ظلمت کدے پہ نور کی کرنوں کو ڈال دے ۔(گزشتہ سے پیوستہ)سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ (جو صحابہ کا نہیں وہ ہمارا نہیں )بقلم : محمد ناظم ملی تونڈاپوری
ظلمت کدے پہ نور کی کرنوں کو ڈال دے ۔
(گزشتہ سے پیوستہ)
سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ
(جو صحابہ کا نہیں وہ ہمارا نہیں )
بقلم : محمد ناظم ملی تونڈاپوری
کیا اپ نے حدیثوں میں نہیں پڑھا اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے " اول جيش من امتي يغزو البحر فقد اوجبوا"
فرمايا ميري امت کا وہ پہلا لشکر جو بحری جنگ لڑے گا اس پر جنت واجب کر دی گئی اہل علم حضرات فیصلہ فرمائیں گے کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے! محدثین اس پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ حدیث "حدیث صحیح "ہے اور مزید فیصلہ فرمائیں۔ کہ یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس مرد حق اگاہ اور کس جماعت حقہ کے مردان کار اور کس گروہ اور جرگہ و جماعت کے حق میں کہا جا رہا ہے ذرا تاریخ سے پوچھو کہ پہلا بحری بیڑا کس شخص نے بنایا ہے ؟حضرت صدیق اکبر کے دور میں نہیں! عمر فاروق کے عہدے سعید میں تاریخ پھر بھی خاموش! سیدنا عثمان ذیشان کے عہد مسعود میں تاریخ پھر بھی نفی میں جواب دیں گی نہیں ۔کیا شیر خدا علی مرتضی کے زمانے میں جواب پھر بھی نفی میں ہی ملیگا نہیں خلافت راشدہ بشمول حضرت حسن کے چھ مہینوں کے پوری اسلامی دنیا میں بحری بیڑا نہیں بنایا گیا اور ہاں! بنایا گیا تو وہ یہی اسلام کا مرد کامل مرد حق اگاہ پاک فطرت نیک سیرت مرد میداں سیدنا معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے دور میں بنایا گیا تھا اتنے صاف صاف اور کھلے قران وحدیث اور
[ ] تاریخ کے شواھد موجود ہونے کے باوجود کوئی طوطا چشمی کرے شپرہ چشمی کا ثبوت دیں تو سوائے اس کے کیا کہا جا سکتا ہے" بل اضله الله على علم". رافضیت اور شیعیت کے دلدل میں پھنسنے والے انسانو! معاویہ کی شخصیت میں کیڑے ٹٹولنے والو! معاویہ کی ذات کو نعوذ باللہ نفاق اور فرعونیت سے متہم کرنے والوں ذرا
[ ] اپنی انکھوں کو بینا تو کرو تم کو نظر ائے گا معاویہ جماعت صحابہ کا وہ چمکتا اور روشن ستارہ ہے جس نے چاروں خلفاء کے دور میں اسلامی لشکر کی کمان کامیاب طریقے سے سنبھالی ہے گلشن نبوی کا یہ ایسا گل سر سبد ہے جس کی سلطنت اور حکومت کی خوشبوؤں سے عالم اسلام دسیوں سال معطر ہوتا رہا 20 سال دمشق کا پائہ تخت بلا شرکت غیر اسلامی دنیا کا مرکز بنا رہا جس کا کامیاب حاکم اور حکمران یہی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اس طویل دور اقتدار میں اس نے اپنے کمال جوہر اور اپنے ہنر اور اپنی لیاقت و قابلیت abilityاور خداداد صلاحیت کے بوتے پر وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو اسلام کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے اور یہ سب حضور صاحب کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت فیض اثر کا ہی فیضان تھا یہی وہ دانا و بینا اسلام کا مرد کامل معاویہ تھا جس نے
[ ] اسلام کو
