مدارس اور عصری تعلیم — لمحہ فکریہ۔ بقلم : عالمہ مبین پالیگار، بیلگام، کرناٹک۔


 مدارس اور عصری تعلیم — لمحہ فکریہ۔  
 بقلم : عالمہ مبین پالیگار، بیلگام، کرناٹک۔ 
          8904317986

آج کے دور میں ایک خطرناک رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مدارس کے باصلاحیت علماء اور حفاظ، دینی میدان میں خدمات انجام دینے کے بجائے دنیاوی پیشوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دینی خدمات کا مالی معاوضہ نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر، انجینئر، وکیل یا دیگر پیشوں میں بہتر آمدنی اور معاشی تحفظ موجود ہے۔
یہ رجحان وقتی طور پر فرد کے لیے فائدہ مند دکھائی دیتا ہے، مگر قوم کے لیے یہ ایک بڑا نقصان ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والی نسلوں کو ایسے علماء اور حفاظ کم ملیں گے جو خلوص، علم اور کردار کے ساتھ امت کی صحیح رہنمائی کر سکیں۔ جب معاشرہ علمِ دین کے ماہر اور مخلص رہنماؤں سے محروم ہو جائے گا تو گمراہی، بدعات اور فکری بگاڑ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
آج ہمارے معاشرے میں ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ اکثر علماء عصری تعلیم کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مساجد اور مکاتب میں انہیں اتنی تنخواہ نہیں دی جاتی جو ان کی اور ان کے اہل خانہ کی ضروریات پوری کر سکے۔ نتیجتاً علماء کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور گھریلو زندگی دباؤ اور تنگ دستی کا شکار ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے علماء عصری تعلیم حاصل کر کے ایسے میدانوں میں قدم رکھتے ہیں جہاں بہتر آمدنی حاصل کی جا سکے۔ ان کا مقصد صرف دنیاوی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے گھر والوں کو خوشحال زندگی دینا اور ذمہ داریوں کو پورا کرنا بھی ہوتا ہے۔
اصل میں، اگر علماء کو مناسب مالی سہولت اور معاشی تحفظ فراہم کیا جائے تو وہ پوری یکسوئی کے ساتھ دین کی خدمت کر سکتے ہیں، بغیر کسی دنیاوی فکر یا مادی دباؤ کے۔ اس لیے قوم کے ذمہ داران کو یہ سمجھنا چاہیے کہ علماء کی مالی ضروریات پوری کرنا محض ان کا حق نہیں بلکہ قوم اور دین کی بقا کے لیے ایک لازمی ضرورت ہے۔ جب علماء خوشحال ہوں گے، تب ہی وہ آنے والی نسلوں کو دین کی دولت زیادہ اخلاص اور توجہ سے منتقل کر سکیں گے۔
🔹 اس المیے سے بچنے کے لیے ضروری اقدامات
1. علماء اور دینی اداروں کی مالی کفالت — قوم کو اپنے علماء کو ایسا معاشی تحفظ دینا ہوگا کہ وہ دینی خدمات کو پیشہ وارانہ مجبوری کے بجائے عزت و وقار کے ساتھ انجام دے سکیں۔
2. عصری تعلیم کا متوازن استعمال — مدارس میں عصری علوم ضرور شامل ہوں، مگر اس کا مقصد دین سے فرار نہیں بلکہ دین کو جدید تقاضوں کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو۔
3. علماء کی صلاحیت میں اضافہ — علماء کو جدید مسائل، معاشرتی چیلنجز اور عصری فہم میں مہارت حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ امت کے مسائل کا مؤثر حل پیش کر سکیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم بطور امت اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔ اگر ہم نے اپنے علماء، حفاظ اور دینی اداروں کو مضبوط بنیاد فراہم نہ کی تو آنے والی نسلیں ایک ایسے خلا کا شکار ہوں گی جسے پُر کرنا بہت مشکل ہو گا۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