گوگٹے جوگلے کر کالج ، رتناگری میں ’’ عصمت چغتائی کا افسانوی فن ‘‘ کی رسمِ اجراء۔
رتناگری : بقول مرحوم زبیر رضوی نئی سوچ اور نئے ذہن کے ناقد ڈاکٹر محمد دانش غنی کی تصنیف ’’عصمت چغتائی کا افسانوی فن ‘‘ کی تقریبِ رونمائی گوگٹے جوگلے کر کالج کے زیرِ اہتمام ڈاکٹر جے ایس کیلکر سمینار ہال میں انجام پذیر ہوئی ۔ اس پر شکوہ تقریب کی صدارت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ایم آر ساکھلکرنے فرمائی اور کتاب کا اجرا بزمِ امدادیہ کھیڈ کے صدر جناب اے آر ڈی خطیب کے دستِ مبارک سے عمل میں آیا ۔ مہمانان کی حیثیت سے جناب پرویز احمد ( پی آر او ، گرو نانک گروپس آف انسٹی ٹیوشن ، ناگپور ) اور پروفیسر بابر شریف ( شعبۂ پینٹنگ ، گورنمنٹ کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن ، ناگپور ) نے رونق بخشی ۔
کتاب کا اجراء کرتے ہوئے جناب اے آر ڈی خطیب نے کہا کہ محمد دانش غنی ایک نوجوان محقق اور نقاد ہیں جن کا مطالعہ اردو نظم و نثر میں عہد بہ عہد کی تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے رجحانات پر بہت گہرا ہے ۔ اس کے علاوہ ان میں ایک چیز جو قابلِ قدر ہیں وہ ان کا انہماک و استقلال ہے ۔ وہ نہ تو کسی بڑے کام سے گھبراتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عصمت چغتائی جیسی تیڑھی لکیر کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور ان کے افسانوی فن پر ایک بھر پور کتاب لکھ ڈالی ۔انھوں نے مزید کہا کہ محمد دانش غنی نے اس کتاب میں عصمت چغتائی کے فکر اور فن دونوں کا جائزہ لیا ہے ۔ مجھے یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ انھوں نے صرف عمومی باتیں کہنے کی بجائے ان کے کچھ چنندہ افسانوں کا تجزیہ بھی کیا ہے اور اس طرح عملی تنقید کے بھی قابلِ قدر نمونے پیش کیے ہیں ۔ انھوں نے جو محسوس کیا اور سمجھا اس کا بر ملا اظہار کر دیا ۔ یہ کتاب ایک لائقِ تحسین کو شش ہے جس کا مطالعہ عصمت چغتائی کی تفہیم کے سلسلے میں یقینا سود مند ہوگا۔میں اس کتاب کی اشاعت پر انھیں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
جناب پرویز احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر محمد دانش غنی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حلقۂ اردو ادب میں ایک شناسا کردار ہیں ۔ کتب بینی ان کا شغل اور تنقیدی بصیرت ان کا شغف ہے ۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی خامہ فرسائی کی ، اپنی بھر پور توجہ اور انہماک کا مظاہرہ کیا ۔ ان کے تبصرے اور مضامین متعدد اخبار و رسائل میں شایع ہوتے رہتے ہیں جنھیں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس شخص کی اپنی ایک رائے ہے اور یہ محض’’ ٹی آرپی ‘‘ بٹورنے کے لیے نہیں ہے بلکہ ان کے فن کا مظاہرہ ہے ۔ ’’عصمت چغتائی کا افسانوی فن ‘‘ بھی دانش غنی کے فن پاروں میں سے ایک ہے جس میں انھوں نے عصمت چغتائی کے فن کا جائزہ عرق ریزی سے لیا ان کے مختلف افسانوں کا تجزیہ پیش کیا ۔
پروفیسر بابر شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ دانش میرا دوست ہے اور جہاں تک اس کا سوال ہے اگر میں اس کے بارے میں بہت زیادہ صاف گوئی سے کام لوں گا تو دانش رسوا ہوجائے گا اور اگرچہ میں مبالغہ آرائی سے کام لیا تو آپ کہیں گے کہ میں دوستی نبھا رہا ہوں ۔ بہر حال دانش کے متعلق جب میں کسی سے بات کرتا ہوں تو ایک چیز کا احساس مجھے بڑی شدت سے ہوتا ہے کہ ایسے پودے جو تناور درخت کے سائے میں پرورش پاتے ہیں انھیں اپنی شناخت بنانے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے لیکن جب میں دانش کے متعلق سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ دانش کو لوگ عبدالرحیم نشترؔ سے الگ کرکے سوچنے لگے ہیں ۔ عبدالرحیم نشترؔ اس تناور درخت کی مانند ہیں جس کے سائے میں اپنے وجود کو منوانا بہت مشکل ہوتا ہے مگر اس کے باوجود دانش کی اپنی ایک شناخت ادبی حلقے میں قائم ہوئی جس کے لیے میں اسے مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر محمد دانش غنی کے بچپن کے دوست جناب عبید حارث ( ہیڈ آف دی ڈپارمنٹ پالی گان اسٹودیو ز ( ہالی ووڈ فلم انڈسٹی ، ٹوکیو) نے بھی ان پر ایک خاکہ نما مضمون پڑھا جسے سن کر محفل زعفران زار ہوگئی ۔
گوگٹے جوگلے کر کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پی پی کلکرنی نے صدارتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ڈاکٹر محمد دانش غنی کی نویںکتاب ’’ عصمت چغتائی کا افسانوی فن ‘‘ کی رونمائی ہورہی ہے ۔ اس کتاب کی اشاعت پر میں انھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر محمد دانش غنی میں بہت سی خوبیاں ہیں جن میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ڈرائیونگ بہت اچھی کرتے ہیں ۔ ڈرائیونگ ان کی ایک اہم ہابی ہے ۔ میں نے ان کے ساتھ کئی سفر کیے ہیں ۔ کسی مقام پر ٹھہرنا ان کے مزاج کے خلاف ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ یہاں بھی ٹھہرنے والے نہیں ہیں۔ مجھے کسی یونیورسٹی کا اشتہار دکھاکر وہ جب یہ کہتے ہیں کہ میں یہاں درخواست دینا چاہتا ہوں تو میں انھیں اقبال کا یہ مصرعہ سناتا ہوں ’’ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر ‘‘ تو وہ خاموش ہوجاتے ہیں ۔ انھیں عام سی نہیں مشکل راہیں پسند ہیں ۔ علاوہ ازیںپروفیسرمحمد اسرار ( شعبۂ اردو ،پوروال کالج ، کامٹی ضلع ناگپور ) اور محترمہ سید نکہت جبیں (صدر شعبۂ اردو ، معین الدین برہان حارث کالج آف آرٹس ، نالاسوپارہ ، ضلع پالگھر ) نے بھی کتاب اور صاحبِ کتاب پر اظہارِ خیال کیا ۔ اس موقع پر کالج کے مختلف شعبۂ کے اساتذہ اور طلبا و طالبات کے علاوہ کوکن اور بیرونِ کوکن سے آئے ہوئے ادب نواز حضرات شریک تھے ۔
Comments
Post a Comment