امیدوں کا سوداگر۔افسانہ نگار۔۔ مدثراحمدشیموگہ۔
امیدوں کا سوداگر۔
افسانہ نگار۔۔ مدثراحمدشیموگہ۔
شام کے دھوپ چھاؤں والے رنگوں میں مزار کے سامنے پھولوں کی خوشبو اور اگربتیوں کا دھواں فضا میں گھل رہا تھا۔ مزار کے باہر، پتھر کی چوڑی سیڑھیوں کے کنارے، حاجی صدیق اپنی چھوٹی سی دکان پر بیٹھا تھا۔ اس کی دکان کوئی دکان نہیں، بس ایک چارپائی تھی، جس پر پھولوں کی ٹوکریاں، سبز اور سرخ چادریں، اور اگربتیوں کے بنڈل سجے ہوئے تھے۔ حاجی صدیق، جو نہ حاجی تھا، نہ صدیق، بس لوگوں کی زبان پر یہ نام چڑھ گیا تھا، اپنی میلی ٹوپی کو ٹھیک کرتے ہوئے آنے جانے والوں پر نظر رکھتا تھا۔ اس کی آنکھیں، جو برسوں سے لوگوں کے چہروں کو پڑھتی آئی تھیں، ہر آنے والے کی امید، خوف، اور پریشانی کو فوراً بھانپ لیتی تھیں۔ "بیک وقت پانچ چادریں! بس یہی سبز والی، مزار پر چڑھائیں، بیک وقت مراد پوری!" وہ اپنی دھیمی مگر پرجوش آواز میں ایک عورت کو سمجھاتا، جو اپنے بیمار بچے کی صحت کے لیے دعا مانگنے آئی تھی۔ عورت نے کانپتے ہاتھوں سے پیسے گنے اور چادر لے لی، جیسے وہ چادر کوئی جادوئی پر ہو۔ حاجی صدیق نے پیسے جیب میں ڈالے اور اگلی گاہک کی طرف متوجہ ہو گیا۔ مزار کے سامنے ہر روز ایک میلہ سا لگتا تھا۔ کوئی بیک وقت اولاد مانگتا، کوئی نوکری، کوئی شادی کی بندھن، اور کوئی اپنے دشمن کے زوال کی دعا لے کر آتا۔ حاجی صدیق سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتا—نہ ترس، نہ ہمدردی، نہ مذاق۔ اس کے لیے یہ سب کاروبار تھا، اور کاروبار اچھا چل رہا تھا۔ ایک دن، غروب کے وقت، جب سورج کی آخری کرنیں مزار کے گنبد پر سونے کا رنگ بکھیر رہی تھیں، ایک لڑکی آئی۔ اس کی عمر شاید اٹھارہ بیس سال ہوگی۔ اس کے کپڑے سادہ مگر صاف تھے، اور چہرے پر ایک عجیب سی اداسی تھی، جیسے وہ کوئی بوجھ اٹھائے پھر رہی ہو۔ وہ حاجی صدیق کی دکان کے سامنے رکی، لیکن اس نے نہ پھول مانگے، نہ چادر، نہ اگربتی۔ بس خاموشی سے مزار کی طرف دیکھتی رہی۔ "بی بی، کیا چاہیے؟ پھول لو، گلاب تازہ ہیں۔ یا چادر؟ یہ سرخ والی بہت مقبول ہے، مراد پوری کرتی ہے!" حاجی صدیق نے اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ لڑکی نے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک سوال تھا، لیکن وہ بولی کچھ نہیں۔ پھر، جیسے ہمت جمع کر کے، وہ آہستہ سے بولی، "یہ سب خریدنے سے... واقعی مرادیں پوری ہوتی ہیں؟" حاجی صدیق ہنس پڑا، لیکن اس کی ہنسی میں کوئی گرمی نہ تھی۔ "بی بی، مرادیں دل سے مانگو تو پوری ہوتی ہیں۔ یہ پھول، چادر، اگربتی... یہ تو بس دل کو تسلی دینے کے لیے ہیں۔" لڑکی نے ایک لمحے کے لیے اسے گھورا، پھر مزار کی طرف دیکھتے ہوئے بولی، "میں نے اپنی ماں کے لیے دعا مانگی تھی۔ پچھلے سال، آپ سے پھول لیے تھے، چادر چڑھائی تھی، اگربتی جلائی تھی۔ لیکن ماں مر گئی۔" اس کی آواز میں کوئی شکایت نہ تھی، بس ایک خالی پن تھا۔ حاجی صدیق خاموش ہو گیا۔ اس کی زبان، جو ہر سوال کا جواب دینے میں ماہر تھی، اچانک لڑکھڑا گئی۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن لڑکی نے اپنا سوال دہرایا، "بولو، کیا یہ سب جھوٹ ہے؟" حاجی صدیق نے ایک گہری سانس لی۔ اس نے اپنی میلی ٹوپی اتاری اور ہاتھ سے پیشانی صاف کی۔ "بی بی، میں پھول بیچتا ہوں، چادر بیچتا ہوں، اگربتی بیچتا ہوں۔ مرادیں پوری کرنا میرا کام نہیں۔ وہ تو..." اس نے مزار کی طرف اشارہ کیا، "وہ اوپر والے کا کام ہے۔" لڑکی نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا، پھر سر جھکایا اور چلی گئی۔ حاجی صدیق اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی بےچینی اٹھی۔ برسوں سے وہ لوگوں کی امیدوں کو بیچتا آیا تھا، لیکن آج پہلی بار اسے لگا کہ شاید وہ صرف امید نہیں، بلکہ ایک دھوکہ بیچ رہا تھا۔ رات ہوئی، مزار کے گرد سناٹا چھا گیا۔ حاجی صدیق نے اپنی چارپائی سمیٹی، پھولوں کی ٹوکری اٹھائی، اور گھر کی طرف چل پڑا۔ لیکن اس رات، اس کے قدم کچھ بھاری تھے۔ مزار کے گنبد پر چاند کی روشنی چمک رہی تھی، اور فضا میں اگربتیوں کی خوشبو اب بھی باقی تھی۔ لیکن حاجی صدیق کے دل میں، پہلی بار، ایک سوال جاگ رہا تھا—جو اس نے کبھی خود سے نہیں پوچھا تھا۔`
ایسا سوال جس کا جواب وہ برسوں سے دوسروں کو دیتا آیا تھا—لیکن آج تک خود کو نہیں دیا تھا۔
وہ رُکا، مزار کی طرف دیکھا، اور آہستہ سے بڑبڑایا: "پھول… چادر… اگربتی… سب بک گئے۔ مگر میرا یقین؟ وہ کب ملے گا؟"
Comments
Post a Comment