حضرت عتیق جاذب، ریاست ٹمل ناڈو میں ادارہ ادب اسلامی کے سرخیل۔۔شخصیت اور فن۔۔ازقلم : اسانغنی مشتاق رفیقیؔ، وانم باڑی۔
حضرت عتیق جاذب، ریاست ٹمل ناڈو میں ادارہ ادب اسلامی کے سرخیل۔۔
شخصیت اور فن۔۔
ازقلم : اسانغنی مشتاق رفیقیؔ، وانم باڑی۔
ناموں کے حوالے سے اگر کسی کی شخصیت پرکھی جائے تو ایسے بہت ہی کم لوگ ملیں گے جو اسم با مسمی ہوتے ہیں۔ حضرت عتیق جاذب ایسی ہی چند گنی چنی شخصیات میں شامل ہیں جو اسم با مسمی ثابت ہوئے۔ عتیق آپ کے والدین کا دیا ہوا نام ہے اور آپ نے زندگی بھر اس نام کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے ہوئے معاشرے میں اپنے آپ کو شرافت کے اعلیٰ معیار اور قابل تکریم ثابت کرنے میں ہر زاویے سے کامیاب رہے اور ہمیشہ اپنے آپ کو ہر قسم کی فکری اور معاشی غلامی سے آزاد رکھا۔ بحیثیت شاعر و ادیب جاذب آپ کا اختیار کردہ قلمی نام ہےاور اس حوالے سے بھی آپ کی ادبی شخصیت اتنی پرکشش رہی کہ نہ صرف ریاست ٹمل ناڈو کے ادبی حلقے میں بلکہ ادب اسلامی ھند کے صف اول کے شہسواروں میں آپ کا نام پورے ادب و احترام کے ساتھ شمار کیا جاتا ہے۔
جنوب کا علی گڈھ سمجھے جانے والے شہر وانم باڑی کے ایک علمی و ادبی خانوادے میں حضرت عتیق جاذب 14 اپریل 1947 میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا کرشنگری عبدالحمید صاحب شہر وانم باڑی کے مشہور مدرسہء نسوان کے بانیوں میں سے تھے، آپ کے والد حیدرالحسن تجارت پیشہ ہوتے ہوئے بھی ایک اچھے شاعر مانے جاتے تھے اور آپ کے تایا محمودالحسن کا شمار بھی شہر کے مانے ہوئے شاعروں میں ہوتا تھا۔ آپ کے نانا مولانا کاتب محمد ابراھیم اور ماموں مولانا کاتب محمد یوسف شہر کے جید علماء میں شمار ہوتے تھے۔آپ کے دو بھائی کلیم طاہری اور مختار اختر بھی اپنی خوبصورت اور دلچسپ شاعری کے لئے خاصی پہچان رکھتے تھے۔ گویا آپ کا پورا خاندان بقول ڈاکٹر سید جلال عرفان، ایں خانہ ہمہ آفتاب است، کی مثال بنا ہوا تھا۔ ہائی اسکول کے زمانے سے ہی آپ کو شاعری کا چسکا لگ گیا اور چونکہ آپ کی طبعیت میں شوخی اور مزاح کا عنصر کچھ زیادہ ہی تھا اس لئے مزاحیہ شاعری کی جانب مائل ہوئے اور اس صنف میں ایسے ایسے گل کھلائے کہ سنجیدہ محفلوں کو بھی زعفران زار بنا کر چھوڑا۔ دو قطعات ملاحظہ کریں
وہ ہم کو خط جو لکھتے ہیں تو انگریزی میں لکھتے ہیں
بہت ہی مختصر لکھتے ہیں جب جلدی میں لکھتے ہیں
مگر خط میں محبت کا جہاں بھی نام لیتے ہیں
قلم کو انک کے بدلے ڈبو کر گھی میں لکھتے ہیں
جناب شیخ کا شوقِ سنیما
ہر ایک ہفتہ میں دو دو دیکھتے ہیں
نمازوں کی بھی پابندی ہے قائم
عشاء پڑھ کر سکینڈ شو دیکھتے ہیں
لاٹری کے عنوان پر لکھے گئے آپ کے مزاحیہ قطعات بھی کافی مشہور ہوئے۔انہیں دنوں شہر میں بزم نو کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم ہوئی جس کا پہلا مشاعرہ 15 اپریل 1967 کو آپ ہی کے آبائی مکان میں منعقد ہوا۔ اس بزم کے تحت لگ بھگ چار دہائیوں تک شہر میں ماہانہ طرحی مشاعروں کا ہنگامہ برپا رہا جس کے اکثر مشاعروں میں حضرت عتیق جاذب کی شرکت لازمی رہی۔ بحیثیت شاعر آپ کو اور آپ کے کئی ہم عصر شعراء کو نکھارنے میں بزم نو کا کردار بہت ہی اہم رہا ہے۔
