محمدِ عربی ﷺ: معلمِ اعظم، محسنِ انسانیت۔(یومِ اساتذہ کے موقع پر نبوی ﷺ پیغام)بقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین (اکولہ،مہاراشٹر)
محمدِ عربی ﷺ: معلمِ اعظم، محسنِ انسانیت۔
(یومِ اساتذہ کے موقع پر نبوی ﷺ پیغام)
بقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین (اکولہ،مہاراشٹر)
اللہ عزوجل نے غارِ حرا میں جب وحی کا پہلا کلمہ "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" (پڑھیے اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا: سورۃ العلق1) نازل کیا، تو یہ محض ایک الہامی پیغام نہیں تھا بلکہ انسانیت کے سب سے بڑے معلم کی آمد کا واضح اعلان تھا۔ یہ وہ دور تھا جب یونانی فلسفہ منطقی موشگافیوں میں الجھ چکا تھا، رومی سلطنت قانون کے نام پر جبر قائم کیے ہوئے تھی، اور فارسی تہذیب طبقاتی تقسیم کا شکار تھی۔ ایسے میں دنیا کو ایک ایسے معلم کی ضرورت تھی جو محض نظریہ نہیں، بلکہ عمل پیش کرے؛ جو محض فلسفہ نہیں، بلکہ حکمت عطا کرے۔ قدرت کی کیسی عظیم حکمت ہے کہ آج جب پورے بھارت میں یومِ اساتذہ (Teachers' Day) منایا جا رہا ہے، تو یہ دن رحمت للعالمین، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد مبارک سے بھی ہم آہنگ ہے۔ گویا آج کا دن صرف اساتذہ کی تکریم کا نہیں بلکہ اُس عظیم ہستی کی یاد کا دن ہے، جس نے پوری انسانیت کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم و دانش کے اُجالے میں لا کھڑا کیا۔
رسول اکرم ﷺ نے خود اپنے منصب کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا" (میں صرف معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں:سنن ابن ماجہ، 229)۔ یہ اعلان صرف ایک دینی پیغام نہیں بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا تعلیمی منشور تھا۔ آپ ﷺ نے اس مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے علم کے حصول کو ہر فرد کی بنیادی ذمہ داری قرار دیا: "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ"(علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے:سنن ابن ماجہ،224)۔ تعلیم کی عالمگیری حیثیت اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش کا درس آپ ﷺ کی تعلیمات کا خاصہ رہا ہے۔
آپ ﷺ نے علم کی اہمیت کو محض نظریاتی سطح پر بیان نہیں کیا، بلکہ اسے عملی طور پر نافذ کر کے دکھایا۔ غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی، لیکن ان میں سے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، ان کی رہائی اس شرط پر عمل میں لائی گئی کہ وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں(الطبقات الکبریٰ)۔ تاریخِ عالم میں جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسا علم پرور سلوک اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب دیگر فاتحین (رومی و فارسی) قیدیوں کو یا تو قتل کر دیتے تھے یا ہمیشہ کے لیے غلام بنا لیتے۔ یہ فیصلہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ آپ ﷺ کے نزدیک انسانی ذہنوں کو جہالت کی قید سے آزاد کرانا، جسمانی قید سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ آپ ﷺ نے "اصحابِ صُفّہ" کی شکل میں دنیا کا پہلا باقاعدہ "رہائشی تعلیمی مرکز" قائم کیا، جو آج کی جدید یونیورسٹیوں کا مقدس پیش خیمہ تھا، لیکن اس کی انفرادیت یہ تھی کہ یہاں علم صرف اشرافیہ کے لیے نہیں، بلکہ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے عام تھا۔