[ ] دمشق۔قلات قندھار قیقان مکران سمرقند بخارا سیستان اور ترمذ میں اسی طرح شمالی افریقہ جزیرہ روڈس سندھ اور جزائر اور کابل صقلیہ(sisley) سمیت مشرق و مغرب شمال و جنوب کے 22 لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقے تک اسلام کی روشن تعلیمات کو پہنچا دیا جب سبائیو ں اور منافقوں نے اسلام کے مرکز میں سیندھ لگائی اور مسلمان تشتت و افتراق کا شکار ہوئے جس کے ضمن میں جنگ جمل اور جنگ صفین کا دلدوز مرحلہ پیش ایا جس کے سبب شاہ روم فائدہ اٹھانا چاہ رہا تھا وہ معاویہ کو بہلا پھسلا کر اور بڑی ہمدردی جتا کر مسلمانوں یعنی حضرت علی کے لشکر پر حملہ اور ہونا چاہتا تھا حضرت معاویہ نے اپنے ایمانی نور سے اس کو بھانپ لیا اس کو سمجھ گئے کہ یہ ہمارے اختلاف سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو معاویہ نے اپنی بنی امیہ والی اسلامی مڑک بتائی اور اس کو دو ٹوک منہ توڑ جواب دیا۔فرمایا۔ او رومی گدھ! سن! اگر تو نے یہ سمجھ کر حضرت علی کے لشکر پر حملہ کیا تو خدا کی قسم یاد رکھ علی کے لشکر کا پہلا شخص معاویہ رہے گا جو تجھ سے جنگ کرے گا اور باوجود زمین کشادہ ہونے کے تجھ پر تنگ کردے گا یہ پیغام تھا تثلیث کے علم برداروں کو اس کے بعد تو اسکو جیسے
سانپ سونگھ گیا برق رعد اور بجلی جیسے اس پر گر پڑی اس کے قدموں کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی اور روباہی میں عافیت سمجھ کر اس نے فوراً صلح کا پیغام ارسال کیا
ع
تمدن افری خلاق ائین جہاں داری
وہ صحرا عرب یعنی شتربانوں کا گہوارہ
میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشین کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دارا جہاں بانو جہاں ارا
مورخین لکھتے ہیں کہ سیدنا حسن ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ حکومت سے دستبردار ہونے کے بعد ا66 عیسوی میں حضرت امیر معاویہ پورے عالم اسلام کے
بلا شرکت غیر خلیفہ تسلیم کر لیے گئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیدنا حسن نے سارے عالم اسلام کو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ایک منافق فاسق و فاجر نا اہل نا قابل اعتبار اور وقت کے فرعون کے ہاتھوں پر بیعت کر لیا؟اور کرا دیا کیا اس وقت صحابہ کرام موجود نہیں تھے ؟جن اصحاب نبی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حق بالمقابل کسی لومۃ لائم کی پرواہ کیے بغیر اظہار حق کیا کرتے تھے اور اس کے لیے ان کو چاہے جو قیمت چکانی ہو جان و مال و اولاد کی وہ اس کے لیے دریغ نہ کرتے کیا وہ سب کے سب گمراہ ہو چکے تھے؟ہائے محترم کی فہم قرانی و تدبر قرانی! صحابہ کے بارے میں تو اہل سنت والجماعت کا صاف صریح اور کھلا عقیدہ ہے۔ الصحابۃ کلھم عدول۔ ۔پھر امیر معاویہ تو جنہوں نے اسلام کی برسہا برس خدمات جلیلہ انجام دی سب سے پہلے اقامتی ہاسٹل hostel کی بنیاد معاویہ نے رکھی. بیت اللہ اور دیگر کئی قدیم مساجد کی ازسر نو تعمیر فرمائی. خط دیوانی ایجاد .کیا ڈاک اور عدلیہ کے نظام میں اصلاحات فرمائیں ۔فوجیوں کے لیے مستقل مستقر کوارٹرس quarters
کا انتظام کیا . امن عامہ اکے لیے محکمہ پولیس کو وسعت و ترقی دی جسے خلیفہ ثانی حضرت عمر نے قائم فرمایا تھا. دارالخلافہ دمشق اور دیگرصوبوں میں قومی و صوبائی اسمبلی assembly کے طرز پر مجالس شوریٰ قائم فرمائی مورخین لکھتے ہیں 50 چھوٹی بڑی جنگ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف لڑی ہیں اور خدا کی شان ایک میں بھی شکست نہیں کھائی معاویہ کو بدنام کرنا سبائیت اور رافضیت کا قدیم ایجنڈا ہے ان کا مشن ہی ابتدا سے یہ ہے کہ اس عظیم انسان کی کردار کشی کی جائیں اس انسان کی جس نے قران کی کتابت کی ہے ۔جب قران کی نورانی برکھا برس رہی تھی تو زبان فیض رسالت سے یہ کلمات جاری ہوتے تھے "اكتب يا معاويه هذه الايه"معاویہ یہ لکھیے کبھی فرط محبت میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا معاویہ کو سینے سے لگاتے اور فرماتے " اللهم فقھه في الدين"اللہ معاویہ کو دین میں فقاہت نصیب فرما . یہ مقام اور مرتبہ صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ہیے۔ اور اج کا مفکر محقق ساڑھے 14 سو سال سے چلے ا رہے اہل سنت والجماعت کے خلاف اپنا موقف لے کر کھڑا ہوتا ہے اور انجانے میں یا جان بوجھ کر خداجانے