اسلامیہ ہائی اسکول سے 1964 میں ایس ایس ایل سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے اسلامیہ کالج وانمباڑی سے 1968 میں بی کام کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم کے بعد سماجی ذمہ داریوں کا احساس اس حد تک آپ پر طاری ہوا کہ آپ جماعت اسلامی ہند کے ہمہ وقتی فعال رکن بن گئے اور جماعت کےچنئی زونل آفس میں بحیثیت معتمد ذمہ داری سنبھال لی، ایمرجنسی کے دوران جماعت کے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ چنئی سنٹرل جیل میں لگ بھگ چھ ماہ آپ نے قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ 1973 میں آپ کی شادی جماعت اسلامی ھند کے صف اول کے رہنما جناب اعجاز احمد اسلم صاحب کی بہن سے ہوئی جن سے آپ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ شادی کے بعد آپ چنئی سے وانم باڑی مستقل قیام کے لئے منتقل ہوکر تجارت سے منسلک ہوگئے مگر جماعت کے ساتھ وابستگی میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ 1990 تا 1995 تک بحیثیت امیر مقامی شہر وانم باڑی آپ خدمت انجام دیتے رہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ آپ کی یہ رفاقت زندگی کی آخری سانسوں تک قائم رہی۔ جماعت کے ساتھ جڑنے کے بعد آپ کی ادبی زندگی میں ایک انقلاب آگیا۔ آپ نے مزاحیہ لب ولہجہ ترک کر کے سنجیدہ اور اصلاحی شاعری کو اپنی ادبی زندگی کا محور بنا لیا۔
جھلکیاں حضرت عتیق جاذب کی 1971 میں شائع شدہ پہلی کتاب ہے جس میں آپ نے مزاحیہ انداز میں بزم نو کے ایک خیالی مشاعرے کی روداد پیش کی ہےجو بطور نثر نگار آپ کی ادبی حیثیت متعین کرنے کے لئے کافی ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کی دہلی کے آخری مشاعرے کی روداد کی طرز پر لکھی گئی اس روداد میں آپ نے بزم نو کے اٹھائیس شعرا کے کلام کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا ہے۔ روداد کی نثر بہت ہی چست برجستہ اور قاری کو شروع سے آخر تک باندھے رکھنے کی بھر پور صلاحیت سے مزین ہے۔ ایک خواب کی شکل میں جو مصنف کو ریل کے سفر میں نظر آتا ہے، پیش کی گئی اس روداد میں مرزا اسداللہ خان غالب کو بطور صدرمشاعرہ پیش کر کے ایک ماورائی فضا پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
شاعری میں آورد کو آمد کے لب و لہجہ میں پیش کرنے کے لئے بڑی ریاضت اور فن پر عبور چاہئے ہوتا ہے۔ حضرت الطاف حسین حالی، علامہ اقبال اس کے تابندہ مثال ہیں۔ اس نہج پر بہت کم شعراء ہی کامیاب ہو پاتے ہیں اور ان کامیاب شعراء میں حضرت عتیق جاذب کا نام نامی بھی شامل ہے۔ اپنے دور اور خاص کر اپنے ہم عصر شعراء کے اسلوب سے ہٹ کر ایک مخصوص فکر کو سلاست اور روانی کے ساتھ عوامی زبان میں جس خوبصورتی اور مشاقی کے ساتھ پیش کرکے آپ نے اپنی پہچان بنائی وہ آپ ہی کا خاصہ ہے۔ زبان کی باریکیوں اور لفظیات کے گلیاروں کی خاک چھانے بغیر تخیل کو شعری لباس سے آراستہ کرنا اگر کمال ہے تو آپ کو اس کمال میں ید طولی حاصل تھا۔ مزاحیہ لب ولہجہ سے سنجیدہ، اصلاحی اور موضوعاتی لب ولہجے کی جانب مراجعت کرتے ہوئے آپ کے کلام میں کہیں بھی وہ موڑ نظر نہیں آتا جہاں لگے کہ فن پر آپ کی گرفت کمزور پڑرہی ہے۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ریاست ٹمل ناڈو کے موجودہ صدی کے شعراء میں آپ کی انفرادی ادبی حیثت نہ صرف مسلم ہے بلکہ کئی اعتبار سے اپنا لوہا منواتی نظر آتی ہے۔
