نوخیز قلم کا ر: خدیجہ رضوان شیخ(جماعت ششم) رہبر نازیہ کرجگی (دی پروگریسو اردو ہائی سکول) کہانی کا عنوان: گھڑی کا راز
گھڑی کا راز۔۔
ایک چھوٹے سے قصبے میں ہارون نام کا ایک بوڑھا گھڑی ساز رہتا تھا۔ اُس کی بنائی ہوئی گھڑیاں عام گھڑیوں جیسی نہیں ہوتیں۔ ہر شخص کے لیے وہ الگ چلتی تھیں۔ کسی کے لیے تیز، کسی کے لیے آہستہ، اور کبھی کبھی اچانک رک جاتیں۔ لوگ کہتے تھے یہ گھڑیاں وقت نہیں بلکہ زندگی کے فیصلے ناپتی ہیں۔
ایک شام ایک اجنبی عورت اُس کی دکان پر آئی۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ٹوٹا ہوا ریت گھڑیال (hourglass) تھا، مگر اُس میں ریت نہیں بلکہ ننھی ننھی روشنی کے ذرے بند تھے، جیسے جگنوؤں کی قید۔ عورت نے کہا:
“یہ میری ماں کا ہے… وہ کہتی تھی اس کے اندر وہ زندگی ہے جو ابھی جینی باقی ہے۔”
ہارون نے گھڑیال کو دیکھا اور چونک گیا، کیونکہ ایسی روشنی اُس نے صرف ایک جگہ دیکھی تھی – اپنی ہی گھڑی میں، جو برسوں سے خاموش کھڑی تھی اور کبھی چلتی ہی نہیں تھی۔
عورت نے دھیرے سے کہا:
“تم نے سب کے لیے وقت بنایا… مگر اپنے لیے کبھی نہیں۔ اگر اپنی گھڑی کو چلانا ہے تو اسے درست کرنا ہوگا۔”
ہارون نے کپکپاتے ہاتھوں سے شیشے کو جوڑا اور روشنی کے ذروں کو واپس قید کیا۔ جیسے ہی گھڑیال درست ہوا، اُس کی دکان کے کونے میں پڑی اُس کی پرانی گھڑی نے پہلی بار ٹِک ٹِک شروع کی۔
اُس لمحے عورت غائب ہوگئی۔ اور اگلی صبح قصبے میں ہارون بھی کہیں نظر نہ آیا۔
لیکن لوگ آج تک کہتے ہیں… اُس رات کے بعد اُن کی گھڑیاں اکثر ایک پل کے لیے رک جاتی ہیں، جیسے وہ ہارون کا آخری وقت اُن کے ساتھ بانٹ رہی ہوں۔
Comments
Post a Comment