" دادی ماں کے نسخے"بھیونڈی اسٹیج پر کافی عرصے بعد "مجیب خان کا تحریر کردہ ڈراما" ایک عمدہ اردو ڈرامہ "دادی ماں کے نسخ” کھیلا گیا۔محمد حسین ساحل ممبئی کی رپورٹ۔
" دادی ماں کے نسخے"
بھیونڈی اسٹیج پر کافی عرصے بعد "مجیب خان کا تحریر کردہ ڈراما" ایک عمدہ اردو ڈرامہ "دادی ماں کے نسخ” کھیلا گیا۔
محمد حسین ساحل ممبئی کی رپورٹ۔
“دادی ماں کے نسخے” یہ وہ ڈرامہ ہے جو موجودہ سماج کی حالت زار کی ترجمانی کرتا ہے اور سماج کو آئینہ دکھانے کا کام بھی کرتا ہے۔یہ ڈرامہ لیمکا بک اور ورلڈ وائڈ بک کے ایوارڈ یافتہ مجیب خان نے تحریر کیا ہے۔ جس کے ہدایت کار عرفان برڈی ہیں۔
ایک مدت کے بعد مجیب خان کے قلم نے کچھ کہا جسے کئی سو لوگوں نے دیکھا اور جسکے چرچے ہر خاص و عام میں ہونے لگے۔ ناظرین نے دل کھول کر قہقہہ لگایا اور پھر کلائمکس پر دیکھنے والوں کی آنکھیں بھیگ بھی گئیں۔ ہنستے ہنساتے لوگوں کو رولا دینا یہ کسی ماہر فن کی ہی قلم کا نتیجہ ہو سکتا ہیں۔ یہ ڈرامہ طربیہ اور حزنیہ ڈراموں کی روایت کی بنیاد “کلاسکی ڈرامائی اصناف “ پر ہے۔ مصنفین یا تو طربیہ ڈرامے تحریر کرتے ہیں یا حزنیہ لیکن مجیب خان نے بڑی خوبصورتی اور چابکدستی سے ان دونوں اصناف کو اپنے ڈرامے میں شامل کر کے ایک نئے طرز کے ڈرامائی فن کا آغاز کر دیا ہے۔
اس ناٹک میں دادی ماں کا کردار یمونا نے ادا کیا ہے انکے بیٹے کے کردار میں مرلی نظر آئے، ان دونوں ہی فنکاروں کی مادری زبان تیلگو ہے۔ انکی اداکاری کو دیکھ اور انکے تلفظ کو سن کر یہی گمان ہوتا کے ان لوگوں کو جانے کس اردو پنڈت سے اردو کی تعلیم حاصل کی ہے جو اتنے سلیقے سے اردو بول رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے انکی زبان اردو کے لفظوں کو نہیں بول رہی ہے بلکہ ہر لفظ پھول بن کر انکی زبان سے جھڑ رہا ہے اردو کے درست تلفظ پر مجیب خان اور عرفان برڈی نے محنت کی ہے، دوسرے لفظوں میں ان دونوں نے صرف ڈرامہ کی تربیت نہیں دی بلکہ اردو زبان کو فروغ دینے کا بھی کام کیا ہے جسے کم لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ماڈرن بہو کا کردار کلثوم نے بہت ہی خوبصورتی سے نبھایا ہے۔پوتے کا کردار وسیع نے ادا کیا اور پوتی کا تحمین نے ۔ نوکر کے مزاحیہ کردار میں وینایک سنگھ نے روح پھونک دی۔ ڈرامہ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ دادی ماں قدیم خیالات کی خاتون ہیں جو اپنے بیٹے کے گھر کو اپنی اقدار اور تہذیب کے دائرے میں چلنا چاہتی ہیں لیکن گھر اپنی الگ روش پر چل رہا ہے جو انکے مزاج کے خلاف ہے۔ وہ گھر کے افراد کی صحت کا خیال رکھتی ہیں اور صبح صبح کڑوی دوائیوں کے نسخے گھر کے افراد کو زور زبردستی کرکے پلاتی ہیں۔ جس سے گھر کے افراد دادی ماں سے وقتی طور پر ناراض بھی ہوجاتے ہیں۔صبح نیند سے بیدار ہونے پر بچے گڈ مورننگ کہتے ہیں اس وقت بھی دادی ماں خفا ہوجاتی ہیں وہ چاہتی ہیں انکے گھر اچھے سنسکار پروان چڑھیں۔ وہ اپنے گھر میں ہندوستانی تہذیب چاہتی ہیں۔ دادی ماں گھر کے نوکر سے خوش ہیں یہاں تک کہ اپنی بہو پر بھروسہ نا کر کے نوکر پر اپنا اعتماد جتاتے ہوے جائداد کے دستاویز بھی اس ہی کے حوالے کر دیتی ہیں۔ ڈرامہ ہنسی مذاق اور قہقہوں کے ماحول کو گرماتے ہوے ایک ایسے مسئلہ کی جانب بڑھتا ہے جو آج کے دور کا سب سے بڑا زہر ہے جیسے “سوشیل میڈیا” کہتے ہیں۔ دادی ماں پرانے خیالات کی عورت شہر کی چالبازیاں کیا جانیں وہ دھیرے دھیرے گھر میں پھیلے سوشیل میڈیا کے جال میں الجھتی جاتی ہیں اور انسٹا گرام کے ایسے جھنجھٹ میں پھنستی ہے جو انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتا ہے۔ ماڈرن دور اور سوشیل میڈیا پر اس سے بہتر ڈرامہ ہو ہی نبی سکتا۔ ڈرامہ کی زبردست کہانی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے بیان کرنے سے اس کا مزہ جاتا رہے گا۔ دادی ماں ڈرامہ کے اختتام میں سماج کا ایسا چہرہ بن جاتا ہے جس کے تجربات سے مستفید بھی ہوا جاتا ہے اور جسکو اپنے مفاد کے لیے قربان بھی کیا جاتا ہے۔ ڈرامہ کا یہ کردار زندگی کا حاصل ہے جو مجیب خان کے زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑ بھی ہے۔ 45 منٹ کے اس ڈرامہ میں ایک صدی کے داستان کی منظر کشی کرنا صرف اور صرف مجیب خان کا طرہ امتياز ہے۔
اگر برناڈ شاہ یا شیکسپیر زندہ ہوتے تو وہ اس ڈرامہ کی خبر سن کر انگلینڈ سے انڈیا آکر مجیب خان کے ہاتھ اور قلم کو چوم لیتے۔
تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں (حفیظ جالندھری)
Comments
Post a Comment