پیام حیات، متاع حیات اور گلدستہ حیات کے نام سے حضرت عتیق جاذب کے حیات ہی میں، تین شعری تصنیفات شائع ہو کر تشنگان شعر وادب کو سیراب کرچکی ہیں اور آپ کی رحلت کے بعد اردو ادب میں آپ کو تابندہ رکھی ہوئی ہیں۔ ان تینوں مجموعہ کلام میں شامل آپ کی شعری تخلیقات جہاں آپ کی ادبی قد کا اندازہ کراتی ہیں وہیں اس میں معاشرے کے تئیں آپ کی حسساسیت، اسلام اور اسلامی موضوعات سے آپ کا قلبی لگاؤ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کے لئے اپنے فن کو نچھاور کرنے کا جذبہ اپنے پوری آب و تاب کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ان ساری خوبیوں کے باوجود مزاج میں اتنی سادگی کہ پیام حیات میں خود تحریر کرتے ہیں؎
"میں نہ بہت بڑا شاعر ہوں اور نہ بڑا فن کار۔ آسان اور گفتگو کی زبان میں شعر کہنا میرا مشغلہ ہے۔ آپ کو میری شاعری میں زبان کا اونچا معیار، چاشنی اور فن کے کمالات نظر نہیں آئیں گے۔ ایک سیدھا سادھا سا ذوق تھا جو مجھے وراثت میں مل گیا تھا۔ اسی کو میں نے مقصدی اور اصلاحی رنگ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کو کچھ نہ کچھ کمال عطا فرمایا ہے جسے وہ نکھار کر ایک حسین شکل دے لیتا ہے۔ اس کمال کو وہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کے لئے استعمال کرتا ہے تو وہ خیر کہلاتا ہے۔ اسی جذبہ کے تحت میں نے اپنے کلام کے مجموعہ کو کتاب کی شکل دی ہے۔ متاع حیات میری غزلوں کا مجموعہ ہے اور پیام حیات میری نظموں کا۔"
"انسانی سماج کی خرابیوں اور بگاڑ کا جہاں بھی ذکر آیا ہے وہ مجموعی طور پر نیک نیتی اور اصلاح کی غرض سے ہے۔ برائیوں کا جہاں تک تعلق ہے اس میں دنیا کے سارے ہی خطے اور انسان شامل ہیں۔ کسی فرد واحد، افراد یا کسی خاص گروہ کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ نہ کسی پر چوٹ ہے نہ کسی کی دل آزاری مقصود ہے۔"
یوں تو حضرت عتیق جاذب نے شاعری کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن آپ کی شہرت میں آپ کی نظموں کا دخل زیادہ ہے۔ سلیس، با محاورہ اور اصلاحی نوعیت کی حامل آپ کی نظمیں ریاست ٹمل ناڈو کے تعلیمی نصاب کا حصہ بن کر اپنی حیثیت منوا چکی ہیں۔ فکر کی گہرائی اور معیار کی بلندی سے آراستہ آپ کی بامقصد شاعری پوری اردو دنیا میں نیک نامی حاصل کر چکی ہے۔ پیام حیات میں سے آپ کی ایک مشہور و معروف نظم 'عطا' کا ابتدائی بند یہاں پیش ہے جسے بقول سراج زیبائی حضرت عتیق جاذب کی زندگی کا حاصل سمجھا جاسکتا ہے۔
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
سورج کے اجالے سے فضاؤں سے خلا سے
چاند اور ستاروں کی چمک اور ضیا سے
جنگل کی خموشی سے پہاڑوں کی انا سے
پرہول سمندر سے پر اسرار گھٹا سے
بجلی کے چمکنے سے کڑکنے کی صدا سے
مٹی کے خزانوں سے اناجوں سے غذا سے
برسات سے طوفان سے پانی سے ہوا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
جامعہ دارالسلام عمر آباد کے سابق استاذ محترم معتبر شاعر مولانا ابوالبیان حماد آپ کے شاعری کے تعلق سے فرماتے ہیں؎
"عتیق جاذب صاحب اپنے اشعار کے ذریعے دینی احکام اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیتے ہیں اور اقامت دین اور غلبہء اسلام کے لئے سب کے دلوں میں بیداری کی تازہ لہر پیدا کر دیتے ہیں"۔
