چھوٹی مسجد امبور میں حضرت مولانا مفتی سید محمد معصوم ثاقب صاحب مدظلہم العالیہ کا بصیرت افروز بیان
تملناڈو: (فضل اللہ انتر جامی) مناظر اسلام عالم باکمال حضرت اقدس مولانا مفتی سید محمد معصوم ثاقب صاحب مدظلہ العالیہ جنرل سیکرٹری جمیعت علماء کل ہند و مہتمم مدرسہ دارالعلوم رائی چوٹی کا سیرت طیبہ اور وقف کی حفاظت کے عنوان پر ایک بصیرت افروز بیان ہوا ڈاکٹر فضل اللہ انتر جامی امبور تمل ناڈو کی رپورٹ کے مطابق ا ہلیان محلہ اور شہر ائمہ کرام علماء وفضلا کی ایک کثیر تعداد نے شرکت فرمائی حضرت نے فرمایا کہ دارالعلوم دیوبند کے قیام سے پہلے کئی مدارس دینی تعلیم ہندوستان میں فراہم کرتے رہے پھر دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد ہندوستان کی تعلیم کا نقشہ ایکسر بدل گیا اور مسلمانوں میں دینی سماجی اور سیاسی بیداری پیدا ہوی ہم ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتے جنوبی ہندوستان میں ام المدارس باقیات الصالحات کی خدمات اظہر من الشمس ہیں انگریزوں کے خلاف جب مجاہدین نے اواز اٹھائی تو بانی باقیات حضرت علامہ عبدالوہاب صاحب کی ذات گرامی کو انگریزوں نے مجاہدین کا رہنما گردانا اور انہی قید وبند کی صعوبتیں جھیلنا پڑی انگریز سپاہیوں نے مشاہدہ کیا کہ بانی باقیات جہاں کہیں موجود ہوتے ہیں جیل میں وہاں روشنی ہو جاتی ہے یہ دیکھ کر انگریز سپاہی حواس باختہ ہو گئے اور اپنے اقاؤں کو اس معاملے کی اطلاع دی چنانچہ انگریز گھبرا کر اپ کو جیل سے رہا کرنے پر مجبور ہو گئے اس زمانے میں کسی کو قتل کرنے کے لیے یہ بات کافی تھی کہ اس کے سر پر ٹوپی ہو اور چہرے پر داڑھی مقصد بیان یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑوں کا ٹوٹنا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ہمارے اسلاف شدید مظالم بہت پہلے جھیل چکے ہیں اس وقت باضابطہ طور پر نہ کوئی عدالت تھی نہ کوئی ایسا ادارہ قائم تھا جہاں ہم ہم اپنا مقدمہ درج کر کے انصاف پا سکتے تھے اس وقت بھی ہمارے بزرگوں کے قدم تزلزل کا شکار نہ ہوے اج جب کہ ہمیں بہت سے وسائل اور سہولتیں حاصل ہیں ظلم و تشدد وحالات سے ہمیں گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ہمیں چاہیے کہ ہم مثبت رویہ اور فکر اختیار کریں اور کبھی حالات سے متاثر ہو کر نا امید نہ ہوں ہندوستان میں مسلمانوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے یہ اللہ رب العزت کی بڑی نعمت ہے ہم اپنے نمائندوں کے ذریعے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے ہمارے حقوق کی بازیابی کی سہولت رکھتے ہیں سب سے بڑی بات ہندوستان کا ائین ہمارا محافظ ہے جو اس سیکولر ملک میں ہماری حوصلہ افزائی کا باعث ہے لہذا مسلمانوں کو ڈرنے اور گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے مگر مسلمانوں میں بیداری کی ضرورت ہے جس کا فقدان ہماری قوم میں ہے جمیعت علماء ہند مسلمانوں کی بہبودی اور ان کی ہر مرحلے میں
مدد کے لیے کمر بستہ رہتی ہے حالیہ دنوں میں جمیعت علمائے کل ہند کو ایک بہت بڑی کامیابی بفضل تعالی حاصل ہوئی ہے اج سے 19سال پہلے ممبئی لوکل ٹرین دھماکوں کے سلسلے میں جن معصوموں کو قید کر دیا گیا تھا جمیعت کے لگاتار مسا عی جمیلہ سے عدالت نے رہا کر دیا ہے مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم نے اس سلسلے میں خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ ان قیدیوں کو باعزت بری تو کر دیا گیا مگر ان کی قیمتی جوانیاں نظر قید و بند ہو گئی ہیں ان کی زندگیاں برباد ہو گئی جو 30 سال کی عمر میں قید کیے گئے تھے اب وہ عمر رسیدہ ہو گئے ہیں ان کے بچے جوان ہو گئے ہیں ان کی اس سابقہ زندگی کو لوٹائے