہ سیمینار میں شرکاء کا اظہار خیال
'موج افکار مشتاق کریمی' کی رونمائی۔
جلگائوں : (پریس ریلیز)’’ہم اردو سے محبت کا دعوی تو کرتے ہیں ،مگر عملی اقدامات نہیں اٹھاتے ،جب حکومتوں نے دیکھا کہ لاکھ ستائے جانے کے باوجود اردو مر نہیں رہی ہے تو اکادمیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔فروغ اردو کے لیے قائم کردہ اردو اکادمیاں اردو کا فروغ کرنے کی بجائے نام نہاد قلم کاروں کا فروغ کرنے لگیں ۔کیا کوئی اردو اکیڈمی ،یہ اعداد و شمار پیش کر سکتی ہے کہ اس نے کتنے افراد کو اردو سکھائی؟کتنوں کو اردو ڈی ٹی پی سے آشنا کیا؟اگر ہم واقعی اردو کی ترقی چاہتے ہیں تو سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا اور اردو کو سائنسی علوم سے جوڑنا ہوگا ۔اردو پرچوں کی خریداری کا رواج جاری کرنا ہوگا ۔چھٹیوں میں بچوں کو موثر نصاب دینا ہو گا تب جاکر اردو کی ترقی کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں ۔‘‘ ان خیالات کا اظہار شعبہ صحافت جاگرن لیک سٹی یونیورسٹی بھوپال کے پروفیسر سینیئر صحافی ڈاکٹر مہتاب عالم نے جلگائوں میں اقرا ءایچ ۔جے ۔تھیم کالج آف آرٹس اینڈ سائنس ،اُردو ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام منعقدہ قومی سیمنار میں اپنے کلیدی خطب میں کیا ۔
ایس پی ڈی ایم کالج شیر پور کے صدر شعبہ اردوڈاکٹر ساجد علی قادری کی، صحافی و افسانہ نگار مشتاق کریمی کے فن و شخصیت پر مرتب کردہ کتاب ’موج افکار مشتاق کریمی‘ کی رسم رونمائی کے موقع پر اقرا نگر میں جیسے اردو قلم کاروں کا ایک میلہ سا لگا گیا تھا ۔کتاب کے سر ورق کی رونمائی تعلیمی میدان میں برسوں سےخدمات انجام دینے والے صنعت کار عبدالمجید زکریا جبکہ کتاب کی رونمائی پروفیسر ڈاکٹر مہتاب عالم کے ہاتھوں عمل میں آئی ۔ شمع فروزی ڈائمنڈ انگلش میڈیم اسکول و جونیئر کالج ساودہ کے صدر ڈاکٹر شیخ ہارون اقبال نے کی ،جبکہ صدارت و میزبانی کے فرائض ڈاکٹر عبدالکریم سالار نے انجام دیے ۔
اس موقع پر آرٹس ،سائنس اینڈ کامرس کالج بدنا پور کے صدر شعبہ اردو پروفیسر قریشی عتیق احمد نے کہا کہ ’’اردو زبان میرا اور آپ کا تعارف ہے ۔یہ ہماری تہذیب کا حوالہ ہے اور تہذیب تعصب کی زد پر ہے ۔یاد رکھیں تہذیب ختم ہو گئی تو ہمارا تعارف بھی ختم ہو جائے گا ۔یہ پتھروں کا جگر چیرنے کا وقت ہے ۔تہذیب اور رسم الخط اردو کی خوبصورتی و لباس ہے ۔اسکی بقاء کیلئے ہمیں جنگ لڑنی ہی ہوگی ۔انکش راو ٹوپے کالج جالنہ کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر انصاری مسعود اختر نے اپنے خطبہ میں کہا کہ ’’اردو زبان در اصل ایک محلول و مشروب کی طرح ہے ۔جس ماحول میں جاتی ہے وہاں سب کو ایڈجسٹ کرلیتی ہے ۔دیگر زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لیتی ہے اور اپنے اثرات دلوں پر ثبت کرتی دیتی ہے ۔اسکا دل بڑا وسیع ہے بالکل ہندوستان کی طرح ۔کتاب کے مرتب ڈاکٹر ساجد علی قادری نے کہا کہ مردہ پرستی کے اس دور میں ہم نے نئی شمع روشن کی ہے۔مشتاق کریمی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ موصوف اردو کی ایک بلند آواز ہیں ۔بس ان کے جذبات کو محسوس کیا جانا چاہئے ۔معروف افسانہ نگار رشید قاسمی نے کہا اردو کو صرف قول کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے ۔اردو اخبارات و رسائل کی نکاسی کیلئے ہمیں مل جل کر کوششیں کرنی ہونگی ۔دھار ( مدھیہ پردیش ) سے تشریف لائے جناب شفیع نقش بند ی نے کہا کہ ہمارے یہاں مدارس میں اردو زندہ ہے ۔ یہاں کا ماحول دیکھ کر میرا جی چاہ رہا ہے کہ مدھیہ پردیش چھوڑ کر مہاراشٹر بسا لوں کہ یہ اردو کی زندہ بستی ہے۔ماہر تعلیم حاجی انصار احمد(بھساول ) نے کہا کہ مورخ اس دن کو فخر سے لکھے گا کہ مردہ پرستی کے زمانے میں جیتے جاگتے ،اردو دوست ،آواز اردو مشتاق کریمی کے فن و شخصیت کو کتابی شکل میں ڈھالا گیا۔آکاش وانی جلگاؤں کے سابق پروگرام آفیسر جاوید انصاری نےخاندیش کے اردو پرچوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاست داں اردو کے تعلق سے جملے تو بڑے خوبصورت ادا کرتے ہیں مگر اردو کی ترقی کیلئے کوئی اقدام نہیں اُٹھاتے ،ڈاکٹر آفاق انجم نے اردو کو درپیش مسائل پر بات کی اور حل پر بھی روشنی ڈالی ۔سیوا سدن کالج برہان پور کے پرنسل ڈاکٹر ایس ۔ایم۔ شکیل نے کہا کہ یہ کتاب مشتاق کریمی کی پوشدہ خصوصیات کو آشنا کر گی ۔انہوں نے اپنے علاقے کے قلم کاروں پر تحقیق کئے جانے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ۔سپریم کورٹ میں اردو کغ مقدمہ جیتنے والے شاہ بابو ایجوکیشن سوسائٹی پاتور کے صدر سید برہان الدین نے سپریم کورٹ کے جیتے گئے مقدمے کی تفصیلات بیان کیں ۔جس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔صاحب اعزاز مشتاق کریمی نے ڈی ۔ایڈ اور بی ۔ایڈ کے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کے ہاتھوں میں اردو کا مستقبل ہے ۔بچوں کو بچپن سے ہی اردو کی گھٹی پلائیےگا۔اردو املا اور تلفظ اگر ہمارا درست ہوگا تو یقینی طور پر بچوں پر بھی اُس کے بہترین اثرات پڑیں گے ۔یہ مت سوچیے گا کہ سی سی ٹی وی ہمیں دیکھ رہا ہے بلکہ ہر لمحہ یہ ذہن میں رکھیے گا کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ڈاکٹر مہتاب عالم نے سائنسی علوم اردو میں منتقل کیے جانے کا مشورہ دیا ۔انہوں نے یہ بھی کہا پہلے ہم اردو کا تحفظ تو کر لیں پھر آبیاری ہو گی ۔انہوں نے مزید کہا کہ اردو کی تاریخ خاندیش کے تذکرہ کے بغیر ادھوری ہے ۔
اپنے صدارتی خطبہ میں ڈاکٹر عبدالکریم سالار نے کہا کہ اردو سب کی جان ہے۔ یہ دلوں تک پہنچنے والی زبان ہے ۔سیاست دانوں نے ایوانوں میں اسے صرف اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا ہے ۔یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ماں پورا پورا حق ادا کریں ۔روز محشر اس کی بھی پوچھ ہو سکتی ہے ۔سیمنار کا آغاز قاضی مزمل ندوی کی تلاوت قرآن سے عمل میں آیا ۔اردو ریسرچ سینٹر کی انچارج پروفیسر کہکشاں صاحبہ نے افتتاحی کلمات ادا کئے ۔اس موقع پر ڈاکٹر مہتاب عالم ،پرنسپل ایس ۔ایم شکیل ،ڈاکٹر ساجد علی قادری اور سید برہا ن الدین کو نشان اقراء ایوارڈ تفویض کیا گیا ۔مثالی معلم و اردو کے بے لوث خادم محمد عاصم راوی کو ’’مخلص معلم ایوارڈ سے سر فراز کیا گیا ۔ابتدائی جلسے کی نظامت پروفیسر مبشرنے کی جبکہ سیمنار کی نظامت صابر مصطفی آباد ی نے اپنی پاٹ دار آواز میں کی ۔پروفیسر وقار شیخ کے رسم شکریہ پر جلسہ کا اختتام عمل میں آیا ۔اس تقریب میں قیوم راز مارولوی، بلال حسین کاکر ،عبدالعزیز سالار ،خالد بابا باغبان اور زاہد شاہ بطور مہمان خصوصی موجود تھے ۔ہال سامعین سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا ۔ضلع بھر کے قلم کاروں نے اس تقریب میں شرکت فرماکر اپنی اردو دیوانگی کا ثبوت دیا۔یہ جلسہ اردو کی بہترین تقربیات میں شمار کیا جائےگا اس قبیل کے جملے بھی سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے۔
Comments
Post a Comment