حضرت عتیق جاذب کے ہم عصر شاعر اور نقاد سراج زیبائی آپ پر اور آپ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"ان کے شعروں میں بلا کا تنوع وسعت اور قوت دیکھی جا سکتی ہے ۔ ان کے اسلوب میں ملال آمیز تجربوں کا بیان بھی اس وقار اور طمانیت کے ساتھ ہوا ہے کہ جو شخصیت میں گہرائی کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ عتیق جاذب صاحب کی مجموعی شاعری پڑھنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان میں زبان دانی اور لفظیات پر عبور سے زیادہ ان کے شعور کی وسعت اور ان کے تخیل کی جولانی ہے۔ ان کا کلام پڑھ کر ان کی قدرت کلام مشاقی اور طبیعت میں ہمہ گیری و جودت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔"
"شاعری میں تصوف و اخلاق ان کا خاص وصف رہا ہے۔ جو انھیں دوسروں سے ممتاز رکھتا ہے۔ انھیں ہم ایک شاعر کے ساتھ ساتھ ایک صوفی بزرگ کی حیثیت سے بھی قابل فخر تصور کر سکتے ہیں کہ موصوف اپنی شاعری میں اکثر معاشرے کو پیغام دیتے ہیں اور نصیحتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ اس دنیا سے دل لگی ٹھیک نہیں فکر آخرت ہی میں نجات ہے۔"
آپ کے فن پر جامع اور خوبصورت تبصرہ آپ کے رفیق جماعت حضرت انور فرید نے فرمایا ہے لکھتے ہیں؎
"کلام جاذب میں زندگی کی نمود تعمیر فکر تعمیر کردار اور انسانیت کے اصلی اقدار کی ترجمانی ملتی ہے جو ذہن و دل کے بند دریچوں کو وا کرتی ہیں ۔ ادب کی یہ صنف جہاں بھی ہو جس درجہ میں بھی ہو قابل قدر ولائق تحسین و آفریں ہے۔ آپ کی شاعری فکر و خیال کو روشن کرتی ہے انبساط روح کا سامان بھی مہیا کرتی ہے۔ آپ ان شاعروں میں سے ہیں جو اپنے حسن کلام کی وجہ سے ہر حلقہ شعر و ادب میں مقبول ہیں۔"
آپ نے صرف نظموں میں ہی نہیں غزلوں، قطعات اور رباعیات میں بھی اپنی فکر کی جولانیاں بکھیری ہیں۔ کچھ اشعار بطور نمونہ یہاں پیش کئے جارہے ہیں
مشتعل ان پر بھی ہم کو بے سبب ہونا پڑا
بات کرنی تھی ادب کی بے ادب ہونا پڑا
نہیں ہے یہ کوئی صحرا نوردی
ہمارے پاؤں کے چھالے الگ ہیں
وقت جب آئے گا اپنا کام کر جائے گی وہ
موت بھی چلتی رہے گی زندگی کے ساتھ ساتھ
دنیا تو کبھی حسن کو تہمت نہیں دیتی
اور عشق ہمیشہ سے ہی بد نام بہت ہے
خوش رہ کے خود بھی سب کو خوشی بانٹتا پھرے
انسان اس جہاں میں وہی کامیاب ہے
دیکھنا ہے انہیں ہوتا ہے کہاں تک احساس
ہم نے ہر بات بڑے پیار سے سمجھائی ہے
متاع وقت بڑا قیمتی خزانہ ہے
نکل گیا تو کبھی بھی نہ پاسکو گے اُسے
اردو زبان و ادب کے علاوہ آپ انگریزی نثر لکھنے میں بھی خاصی دسترس رکھتے تھے اور انگریزی زبان میں آپ کی چار کتابیں شائع ہو کر مقبولِ عام ہوچکی ہیں۔
1. Live a long life
2. You can become rich
3. Our rights & responsibilities
4. The Perfect Life
ریاست تملناڈو میں بامقصد اردو ادب کے ایک کامیاب تخلیق کار، ادارہ ادب اسلامی کے سرخیل، سچائی اور صاف گوئی کے پیکر، بلند اخلاق کے حامل انتہائی مخلص نیک دل نیک خو حضرت عتیق جاذب صاحب کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد بروز منگل 21 مارچ 2023 بمطابق 28 شعبان 1444ھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور یوں ریاست کے اردو ادب کا ایک درخشاں باب اپنے اختتام کو پہنچا۔
Comments
Post a Comment