وہم و بدگمانی: خوشیوں کو نگلنے والی بیماری۔۔ازقلم : حکیم شاہ مدثر، عمرکھیڑ۔۔

وہم و بدگمانی: خوشیوں کو نگلنے والی بیماری۔۔
ازقلم : حکیم شاہ مدثر، عمرکھیڑ۔۔

انسان کی زندگی میں بعض زخم ایسے ہوتے ہیں جو باہر سے نظر نہیں آتے، مگر اندر ہی اندر روح کو کھا جاتے ہیں۔ بدگمانی بھی انہی روحانی زخموں میں سے ایک زہر ہے، جو آہستہ آہستہ محبت کے بدن میں گھستا ہے، اعتماد کی رگوں سے خون چوس لیتا ہے اور رشتوں کی سانس بند کر دیتا ہے۔ حیرت اس بات کی نہیں کہ یہ بیماری کتنی تیزی سے پھیلتی ہے، حیرت اس بات کی ہے کہ اس کا شکار ہونے والا شخص اکثر خود کو بیمار سمجھتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا گمان حقیقت ہے، اس کی تشویش دلیل ہے، اس کا شک دراصل اس کی “آنکھ کی صفائی” ہے، جبکہ اس کی ساری دنیا کسی غلط مفروضے کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے۔
زندگی میں رشتے طوفانوں سے کم اور خاموش غلط فہمیوں سے زیادہ ٹوٹتے ہیں۔ انسان کا ذہن جب اپنی غیر ضروری سوچوں کے کنویں میں قید ہو جائے تو وہم اور بدگمانی اس کے دل کے آسمان پر ایسے بادل چھوڑتے ہیں جن سے کبھی بارش نہیں ہوتی، صرف اندھیرا بڑھتا ہے۔ اور یہی اندھیرا خوشیوں کو نگل جاتا ہے۔ بدگمانی کوئی عام اخلاقی کمزوری نہیں؛ یہ ایک گہرا زہریلا فریب ہے جو انسان کو خود سے بھی دور کر دیتا ہے اور اپنے پیاروں سے بھی۔
اللہ رب العالمین نے انسان کی اس کمزوری کو قرآن میں نہایت واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ فرمایا:
"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔"(سورہ الحجرات) 
یہ الفاظ نہ صرف ایک حکم ہیں بلکہ انسانی ذہن کے اندر چلنے والی کیفیت کا پردہ بھی چاک کر دیتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں بتایا کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہر بات کا مطلب تلاش کرنے لگتا ہے، مگر یہ مطلب اکثر اس کے اپنے ذہنی وسوسوں سے جنم لیتا ہے، حقیقت سے نہیں۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔"
یہ حدیث اپنے اندر پوری زندگی کا دستور رکھتی ہے۔ بدگمانی وہ پہلی چنگاری ہے جو محبت کو جلا کر خاک کر سکتی ہے۔ یہ وہ زہر ہے جو دو انسانوں کے درمیان نہ دکھتا ہے، نہ سنائی دیتا ہے، مگر دونوں کے دلوں کو خاموشی سے زخمی کرتا رہتا ہے۔
سلف صالحین بدگمانی کو دل کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ فرمایا کرتے تھے کہ مؤمن کا دل آئینے کی طرح ہوتا ہے، اس میں دوسروں کی خوبیاں زیادہ جھلکتی ہیں۔ جو دل دوسروں کی خیر دیکھنے کا عادی ہو، وہ کبھی بدگمانی کا شکار نہیں ہوتا۔ امام حسن بصریؒ کہتے تھے کہ بدگمانی دل کا زنگ ہے، اور زنگ زدہ دل کبھی سکون نہیں پاتا۔ تابعین میں ایک بزرگ کا واقعہ ملتا ہے کہ کسی نے ان کے کان میں آ کر کہا کہ فلاں شخص آپ کے بارے میں ایسی باتیں کرتا ہے۔ وہ مسکرائے اور جواب دیا: "وہ اپنی زبان سے اپنے دل کا حال بتا رہا ہے، میرا دل تو اس کے لیے صاف ہے۔" یہ جواب دراصل دل کی وسعت کی علامت ہے. ایسی وسعت جو بدگمانی کی بیماری کو راستہ ہی نہیں دیتی۔
اپنے کلینک میں بیٹھا میں نے زندگی کی تلخ حقیقتیں بارہا دیکھی ہیں۔ میرے پاس آنے والے اکثر مریض جسمانی کمزوری کی بجائے ذہنی اور جذباتی زخموں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے مرض کی جڑ زیادہ تر یہی وہم اور بدگمانی ہوتے ہیں۔
ایک دن ایک شخص میرے پاس آئے، جو پیشہ سے ٹیچر تھے اُن کے چہرے پر پریشانی اور بے چینی صاف نظر آرہی تھی۔ کہنے لگے: 
"حکیم صاحب! مجھے لگتا ہے کہ میرے ساتھی اساتذہ میرے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ وہ آپس میں بات کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یقینا میرے بارے میں ہی گفتگو ہوتی ہوگی۔ ان کی خاموشی بھی مجھے عجیب لگتی ہے، ان کی ہنسی بھی، ان کی نظریں بھی۔"
میں نے پوچھا: "کیا انہوں نے کبھی کچھ کہا؟ کوئی اشارہ؟ کوئی واقعہ؟"
انہوں نے مایوسی سے کہا:
"نہیں… لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے…" یہی "محسوس ہوتا ہے" زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ ثابت ہوتا ہے۔ کئی دن بعد حقیقت یہ سامنے آئی کہ ان کے ساتھی اپنے اسکول کے اندرونی مسائل پر بحث کرتے تھے، ان کا ان سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ مگر وہم نے خاموش لوگوں کو دشمن بنا کر پیش کر دیا۔ اس طرح کے بیشتر واقعات میرے سامنے آتے رہتے ہیں ، مریض کی زندگی محض وہم و گمان میں گذرتی رہتی ہے، 
میڈیکل سائنس بھی کہتی ہے کہ بدگمانی دراصل سوچ کی خرابی ہے۔ انسان جب تھک جاتا ہے، ذہنی دباؤ زیادہ ہوتا ہے یا اندر خوف بیٹھ جائے تو دماغ ہر بات کو منفی رخ سے دیکھنے لگتا ہے۔ ماہرین نفسیات اسے Cognitive Distortion یعنی سوچ کی بگڑی ہوئی شکل کہتے ہیں۔ ایسی سوچ انسان کو حقیقی دنیا کے بجائے اپنے خیالات کی دنیا میں قید کر دیتی ہے، جہاں ہر آواز شک لگتی ہے، ہر خاموشی سازش لگتی ہے، ہر مصروفیت بے رخی لگتی ہے، اور ہر الگ مزاج دشمنی نظر آنے لگتی ہے۔ بدگمانی ایک ذہنی بیماری ہے، جب دل کمزور ہو جائے تو وہ دوسروں کی نیتوں کا بھی غلط اندازہ لگانے لگتا ہے۔ خود سے کہانیاں بنانے لگتا ہے، گویا انسان اندر سے زخمی ہو تو پوری دنیا اسے دشمن محسوس ہوتی ہے۔
آج کے سماج میں یہ بیماری ڈراؤنی رفتار سے پھیل رہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو برا سمجھنے لگے ہیں، باہمی تعلقات ختم ہوگئیں، بات چیت کم، شک زیادہ۔ سوشل میڈیا نے اس مرض کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایک فوٹو، ایک پوسٹ، بس آخری بار دیکھا… اور دل میں بے شمار وسوسے پیدا ہوجاتے ہیں۔ رشتوں کا سکون ختم ہو جاتا ہے، محبت کی جگہ تجسس جگہ لے لیتا ہے، اور اعتماد کی جگہ خوف۔
بدگمانی کا سب سے بڑا نقصان گھر میں دکھائی دیتا ہے۔ ماں باپ کی نصیحتیں اولاد کو مداخلت لگنے لگتی ہیں، بہن بھائی معمولی بات پر ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں، دوستوں کے چہرے بدلتے نہیں مگر نظر کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ اور یہی زاویہ پوری دنیا کی تصویر مسخ کر دیتا ہے۔
بدگمانی کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ انسان جتنا بیمار ہوتا جاتا ہے، دلیل کی ضرورت اتنی ہی کم ہوتی جاتی ہے۔ اسے ہر چیز مشکوک لگتی ہے، ہر شخص دوغلا دکھائی دیتاہے، ہر رویہ مصنوعی لگتا ہے۔ حقیقت میں یہ دوسروں کا نہیں اس کے اپنے اندر کا زخم ہوتا ہے جو اسے ہر سمت خون آلود نظر آتی ہے۔
اس بیماری کا علاج کسی دوا کے نسخے میں نہیں؛ یہ علاج دل اور نظر دونوں کی تربیت میں ہے۔ انسان جب دوسروں کے بارے میں اچھا سوچنا شروع کر دیتا ہے تو بد گُمانی کی تاریکیاں دھیرے دھیرے چھٹنے لگتی ہیں۔ اپنے دل کو صاف رکھنا، باتوں کی تصدیق کرنا، کسی کے بارے میں برا گمان نہ رکھنا، نیت کو درست رکھنا—یہ سب دل کے لیے وہی کام کرتے ہیں جو تیز دھوپ میں کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھنے سے ملنے والا سکون دیتا ہے۔ رشتے آسانی سے نہیں بنتے؛ انہیں سنبھالنے کے لیے دلوں کو کشادہ کرنا پڑتا ہے۔ بدگمانی کے دروازے بند ہوں تو محبت کے راستے خود روشن ہونے لگتے ہیں۔
زندگی میں سکون پانے کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے ذہن کی جنگ کو ختم کیا جائے۔ وہم کو جگہ نہ دی جائے، خوف کو حقیقت نہ سمجھا جائے، خاموشیوں کو سازش نہ بنایا جائے۔ دوسروں کے بارے میں اچھا سوچ کر انسان اپنے اندر کے اندھیروں کو شکست دیتا ہے۔ خوشیاں ہمیشہ وہیں پھلتی ہیں جہاں دل وسیع ہوتے ہیں، گمان پاک ہوتے ہیں، اور اعتماد کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔
آخر میں یہی حقیقت بار بار دل پر دستک دیتی ہے کہ وہم و بدگمانی شک کو جنم دیتی ہے، یہ محض دماغی مرض ہے، جو خاندانی رشتوں کو بکھیر دیتی ہے، محبتوں کو زخم دیتی ہے اور گھروں کی بنیادیں ہلا دیتی ہے۔
جو انسان اس مرض سے بچ گیا، اس نے دنیا بھی سنوار لی اور آخرت بھی۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