گا کون! بہرحال جمعیت ان تمام مظلوموں کی ہمیشہ سے مدد کرتی رہی ہے اس طرح جمیعت کی جہتیں بے حد و بے کراں ہیں ہندوستان کے مختلف صوبوں میں بیک وقت مظلوموں کی بازیابی کے لیے جمعیت علمائے ہند سیکڑوں مقدمات لڑ رہی ہے لیکن جمعیت کا یہ موقف کبھی نہیں رہا ہے کہ اکثریت کو اقلیت سامنے کھڑا کر کے بسر پیکار کرنا نہیں چاہتے بلکہ ہمارے قائدین کا یہ نظریہ رہا ہے کہ ہمیشہ سب سے محبت اور پیار کا برتاؤ کیا جائے اس سے دیگر چند احباب نا لاں ہیں اور ہمیشہ حضرت ارشد مدنی صاحب کے خلاف باتیں کرتے نظر اتے ہیں میں ان تمام حضرات سے ہمیشہ اپیل کرتا ہوں کہ اپ اس پیرانہ سالی میں حضرت کا تعاون نہ فرمائیں کوئی بات نہیں مگر ان پر تنقید کر کے اس مرد اہن کی دل ازاری کرنے سے تو بچ جائیں یہ مرد مجاہد ہمہ وقت مسلمانوں کی بے وجہ قید و بند کی صعوبتوں کے خلاف ان کی جائیدادوں کہ ناجائز قبضوں کے خلاف اور انہیں تشدد پسند قرار دیے جانے کے خلاف فکر مند رہ کر عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مصروف عمل رہتا ہے قوم کی حالت زار اور اس کے سدھار کےلیے ایک طوفان اس کے سینے میں ہمیشہ تلا طم پذیر رہتا ہے ہم اس کی قدر و منزلت پہچانیں مولانا نے فرمایا کہ 1934 میں ہم نے انگریزوں کو مجبور کیا کہ اس ملک کے طول و عرض میں بسنے والے مسلم باشندوں کے لیے مسلم ایکٹ نامی قانون کو بنائے جو اگے چل کر وقف ایکٹ کہلایا 1956 میں اس کی توسیع ہوئی اور حج کمیٹی اردو اکیڈمی جیسے مسلم معاشرے کے مفاد کی کمیٹیاں وجود میں ائیں یتیم خانوں کا قیام عمل میں ایا جمیعت درگاہوں کے لیے وقف کردہ جائیدادوں پر ناجائز قبضے کے خلاف ہے اور ان ملکیتوں کو حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتی ہے خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کے ذریعے ہندوستان میں اسلام پھیلا ان کے درگاہ کے لنگر خانے میں 70 فیصد غیر مسلم احباب مستفیض ہوتے ہیں جبکہ 30 فیصد مسلم احباب ہی وہاں کے لنگر سے فیض پاتے ہیں یہی حال ہندوستان کی دیگر درگاہوں کا بھی ہے تمل ناڈو میں موجود ناگور کی درگاہ کا حال بھی مختلف نہیں ہے جمیعت العلماء ہند ووٹوں کی سوداگر نہیں ہے مگر اعلی حوصلے اور اونچے عزائم رکھنے والے افراد سازی کی فکر جمیعت کرتی ہے جہاں تک سیرت اور وقف کا تعلق ہے 1400 سال پہلے ہی اللہ کے رسول نے مسجد قبا کی تعمیر فرمائی تھی اور اسے وقف الی اللہ کر دیا تھا مسلمانوں کی ملکیتوں کی وقف کی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ایک لمبی فہرست ہے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وقف الی اللہ ہے ایک وقف ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی زندگی کا کوئی شعبہ سیرت طیبہ سے خالی نہیں ہے اللہ کے رسول کی زندگی اور اپ کی لائی ہوئی کتاب ہدایت ہی سے مسلمانوں کے سارے عقائد اعمال احکام لین دین کے معاملات مسلمانوں کی اجتماعی زندگی انفرادی زندگی ان کی عملی زندگی ان کا لین دین ان کا خرچ ان کی رشتہ داری غرض سارے امور کا دارومدار اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر منحصر ہے مولانا نے اس نکتے کی وضاحت فرمائی کہ ایک مرتبہ وقف شدہ ملکیت ہمیشہ وقف کہلائے گی اگر کسی زمین پر مسلمان دفن کیے جاتے ہیں تو وہ قبرستان کی زمین ہمیشہ کے لیے وقف ہی کہلائے گی اگرچہ کہ وہاں کسی غیر مسلم کا نام کندا کیا گیا ہو ٹھیک اسی طرح کسی شمشان گھاٹ میں مسلمان کا نام درج ہو تب بھی وہ ہمیشہ کے لیے شمشان گھاٹ ہی کہلائے گا جمیعت مجوزہ وقف ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں فاضل وکیلوں کے ذریعے انصاف کی جنگ لڑ رہی ہے امید قوی ہے کہ انشاءاللہ مسلمانوں کے حق میں فیصلہ ہوگا مفتی سید محمد معصوم ثاقب صاحب نے فرمایا اگر ہمارے حق میں فیصلہ نہ بھی ائے تو اس میں مایوسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ حکمرانوں کا بنایا ہوا قانون قران مجید کی طرح کوئی ابدی حیثیت نہیں رکھتا اج اگر یہ قانون ہمارے خلاف بن جاتا ہے تو کل اس کے بدل دیے جانے کے روشن امکانات بھی ہیں لہذا مسلمانوں کو کسی صورت میں دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں مولانا نے سماج کی ایک بڑی بیماری کی طرف سامعین کی توجہ مبذول فرمائی کہ امت کے نوجوان بیکاری اور بے روزگاری کا شکار ہیں اپ نے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات اس سلسلے میں سامعین کے گوش گزار فرمائے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں حضرت حلیمہ سعدیہ کی بکریاں چراتے تھے پھر اپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے پردہ فرمانے کے بعد مکہ والوں کی بکریاں اپ چرایا کرتے تھے تاکہ حضرت ابو طالب کی مدد کر سکیں پھر اپ نے حضرت خدیجۃ الکبری کا مال لے کر تجارتی سفر فرمایا اور پوری محنت لگن اور دیانت داری سے تجارت کی جس سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بہت فائدہ ہوا الغرض زندگی میں اپ نےکبھی کسی پر بوجھ بننا گوارا نہیں کیا اور نہ ہی اپ نے بیکاری کو اختیار فرمایا حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ نوجوان ہمیشہ مستعد اور مصروف رہیں حلال روزی کا کمانا باعث سعادت ہے نوجوانوں کی ہمت اور بلند حوصلگی سے قوم کی معاشی حالت میں خوش ائند تبدیلی ہو سکتی ہے موصوف نے فرمایا
``فکر ہرکس بقدر ہمت اوست"
ہر کسی کی فکر اس کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے " اپ نے بادشاہ محمود غزنوی کا واقعہ سامعین کے گوش گزار کیا کہ وہ کئی بار ہندوستان پر حملہ اور ہو کر کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکا بالاخر اس کی ملاقات وقت کے بڑے ولی اللہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی محمود غزنوی نے انہی سونے کے سکے تحفہ پر دیے اپ نے اس کو دو روٹیاں سوکھی عطا فرمائی جس کو بادشاہ کھانے سے عاجز رہا تو حضرت نے فرمایا کہ جس طرح یہ روٹیاں تیرے کام کی نہیں ہیں ٹھیک اسی طرح یہ سونے کے سکے میرے کسی کام کے نہیں ہیں اور اپ نے اس کے تحفے کو لوٹا دیا محمود غزنوی نے اپ سے دعا کی درخواست کی اپ نے اس کی اس کے لیے دعا بھی فرمائی اور ایک کپڑا بھی تبرکا اسے عنایت فرمایا چنانچہ جنگ کے دوران جب کامیابی کی بادشاہ کو کوئی امید نظر نہ ائی تو اس نے حضرت کے مرحمت کردہ کپڑے کو میدان میں بچھا کر اللہ رب العزت سے دعا کی پھر جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا اور محمد غزنوی کو کامیابی حاصل ہوئی واپسی پر وہ حضرت ابو الحسن قرخانی علیہ الرحمہ کے پاس پہنچا اور پوری کیفیت بیان فرما کر ان کا شکریہ ادا کیا حضرت نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیا دعا کی تھی محمود غزنوی نے کہا کہ وہ جنگ میں غلبے کی دعا کیا تھا حضرت نے فرمایا اللہ رب العزت سے تو نے بہت چھوٹی دعا مانگی ہے اگر تو سارے ہندوستانیوں کے مسلمان ہو جانے کی دعا کرتا تو ضرور ہندوستان کی کیفیت ہی بدل جاتی اللہ کے رسول کے زندگی میں بھی اس نوعیت کے کئی واقعات گزرے ہیں کہ صحابہ کرام نے بطور تبرک اپ سے کئی چیزیں حاصل کی ہیں مولانا نے فرمایا کہ امبور کے علماء کرام کی محنت کے نتیجے میں یہاں کا ماحول بہت اچھا ہے مساجد اباد ہیں اور اہلیان شہر دیندار ہیں اپ نے دعا فرمائی کہ اسی طرح اللہ سب کو خوشحال اور دیندار رکھے اور ہم ہمارے مستقبل سے متعلق پر امید اور مطمئن رہیں
Comments
Post a Comment