رافضیت و شیعیت کی بولی بولنے لگتا ہے اور تحقیق کے نام پر گمراہی کا دروازہ کھولتا ہے گستاخ صحابہ کا مرتکب ہوتا ہے جبکہ صحابہ اسلام کے وہ بنیادی ستون ہیں جن سے دین و ایمان اور قران و حدیث کا علم دنیا کی چپے چپے میں پہنچا ہے اگر کوئی انہی کو مورد الزام ٹھہرا دے ۔کوئی انہی کو مخدوش قرار دے۔ تو پھر۔ کجا مانند مسلمانی! اسلام ہی خطرے میں پڑ جائے لہذا اہل سنت والجماعت کا یہ موقف رہا ہے کہ اگر صحابہ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو یا تو وہ کروائی گئی یا وہ اجتھادی غلطی تھی اور اجتہادی غلطی پر بھی ایک ثواب ملتا ہے یعنی مجتہد ہر دو صورت میں ثواب کا مستحق ہوتا ہے اگر درست سمجھا تو دو ثواب ملتے ہیں اور اگر درست نہیں سمجھا تو ایک ثواب سے تو وہ خالی نہیں ہوتا یہاں ہم عرض کریں گے کہ سیدنا معاویہ صحابی رسول ہے ان کو اپنی میزان میں تولنا یہ بہت بڑی بھول ہے چھوٹا منہ بڑی بات۔ اور ایک نازیبا حرکت اور ناقابل معافی جرم ہے۔ سیدنا معاویہ قرانی اصطلاح میں" حزب اللہ" کا ایک حصہ ہے جس کو قران مجید دوسری جگہ "خیر البری سے تعبیر کرتا ہے اور فرمایا جزاؤهم عند ربهم جنت عدن تجري من تحتها الانهار خالدين فيها ابدا رضي الله عنهم ورضوا عنه ذلک لمن خشی ربہ"
مانا کہ معاویہ ہماری طرح ایک انسان ہی تھے مگر جس فیکٹری میں ان کا ایمان صیقل ہوا ،اور جس بھٹی میں ان کا ایمان چمکا جس گہوارے میں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی وہ ہمہ و شما کو کہاں نصیب ۔تم وہ آنکھ کہاں سے لاؤ گے جس نے ساقی کوثر کے جمال جہاں ارا کا دیدار کیا ہو ، وہ دل کہاں سے لاؤ گے جو انفاس مسیحائی محمدی سے زندہ ہوئے تھے؟ وہ ہاتھ کہاں سے لاؤ گے جو ایک بار حضور شافع محشر کے ہاتھ سے مس ہوئے اور مرتے دم تک ان کی بوئےعنبری نہیں گئی, وہ دماغ کہاں سے لاؤ گے جو انوار مقدسہ سے منور ہوئے تھے وہ پاؤ کہاں سے لاؤ گے ؟جو معیت محمدی( حضور کے ساتھ چلنا )میں ابلہ پا ہوئے تھے وہ مجلس وہ محفل تم کہاں سے لاؤ گے ؟جس میں کونین کا سرور جلوہ افروز ہوتا تھا اور جہاں شمع نبوت کے پروانوں کا ہجوم ہوتا تھا دیکھو دیکھو !معاویہ تم کو وہیں کسی محفل رسول یا مجلس رسول میں ملیں گے معاویہ پر تبصرہ تنقید کرنے والو اپنے علم و عمل کا جائزہ لو عقل کا علاج کرو تم نے ایسی راہ کا انتخاب کیا ہے جو گمراہی اور سراسر گمراہی ہی ہے تم کچھ نہیں کر سکتے صرف امت میں انتشار وافتراق کے ۔معاویہ کو تیر بھدف کر کے تم نے اپنی ہی بدبختی کا سامان کر لیا ہے معاویہ صحابی رسول ہے اور ساری امت کے ایمان و اعمال مل کربھی معاویہ کے اس گھوڑے کے نتھنوں میں لگی اس گرد کے برابر نہیں ہو سکتے جس گھوڑے پر بیٹھ کر معاویہ حضور کے ہمراہ جہاد کرتے تھے وہ تو دنیا سے خدا و رسول کو راضی کر کے چلے گئے اور تم ان کو برا بھلا کہہ کر خدا وہ رسول خدا کو ناراض کر رہے ہو جاؤ تاریخ دمشق اور تاریخ ملک شام پڑھو !اپنے مولد و مسکن سے دور پیارے وطن مکہ اور بیت اللہ کو خیر اباد کر کے دیار غیر میں اسلام کی خدمات جلیلہ کا فریضہ انجام دیتے ہوئے وہ اپنی جان جان افرین کے سپرد کر کے چلے گئے انا للہ وانا الیہ راجعون ع
خدا انکی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گل کی نگہبانی کرے
Comments
Post a Comment