آپ ﷺ کی تعلیم محض کتابی علم تک محدود نہ تھی، بلکہ آپ ﷺ کی اصل تعلیم گاہ آپ ﷺ کا اپنا کردار تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ" (میں اخلاق کے محاسن کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں: مؤطا امام مالک،1614)۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کے اخلاقِ عالیہ کا نقشہ ان جامع الفاظ میں کھینچا: "كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ" (آپ کا اخلاق چلتا پھرتا قرآن تھا : مسند احمد،24601) ۔
معاشی معاملات میں آپ ﷺ نے محنت اور دیانت داری کو بنیادی اصول قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ الْمُحْتَرِفَ" (اللہ تعالیٰ محنتی اور کاروباری مومن بندے کو پسند کرتا ہے: شعب الايمان،1181)۔ اور سچے، امانت دار تاجر کو قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہونے کی بشارت دی۔ آپ ﷺ نے خواتین کے حقوق کے بارے میں بھی واضح ہدایات دیں: "اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا" (عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت قبول کرو:صحيح مسلم،3644)۔ اور والدین کے احترام کا درس دیتے ہوئے ان کی خدمت کو جہاد پر بھی فوقیت دی۔ (سنن ابن ماجه، 2782)
ماحولیات اور پائیدار ترقی کے حوالے سے آپ ﷺ کی تعلیمات بھی رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ" (نہ خود نقصان اٹھاؤ اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچاؤ:ابن ماجہ،2340)۔ اور درخت لگانے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھاتا ہے تو وہ بھی اس شخص کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔ صحيح مسلم،3968)۔
"آپ ﷺ کے صحابہؓ اور بعد کے مسلم علماء نے انہی تعلیمات سے روشنی حاصل کی اور الجبرا، طب، فلکیات، کیمیا، فزکس اور جغرافیہ جیسے علوم میں ایسی بنیادیں ڈالیں جو آج کے جدید علوم کی اساس ہیں۔ الخوارزمی (ریاضی اور الجبرا کے بانی)، ابن سینا (طب کے عظیم ماہر)، جابر بن حیان (کیمیا کے بابا) اور ابن رشد (فلسفہ) جیسے علماء کی کاوشیں دراصل اسی عظیم فکری میراث کا ثمرہ تھیں۔ یورپ کا نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) انہی مسلم علماء کی تحقیقات سے متاثر ہوا جن کا سرچشمہ مدینہ منورہ اور بعد میں قرطبہ، بغداد اور قاہرہ کے علمی مراکز تھے۔ یہ محض ایک دعویٰ نہیں، بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا اعتراف متعدد غیر جانبدار یورپی مؤرخین نے بھی کیا ہے۔ جیسا کہ برطانوی مؤرخ رابرٹ بریفالٹ اپنی کتاب "The Making of Humanity" میں واضح طور پر لکھتے ہیں:
"جسے ہم سائنس کہتے ہیں، وہ یورپ میں تحقیق کی ایک نئی روح... اور نئے طریقوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی... یہ روح اور یہ طریقے یورپی دنیا میں عربوں نے متعارف کروائے تھے۔"
آج جب ہم یومِ اساتذہ اور میلاد النبی ﷺ کی خوشی منا رہے ہیں، تو یہ حقیقت ہمارے دلوں کو روشن کر دیتی ہے کہ دنیا کے تمام علوم و فنون، تہذیب و تمدن، اور انسانیت کا سچا شعور اُسی معلمِ اعظم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے پھوٹتا ہے۔ آپ ﷺ صرف ایک قوم یا ایک مذہب کے نبی نہیں بلکہ "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ" کے ابدی وعدے کے مصداق، تمام جہانوں کے لیے رحمتِ کاملہ بن کر آئے۔ آج دنیا کو صرف ماہرِ فن اساتذہ (Teachers) کی نہیں، بلکہ مربی (Mentors) کی ضرورت ہے جو علم کے ساتھ ساتھ کردار اور اخلاق بھی سکھائیں۔ نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس استاد اور مربی کا حسین امتزاج تھی۔ پس، آج کے اساتذہ کے لیے حقیقی پیغام یہ ہے کہ وہ بھی اپنے اندر نبوی کردار کی جھلک پیدا کریں اور اپنے شاگردوں کو محض معلومات کا ذخیرہ بنانے کے بجائے ایک اچھا انسان بنائیں۔ سلام ہو اس عظیم مربی، اس بے مثال معلم اور اس کامل راہنما ﷺ پر، جنہوں نے انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کا لازوال سفر سکھایا۔
Comments
Post a Comment