حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہ کا مسجد ہاشم آمبورمیں خطاب۔

حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہ کا مسجد ہاشم آمبورمیں خطاب۔

حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بیجنوری دامت برکاتہم استاد حدیث دارالعلوم دیوبند و خلیفہ حضرت پیر ذوالفقار علی صاحب مدضلہ العالی کا خطاب مسجد ہاشم آمبورمیں ہوا حضرت نے فرمایا کہ آ آمبور کی آمد اور اس خطاب کےموقعہ کو آپ باعث سعادت سمجھتے ہیں اللہ رب العزت کا کسی سے بھی کوی بھی دین کا کام لے لینا باعث سعادت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غزوہ خیبر کے موقع پر فرمایا تھا اے علی( رضی اللہ عنہ) تمہاری وجہ سے اگر اللہ تعالی کسی ایک ادمی کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے 
مولانا نے فرمایا کہ 
   اللہ تعالی اپنے سارے بندوں کو نعمتیں دیتے ہیں بندوں سے یہ بات چھپی نہیں ہے یہ سمجھنے سمجھانے کا مسئلہ ہی نہیں ہے ساری کائنات اللہ تعالی کی رحمت کے نتیجے سے وجود میں ائی ہے اب اس دنیا میں جتنے بھی انسان اللہ نے بنانے ہیں وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سب کے پاس اللہ کی نعمتیں ہیں دنیا میں اللہ نے بھیجا ہے تو دنیا کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے جس کو جو نعمت چاہیے وہ اللہ تعالی دیتے ہیں جس میں کافر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے تجربےاور مشاھدے اور قران و حدیث کی روشنی سے یہ بات سمجھ میں اتی ہے کہ جو اللہ کے ماننے والے نہیں ہیں ان کواللہ زیادہ دیتے ہیں قران کریم میں یہ مضمون بہت عجیب لہجے میں بیان کیا گیا ہے اگر یہ اندیشہ نہ ہو کہ سب لوگ کافر ہو جایں گے تو ان کے گھروں کی چھتیں اور ان کے گھروں کے زینے جن پر وہ چڑھتے اور ان کے گھروں کے دروازے اور ان کے گھروں کے اندر مسہریاں' کرسیاں چاندی اور سونے کی ہم بنا دیتے لیکن ساتھ میں یہ فرما دیا یہ جو کچھ ہے یہ دنیا کی زندگی میں برتنے کا سامان ہے جو ذایل ہونے و الا ہے اخرت کی کامیابی متقیوں کے لیے ہے مولانا نے فرمایا کہ دنیا کی نعمتیں سب کے پاس ہیں اور قران کی ایت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والوں کو ا اللہ تعالی دنیا بالکل زیادہ دیتے ہیں ہمیں بھی گھر دیتے ہیں کھانا دیتے ہیں کپڑا دیتے ہیں عزت دیتے ہیں شہرت دیتے ہیں عہدہ اور منصب دیتے ہیں بہت کچھ دیتے ہیں اللہ تعالی سب ہی کو دیتے ہیں تو اپ مسلمان کے لیے خاص بات اس میں کیا ہے دنیا کی نعمتوں کے اعتبار سے کوئی خاص بات نہیں یہ معاملہ ہی الگ ہے اگر کوی آدمی متقی ہے نماز بھی پابندی سے پڑھتا ہے مگر اس کاروبار نہیں چلتا تو جان لینا چاہے ک نماز اور کاروبار کا ایسا کوی تعلق نہیں کاروبار ٹھیک کیا کرو کاروبار کے ٹھیک ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سچ بولو وعدہ پورا کرو مال اچھا دو وقت کی پابندی کرو اللہ کی حکمت ہے کہ وہ جس کو چاہیں دنیا دے دیتے ہیں کافروں کو بھی دیتے ہیں مسلمانوں کو بھی دیتے ہیں مسلمانوں کے پاس خاص چیز ہدایت وایمان یہ ہے وہ واحد و منفرد چیز جو ہمیں ملی ہے دنیا میں ہم لوگ کبھی دوسروں سے متاثر ہوجاتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ادمی محنت کر کے کھرب پتی ہو گیا اس کا شمار دنیا کے بہت بڑے مالدار وں میں ہوگیا تو ہمیں لگتا ہے کہ وہ بڑا کامیاب ادمی ہے دنیا میں کسی کو شہرت مل جاتی ہے کسی کو کوئی حکومت میں عہدہ مل جاتا لوگ اس کا دباؤ محسوس کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی کہتےہیں جو