" ہےرام " (ستیہ کا شور اور اہنسا کی گنج)ازقلم ۔۔۔۔۔عرفان محمد اسحاق بانکری (سوشل اُردو ہائی اسکول شولاپور، مہاراشٹر)

" ہےرام "
 (ستیہ کا شور اور اہنسا کی گنج)
ازقلم ۔۔۔۔۔
عرفان محمد اسحاق بانکری 
(سوشل اُردو ہائی اسکول شولاپور، مہاراشٹر)

تاریخ کے صفحات میں ایسے افراد کم ہی ملتے ہیں جنہوں نے طاقت کے مقابلے میں سچائی اور اخلاقی جرات کو ہتھیار بنایا۔ 
  موہن داس کرم چند گاندھی، جنہیں دنیا مہاتما گاندھی کے نام سے جانتی ہے، اُن شخصیات میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اُن کی تحریکِ آزادی کا جوہر “سچائی” اور “عدم تشدد” پر مبنی تھا۔ یہی سچائی اُن کی سب سے بڑی طاقت تھی، اور یہی شور برطانوی حکومت کے لیے سب سے بڑی بےچینی کا باعث بن گیا۔
گاندھی کے نزدیک سچ صرف قول یا عقیدہ نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا عملی اصول تھا۔ اُن کا نظریہ "ستیہ گرہ" یعنی "سچائی پر اٹل رہنا" 
اس فلسفے کی بنیاد بنا۔ اُن کا کہنا تھا کہ طاقت کے بل پر حاصل ہونے والی جیت وقتی ہوتی ہے، مگر سچائی پر قائم رہنے والی فتح دائمی ہے۔
یہی وہ شور تھا جو لاکھوں غلام بھارتیوں کے دلوں میں بیداری کی لہر بن گیا۔
مہاتما گاندھی برصغیر کی تاریخ کا وہ عظیم کردار ہیں جنہوں نے ظلم، نفرت اور طاقت کے بجائے سچائی، محبت اور عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ 
گاندھی جی کا ماننا تھا کہ سچائی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ان کے نزدیک سچائی محض الفاظ نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔ انسان اگر سچائی کے راستے پر چلے تو وہ خود بخود برائی اور نفرت سے دور رہتا ہے۔
گاندھی جی کا کہنا تھا کہ کسی بھی جدوجہد میں تشدد اختیار کرنا کمزوری کی علامت ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ حقیقی بہادری دوسروں کو نقصان پہنچانے میں نہیں بلکہ برداشت اور محبت کے ذریعے انہیں بدلنے میں ہے۔
ستیاگرہ گاندھی جی کی تحریک کا روحانی اور اخلاقی مرکز تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان ظلم کے خلاف آواز ضرور اٹھائے، مگر سچائی اور عدم تشدد کے دائرے میں رہ کر۔ ستیاگرہ کا مقصد دشمن کو شکست دینا نہیں بلکہ اس کے دل کو بدلنا ہے۔
گاندھی کے سچائی کے فلسفے نے عوام کے اندر اخلاقی بیداری پیدا کی۔
مہاتما گاندھی کی بھارت میں پہلی تحریک چمپاران ستیہ گرہ (1917) دوسری کھیڑا ستیہ گرہ (1918)اور تیسری آحمد آباد مِل مزدور ستیہ گرہ (1918) تھی یہ گاندھی جی کی شروعاتی چھوٹی تحریکیں تھیں ۔اور اسی طرح بھارت کی وہ بڑی تحریکیں جنہوں نے پورے بھارت کو جوڑنے کا کام کیا۔اُن میں عدم تعاون تحریک (1920)،سِول نافرمانی تحریک(1930) اور آخر میں "کرینگے یا مرینگے " نعرہ لگا کر بھارت چھوڑو تحریک ( 1942) چلائی گئی ۔یہ تمام تحریکیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ سچائی کا شور کسی بند دروازے میں قید نہیں رہ سکتا۔
لوگوں نے محسوس کیا کہ سچائی کی آواز بندوقوں سے نہیں، بلکہ ضمیر سے جنم لیتی ہے۔ اس عوامی حمایت نے برطانوی سامراج کو اخلاقی سطح پر شکست دی۔
جس گاندھی کے اصولوں سے انگریز خوف کھاتے تھے اور انہی لگتا کے گاندھی تو صرف ایک شخص نہیں ایک سوچ ہے جس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔۔۔
اُسی گاندھی کا نظریہ اُن لوگوں کو پسند نہیں آیا جو تھے تو بھارتی لیکن بھارت کے ہی سماجی اتحاد اور مساوات کے دشمن تھے۔جو نفرت، تفرقے اور انتہاپسندی میں یقین رکھتے تھے۔
