زبان کی اہمیت۔۔ ازقلم : محمود الحسن مدراسی۔ (ملیشیا)
زبان کی اہمیت۔۔
ازقلم : محمود الحسن مدراسی۔ (ملیشیا)
اظہارِ معانی و مضمرات کے لیے بنیادی طور پر زبان و قلم کا سہارا لیا جاتا ہے، اور ان میں سے خاص طور پر زبان کی اہمیت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس قوم کے لیے جس نبی کو مبعوث فرمایا، وہ نبی اپنی قوم کی زبان سے بخوبی واقف تھا تاکہ وہ تبلیغِ اسلام کے پیغام کو مؤثر اور صحیح اسلوب میں پہنچا سکے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پیغامِ حق کی ترسیل میں دقت پیش آ سکتی تھی۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مقامی زبان کی افادیت نہایت اہم ہے، اور خصوصاً وارثینِ انبیاء کو چاہیے کہ وہ اس سے واقف رہیں۔ اگر کسی اجنبی مقام، ملک یا شہر میں جانا پڑے تو وہاں کی زبان سیکھنا ضروری ہے تاکہ بات صحیح انداز میں پہنچ سکے۔
زبان کا فہم، زبان کے استعمال سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ کوئی نئی زبان استعمال کرے گا، اتنا ہی وہ ذہن میں راسخ ہوتی چلی جائے گی۔ اس کے لیے اہلِ زبان کے ساتھ معاملہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ کے بقول: "لہجہ اہلِ زبان ہی سے سیکھا جا سکتا ہے، لغت سے یہ حاصل نہیں ہوتا۔" نئی زبان سیکھنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ صبح سے شام تک اسی میں غرق رہا جائے۔ ادائیگیِ الفاظ، تحریر، حتی کہ روزمرہ کے معمولات بھی اسی زبان میں ہوں۔ خوشی و غم، بیداری و نیند، گنتی اور دعائیں؛ ہر حال میں زبانِ مقصد ہی کو اختیار کرنا چاہیے۔ روزانہ کم از کم ایک نیا لفظ یا جملہ سیکھ کر اگلے دن اس کا استعمال کیا جائے۔
یہ فکر بالکل بے جا ہے کہ نئی زبان سیکھنے سے مادری زبان فراموش ہو جائے گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ زبان کی اہمیت اس سے بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ زبان گویا ایک شخصیت کی مانند ہے۔ جسے جتنی زبانیں آتی ہوں، گویا اس کے پاس اتنی ہی نئی شخصیات ہیں۔ وہ مختلف اہلِ زبان کے ساتھ براہِ راست تعلق قائم کر سکتا ہے۔
زبان سیکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے اشیاء کے نام سیکھے جائیں، پھر بنیادی الفاظ اور جملے۔ اس کے بعد لہجے کی مشق کی جائے اور مکالمات میں استعمال بڑھایا جائے۔ آخر کار اس زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے۔ یہی طریقہ کامیاب فہم اور بہتر اظہار کا ضامن ہے۔
Comments
Post a Comment