مذہب نہیں، خواتین کی حفاظت سب سے اہم؛ جگاؤں معاملے پر میڈیا، خواتین تنظیموں، سماجی اداروں اور پولیس کی خاموشی؟؟؟(عقیل خان بیاولی، جلگاؤں۔)

مذہب نہیں، خواتین کی حفاظت سب سے اہم؛ جگاؤں معاملے پر میڈیا، خواتین تنظیموں، سماجی اداروں اور پولیس کی خاموشی؟؟؟
(عقیل خان بیاولی، جلگاؤں۔)

جلگاؤں شہر پولیس اسٹیشن میں درج مقدمہ نمبر 351/2025 نے ایک بار پھر خواتین کے تحفظ اور عدالتی نظام پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس معاملے میں پولیس اہلکار نتین کملا کر سپکالے پر نہایت سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔اس ضمن میں متاثرہ کی شکایت کے مطابق۔مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا، شادی کا جھوٹا لالچ دینا،شادی شدہ ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنا۔اور ہوٹلوں میں لے جا کر جسمانی و ذہنی اذیت دینا۔ایف آئی آر درج کرانے کے لیے متاثرہ کو کئی ماہ تک در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں، اور آج بھی ملزم پولیس اہلکار قانون کی گرفت سے باہر ہے۔ یہ نہ صرف ایک خاتون کے آئینی حقوق پر حملہ ہے بلکہ انصاف کے نظام کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔میڈیا کا دوہرا رویہ؟؟
جب کسی ہندو لڑکی کے ساتھ مبینہ “لَو جہاد” کا معاملہ اٹھتا ہے تو مختلف تنظیمیں، نام نہاد رن رَاگِنی  جیسے گروپ اور اخبارات بڑے بڑے عنوانات کے ساتھ سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ لیکن یہی جرم جب ایک مسلم لڑکی کے ساتھ ہوا تو مقامی مراٹھی میڈیا کی خاموشی نے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
کیا خواتین کی سلامتی بھی مذہب دیکھ کر طے کی جائے گی؟ اس تعلق سے شہر کی سماجی تنظیم "ایکَتَا" سنگھٹنا نے  اہم مطالبات کۓ ہیں ۔1. ملزم پولیس اہلکار کی فوری گرفتاری اور معطلی۔2. بھارتیہ نیائے سنہِتا (BNS) کی دفعات 81، 82، 83، 87، 196، 198 اور 201 سمیت دیگر سخت دفعات کا نفاذ۔3. تحقیقات خواتین پولیس افسران کے سپرد کی جائیں۔4. متاثرہ کو مکمل تحفظ اور عدالتی سرپرستی فراہم کی جائے۔5. ایف آئی آر میں تاخیر اور ملزم کو بچانے کی کوشش کرنے والے ذمہ دار افسران پر سخت کارروائی کی جائے۔"ایکَتَا" سنگھٹنا کا مؤقف بیان کرتے ہوئے تنظیم کے کنوینر فاروق شیخ نے کہا:“اگر یہی جرم کسی مسلم نوجوان نے کیا ہوتا تو مبینہ ہندوتوادی تنظیمیں معاشرے میں آگ لگا دیتیں۔ لیکن ہم آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر انصاف کی جد وجہد کر رہے ہیں۔ ہمیں انصاف چاہیے، تشدد نہیں۔”
خواتین کی سلامتی سے متعلق قوانین کا مختصر تذکرہ ہندوستانی آئین اور مختلف قوانین خواتین کو خصوصی تحفظ فراہم کرتے ہیں:
آئینِ ہند کے آرٹیکل 14 اور 21: مساوات کا حق اور زندگی و شخصی آزادی کی ضمانت۔
آئی پی سی کی دفعہ 498A: شوہر یا سسرال والوں کی جانب سے ظلم و زیادتی کی صورت میں تحفظ۔
دفعہ 354: خواتین کی عزت و عصمت پامال کرنے والوں کے خلاف سخت سزا۔
دفعہ 375 اور 376: زنا بالجبر (ریپ) اور جنسی استحصال کے لیے کڑی سزا۔گھریلو تشدد ایکٹ 2005: گھریلو سطح پر خواتین کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنے کا قانون۔
جہیز مخالف قانون 1961: جہیز کے مطالبے اور اس بنیاد پر ظلم کی ممانعت۔
وشاکھا رہنما اصول اور 2013 کا جنسی ہراسانی ایکٹ: دفتروں اور کام کی جگہوں پر خواتین کو جنسی ہراسانی سے بچانے کے لیے واضح ضابطے۔
متاثرہ خاتون کے قانونی حقوق
قانون متاثرہ خواتین کو محض تحفظ ہی نہیں بلکہ مختلف عملی حقوق بھی فراہم کرتا ہے:
فاسٹ ٹریک عدالت میں مقدمہ چلانے کا حق تاکہ انصاف میں غیر ضروری تاخیر نہ ہو۔
ریاستی معاوضہ اسکیم کے تحت مالی مدد اور علاج کا حق۔پولیس سے خصوصی تحفظ اور ضرورت پڑنے پر تحفظاتی احکامات (Protection Orders) جاری کرنے کی سہولت۔ تحفظاتی مکانات (Shelter Homes) اور قانونی امداد تک مفت رسائی۔عدالت کی نگرانی میں گواہوں اور متاثرہ کی شناخت کی حفاظت کا حق۔
سماج اور قیادت کی ذمہ داری ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک لڑکی کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کی خواتین کی سلامتی اور آئینی انصاف کا سوال ہے۔ جلگاؤں کے سیاسی رہنما، سماجی خدمتگار، مذہبی ادارے، خواتین تنظیمیں اور میڈیا کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھائیں اور ایک مظلوم خاتون کو انصاف دلانے میں بھرپور کردار ادا کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