لوگ دنیا کی زندگی کی محنتوں میں سب کچھ اپنا لٹا دیتے ہیں اپنی زندگی خرچ کر دیتے ہیں وہ سب سے زیادہ خسارے میں ہیں ان کے کاموں کا نتیجہ صرف نقصان ہے وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں رائگاں ہو گئی گم ہو گئی جو لوگ ایمان والے نہیں ہیں وہ ہم سے زیادہ محنت کرتے ہیں اگر ہم اپنے حکمرانوں کا جائزہ لے تو پتہ چلے گا کہ ان کا سارا وقت کھانے پینے ارام کرنے اور وفودسے ملنے میں صرف ہوتا ہے مگر دوسرے حکمران اپنی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے دنیا میں اگے بڑھنے کے لیے 24 گھنٹے محنت کرتے ہیں ایک وزیراعظم نے بتایا تھا کہ وہ چار گھنٹے سوتے تھے19 گھنٹے کام کرتے تھے ایک گھنٹہ تفریح کرتے تھے ایک بہت بڑے صنعت کار نے بتایا تھا کہ جب وہ اپنا کارخانہ سیٹ کر رہے تھے تواس زمانے میں بار بار ایسا ہواکہ 72 گھنٹے مسلسل کام کیا کرتے تھے یعنی تین دن تین رات سوئے نہیں کئی مہینے ایسے گزارے کہ 24 گھنٹے میں دو گھنٹے سونا اور 22 گھنٹے کام کرنا ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ان کی ساری کوششیں دنیاوی زندگی میں گم ہو گئی اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کوی اچھا کام کر رہے ہیں ایسے لوگوں کی ساری صلاحتیں دنیا کے لیے ہوتی ہیں آخرت میں ان کا کوی حصہ نہیں ہوتا انسان کو چاھیے کہ وہ آخرت کے لیے کچھ کرلے مگر اللہ رب العزت نے اخرت کی کامیابی کے لیے ایمان کی شرط رکھی ہے ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کی کو ی وقعت نہیں مسلمانوں کے پاس اوروں سے جو ہٹ کر چیز ہے وہ ایمان ہے اس ایمان کا ایک دائرہ ہے اس دائرے میں رہ کر اگر مسلمان اپنے کام انجام دیتا ہے تو اس کا ایمان قابل اعتبار ہوتا ہےاس کا طریقہ بھی اللہ نے بتایا ک بندے اللہ سے صراط مستقیم مانگیں صراط مستقیم کی نشاندہی بھی اللہ نے فرما دی کہ سیدھا راستہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا اور ان لوگوں کا راستہ نہیں جو گمراہ ہو گئے قران مجید میں ان لوگوں کی بھی نشاندہی کر دی کہ جن پر اللہ کا انعام ہوا وہ لوگ انبیاء صدیقین اور شہداء ہیں اور یہاں انبیا کے بعد صحابہ کا ہی ذکر کیا گیا ہے ایمان کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہی ایمان نبیوں اور صحابہ جیسا ہو پہلے بھی اور ہمارے زمانے میں بھی یہی ہو رہا ہے کہ اس ہدایت کے راستے کو گڈمڈ کرنے کی کوشش ہوتی ہے یعنی چھپانے اور بگاڑنے کی کوشش ہوتی ہے سب سے پہلے ایسا بگاڑ پیدا کرنے کے لیے جو فرقہ بنا اس امت میں وہ شیعہ فر قہ ہے دوسرا فرقہ خوارج کا شیعہ خوارج سے زیادہ چالاک تھے انھوں نے صحابہ کی تو مخالفت کی اور اہل بیت اور نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم سے وفاداری کا اظھار کیا تاکہ انہیں اسلام میں گھس نے کا موقع ملے یہ کام اس وقت سے لے کر اج تک ہو رہا ہے اصل جو بات ہے یہ ہےکہ جو بھی ادمی صحابہ کے بارے میں بات کرے تو اپ سمجھ لیں کہ یہ امت کو ہدایت کے راستے سے ہٹانے کا پروگرام کرہا ہے ظاہر بات ہے کہ سارا دین جس میں قران بھی شامل ہے وہ ہمیں صحابہ کے ذریعے ملا ہے اور صحابہ کے بارے یہ کہا جائے کہ ان کا کوئی اعتبار نہیں ان میں منافق بھی ہیں ان میں فلاں بھی ہیں تو کیا اعتبار صحابہ کے متعلق رہ جاے گا تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں یہ بات طے کر دی گئی تھی کہ صحابہ کے بارے میں کوی بات نہیں کی جاے گی امام اعظم ابو حنیفہ امام مالک عبداللہ ابن مبارک امام احمد ابن حنبل امام شافعی سب کا موقف یہی رہا ہے حضرت دامت برکاتہم نے فرمایا کہ