 گاندھی جی کے تعلیمات نے مذہبی انتہا پسندوں کے نظریے کو چیلنج کیا، کیونکہ وہ ہندو، مسلمان، سکھ یا عیسائی سب کو ایک نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کچھ لوگ اُنہیں “قوم کے دشمن” سمجھنے لگے۔
جب گاندھی جی نے تقسیمِ ہند کے وقت ہندو مسلم اتحاد کی بات کی، تو انتہا پسند عناصر کو لگا کہ وہ اُن کے نظریے کے خلاف جا رہے ہیں۔ اسی نفرت نے آخرکار اُن کی جان لے لی۔۔۔
یہ سوچ دراصل شدت پسندی، خوف، اور تقسیم کی سیاست کا نتیجہ تھی، جس میں مذہب کے نام پر انسانیت کو بھلا دیا گیا۔
30 جنوری 1948 کی شام، نئی دہلی کے برلا بھون میں گاندھی اپنی شام کی دعائیہ تقریب کے لیے جا رہے تھے۔ اسی وقت ناتھورام گوڈسے نے ان کے قریب آ کر تین گولیاں چلائیں۔
گاندھی زمین پر گرتے ہوئے صرف ایک جملہ بول سکے۔۔۔
 “ہے رام!”
یہ دو الفاظ ان کی پوری زندگی کا خلاصہ تھے ۔ ایک ایسے شخص کے جو مرنے کے وقت بھی نفرت کے جواب میں محبت،سچائی اور ایمان کا پیغام دے گیا۔۔۔۔
اس سے بڑا المیہ اس ملک کے لیے کیا ہو گا کہ۔۔۔
"رام کے نام پر رام کا نام لینے والوں نے رام کے ہی ایک عظیم اہنسا وادی بھکت کو ہنسا کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا"
گاندھی کا قتل دراصل اس شور کا انجام تھا جو فرقہ واریت، نفرت، اور سیاسی مفادات نے برپا کیا تھا۔
گوڈسے کی سوچ ایک محدود قوم پرستی پر مبنی تھی، جب کہ گاندھی کا فلسفہ آفاقی انسانیت کا علمبردار تھا۔
ایک طرف بندوق کی آواز تھی، دوسری طرف گاندھی کے لبوں پر محبت کا پیغام۔۔۔
 گاندھی جی کی آواز کو کبھی دبایا نہیں جا سکا۔ اُن کی سچائی آج بھی دنیا بھر میں انصاف، امن، اور انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اُنہیں مارنے والے مر گئے، مگر گاندھی جی کے اصول آج بھی زندہ ہیں، دلوں میں اور تاریخ کے صفحات پر۔
گاندھی جی کی سچائی، عدم تشدد اور انسانیت کا پیغام وقت اور نفرت دونوں کی سرحدوں سے بڑا تھا ۔ یہی اُن کی اصل طاقت اور ان کے مخالفین کی کمزوری تھی۔
گاندھی کی سچائی کا
" شور" صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، نیلسن منڈیلا، اور دیگر عالمی رہنماؤں نے بھی گاندھی کے اصولوں کو اپنے سیاسی و سماجی جدوجہد کا حصہ بنایا۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ گاندھی کی سچائی کو دبانے کی جو کوششیں کی گئیں، وہی دراصل اُس کی عالمی گونج کا باعث بنیں۔۔
تاریخ نے یہ ثابت کر دیا کہ سچائی کا "شور"وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے، مگر مٹایا نہیں جا سکتا۔
گاندھی کے خلاف سامراجی قوتوں کی تمام تدبیریں ناکام ہوئیں کیونکہ وہ جسموں کو تو قید کر سکتے تھے، مگر ضمیروں کو نہیں۔ گاندھی کی سچائی آج بھی عدل، امن، اور انسانیت کے نام پر جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔۔۔۔
یہ واقعہ ہمیں آج بھی یاد دلاتا ہے کہ نظریات کو گولیوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ گاندھی کا جسم مٹ گیا، مگر ان کا ’’شور‘‘ ان کی تعلیمات، ان کی عدم تشدد کی پکار آج بھی "گونج" رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:
گاندھی کی اپنی تحریر
 "The Story of My Experiments with Truth"
 (سچ کے ساتھ میرے تجربات)
 
مصنف: مہاتما گاندھی
"یہ گاندھی جی کی خودنوشت سوانح عمری ہے۔
اس میں انہوں نے بچپن سے لے کر 1921 تک اپنی زندگی، سچائی، اہنسا (عدم تشدد)، اور سادگی کے اصولوں پر روشنی ڈالی ہے۔
اردو یا ہندی میں بھی ترجمے دستیاب ہیں۔"


Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