اسکی بہترین مثال حضرت عبداللہ بن مبارک کا واقعہ ہے کہ ان سے پوچھا گیا تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ افضل ہیں یا حضرت عمربن عبد العزیزاصل میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو نشانہ بنانا تھا اپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے باقاعدہ جنگ کی تھی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا اوراس وقت ان کے گھوڑے کے اوپر دھول اورگرد و غبار لگا تووہ غبار بھی عمر ابن عبدالعزیز سے افضل ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کے بارے میں بات نہیں ہوگی عبداللہ ابن مبارک ہی نے یہ بھی کہا تھا کہ معاویہ کسوٹی ہیں کسی کو پہچاننے کی کسوٹی یہ ہے کہ ادمی صحابہ کو مانتا ہے یا نہیں اگر حضرت معاویہ کو مانتا ہےتو اس کا مطلب سارے صحابہ کو مانتا ہے اور اگر ان کی گستاخی کر رہا ہے تو پھر وہ سب کو لپیٹ لے گا ایک ادمی اج کل بیان کر رہا ہے اور وہ بہت قوت سے کہہ رہا ہے کہ صاحب یہ صحیح حدیثیں ہیں مولویوں نے چھپائی ہیں مولوی بدمعاش ہیں اور ایسے ہے اور ویسے ہیں مولانا نے فرمایا بہت گالیاں مل رہی ہیں مولویوں کو بھی سبحان اللہ ہم صحابہ کی عزت اور دفا ع کے لڑتے ہیں تو بھی مزہ ا جاے اچھا یہ ہے کہ ہم دین پر قربان ہوجایں کیا حیثیت ہے ہماری جان کی بھی وہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ سب صحیح حدیثیں ہیں یہ چھپائی گئی ہیں مولانا سلمان بجنوری صاحب نے وضاحت فرمائی اگر حضرات صحابہ کے بارے میں کسی صحیح حدیث میں بھی کوئی بات ہے کہ فلاں صحابی سے یہ غلطی ہوئی فلاں نے ایسا کیا فلاں نے ایسا کیا تو اہل سنت والجماعت کا شروع سے یہ متفق فیصلہ ہے اور عقیدہ ہے کہ ان کی غلطیاں پر بات کرنا جائز نہیں صحابہ انبیا کی طرح معصوم نہیں ہیں لہذا ان سے گناہ ہو سکتے ہیں مگر سارے صحابہ کے متعلق قرآن میں اعلان کر دیا گیا ہے اللہ ان سے راضی ہو گیا ہے لہذا اب ان کاتذکرہ کرنے کی کسی امتی کو اجازت نہیں اللہ نے انہی معا ف کر دیا ہے تم کون ہوتے ہو تمہاری حیثیت کیا ہے کہ تم ان کے بارے میں بات کرو حضرت اقدس تھانوی نے ایک مثال سے سمجھایا ہے کسی بادشاہ کے کچھ شہزادے ہیں ان شہزادوں میں اپس میں کچھ اختلاف ہو گیا تو وہاں کا جو بھنگی ہے صفائی کرنے والا وہ اگر اس اختلاف کے بارے میں بات کرے گا تو اس کے بارے میں کیا کہا جاے گاکہ بس اپنی حیثیت میں رہ لو تمہاری حیثیت کیا ہے کہ تم ان کے بارے میں بات کرو اور اس سے بڑی بات ہے ا گر حضرات صحابہ کے بارے میں ہم بات کریں اللہ نے اپنے کلام میں اعلان کر رکھا ہے اللہ ان سے راضی ہے تو اللہ راضی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ان سے ناراض ہونے والے ہم کون ہوتے ہیں ان کے بارے میں ادنی سی بدگمانی اپنے دل میں رکھنے والے ہماری حیثیت کیا ہے ہمارا تو ایمان خطرے میں پڑ جائے گا تو اس لیے بس یہ کہنا تھا کہ ہمارے پاس ساری دنیا کی نعمتوں میں جو اصل اور منفرد وہ چیز جو اوروں کے پاس نہیں ہے وہ ہے ہمارا ایمان جس کے معتبر ہونے کی ایک کسوٹی ہے وہ وہ ہے انبیاء کا طریقہ اور صحابہ کا طریقہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے اگر اس میں کوئی ادمی گڑبڑ کرے گا تواس کا ایمان ہی خطرے میں پڑ جائے گا تو اس لیے اپنے ایمان کی سلامتی اور حفاظت کے لیے اس صحیح راستے پر قائم رہنے کی کوشش کریں اور اللہ سے ہدایت مانگتے رہیں اللہ تعالی ہم کو ہدایت پر قائم رکھے اور اسی پر جینا مرنا نصیب فرمائے الحمدللہ رب العالمین

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