کیا قربانی کا بدل تعلیم و صدقہ ہوسکتا ہے?ایک شرعی ،فکری اور معاشرتی جائزہ؟ازقلم : ابرارالحق مظہر حسناتی۔


کیا قربانی کا بدل تعلیم و صدقہ ہوسکتا ہے?ایک شرعی ،فکری اور معاشرتی جائزہ؟
ازقلم : ابرارالحق مظہر حسناتی۔ 

جب انسان عبادت کے مقام و مرتبہ پر غور کرتا ہے تو اسے دو چیزیں واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں: ایک اس کا فہم و عقل، اور دوسری اس کا تسلیم و اطاعت۔ عقل کے ذریعہ وہ اللہ کی پہچان کرتا ہے، اور اطاعت کے ذریعہ اس کی بندگی بجا لاتا ہے۔ مگر بعض اوقات یہی عقل، اگر خالص نبوی منہج سے جدا ہو جائے تو عبادت کو مفادات کے ترازو میں تولنا شروع کر دیتی ہے، اور یہی سے وہ فکری لغزش جنم لیتی ہے جو انسان کو عبادت کی اصل روح سے ہٹا کر نفع رسانی، سوشل امپیکٹ، یا جذباتی افادیت کی طرف لے جاتی ہے۔
آج کے اس دور میں جہاں عقل و فلسفہ کو ہر چیز پر غالب سمجھا جاتا ہے، نوجوانوں کی ایک ایسی نسل ابھر رہی ہے جو دین کی تسلیماتی اور توقیفی فطرت کو سمجھنے کے بجائے ہر عمل کا ایک ’’سوشل یوٹیلٹی ویلیو‘‘ جاننا چاہتی ہے۔ انہیں یہ بات بے کار لگتی ہے کہ کسی جانور کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جائے، جب کہ اس رقم سے کسی بچے کی تعلیم، کسی مریض کا علاج، یا کسی اسکول کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں: ’’ہم قربانی کے بجائے پیسے سے فلاحی کام کریں گے، کیونکہ اللہ کو تو نیت چاہیے، گوشت یا خون نہیں۔‘‘
یہیں سے وہ فکر جنم لیتی ہے جو بظاہر اصلاحی، فلاحی اور دینی جذبے سے بھرپور نظر آتی ہے، مگر درحقیقت وہ دینی فکر کی جڑوں کو ہلا دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سنتیں ترک ہونے لگتی ہیں، عبادات کے معانی بدلنے لگتے ہیں، اور دین عمل کے بجائے احساس کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ وہیں سے جنم لینے والی سوچ ہے جس نے کبھی کہا کہ ’’نماز کی بجائے خدمت کرنی چاہیے،‘‘ یا ’’حج کے پیسوں سے کسی غریب کو گھر دلانا زیادہ افضل ہے،‘‘ یا ’’رمضان کے روزے کے بجائے بھوکے کو روٹی کھلا دینا زیادہ بہتر ہے۔‘‘ اور اب اسی کی ایک نئی شکل ہے: ’’قربانی کے بجائے تعلیم، علاج یا سماجی بہبود۔‘‘
اس سوچ کے پیچھے نہ صرف ایک تحریف شدہ دین فہمی چھپی ہے بلکہ اس میں ایک خطرناک مغالطہ بھی پنہاں ہے — کہ جیسے عبادات کا مقصد صرف سماجی فائدہ ہو، اور جس چیز میں زیادہ دنیوی فائدہ ہو، وہی اللہ کو بھی پسند ہو۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے: عبادات کا اصل مقصد اللہ کی اطاعت، تقرب، اور عبدیت ہے، نہ کہ انسانی نفع۔
قربانی ایک ایسی عبادت ہے جو دین اسلام میں محض تہوار نہیں بلکہ تسلیم و رضا کی وہ روشن مثال ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند اسماعیل علیہ السلام کی قربانی میں نمایاں ہوئی۔ اللہ کے ایک حکم پر، بغیر کسی مفاد، بغیر کسی دنیاوی غرض کے، ایک باپ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس عمل میں نہ سوشل امپیکٹ تھا، نہ دنیاوی فائدہ، نہ تعلیمی بہتری، نہ غریبی کا خاتمہ — صرف ایک چیز تھی: ’’اللہ کا حکم‘‘۔ اور یہی وہ روح ہے جس نے اس عمل کو قیامت تک کے لیے عین عبادت بنا دیا۔
اب اگر کوئی شخص کہے کہ ’’جانور کی قربانی کی بجائے کسی غریب کی تعلیم، یا کسی بے سہارا بچے کا سہارا دینا زیادہ بہتر ہے،‘‘ تو وہ گویا اس پوری قربانی کے مفہوم، اس کے جذبے، اس کے پیغام، اور اس کی روح کو مٹا رہا ہے۔ وہ گویا یہ کہہ رہا ہے کہ ’’ابراہیم علیہ السلام کو چاہیے تھا کہ وہ بیٹے کو ذبح کرنے کے بجائے کوئی درس گاہ قائم کرتے، یا کوئی یتیم خانہ چلاتے۔‘‘ معاذ اللہ، یہ سوچ نہ صرف گمراہی ہے، بلکہ دین کے بنیادی تصورات سے انحراف ہے۔
اسلام میں ہر عبادت کا ایک وقت، ایک طریقہ، اور ایک اسلوب ہے۔ نماز کا وقت مقرر ہے، روزے کے اصول مقرر ہیں، حج کے افعال مخصوص ہیں، اور قربانی کی شرائط اور ایام مقرر ہیں۔ ان میں تبدیلی کرنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔ اگر کوئی شخص کہے کہ ’’میں نماز کی جگہ تسبیح پڑھ لیتا ہوں،‘‘ یا ’’روزہ نہ رکھ کر بھوکوں کو کھانا کھلا دیتا ہوں،‘‘ تو شریعت اس کو قبول نہیں کرتی، چاہے نیت کتنی ہی خالص ہو۔ کیونکہ نیت کی قبولیت صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ شریعت کے دائرے میں ہو، اس کے اصول کے مطابق ہو، اور نبی کریم ﷺ کے طریقے پر ہو۔
اسی طرح قربانی کا عمل، چاہے وہ سنت مؤکدہ ہو یا بعض مذاہب کے نزدیک واجب، وہ شریعت کی حدود میں آتا ہے، اور اسے بدل کر کسی دوسری نیکی سے تبدیل کرنا نہ صرف تحریف فی الدین ہے بلکہ ایک ایسا فکری انحراف ہے جو آگے چل کر بہت سی سنتوں، اور عبادات کو مٹا کر دین کو ایک بے بنیاد ’’خدمت خلق‘‘ کے فریم میں قید کر دیتا ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ قربانی کرنے والا اگر کسی دوسرے وقت تعلیم یا صحت پر خرچ کرے، تو یہ عظیم صدقہ ہے۔ مگر قربانی کے مخصوص دنوں میں مخصوص طریقے سے جانور ذبح کرنا ایک عبادت ہے، اور اس عبادت کو کسی دوسری نیکی سے تبدیل کرنا دینی تحریف کے سوا کچھ نہیں۔
قربانی محض گوشت تقسیم کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک قلبی تسلیم ہے کہ ’’میں اللہ کے حکم پر اپنی قیمتی چیز قربان کر رہا ہوں،‘‘ چاہے مجھے اس کا دنیوی فائدہ نہ ہو۔ اس عمل میں جو روح پوشیدہ ہے، وہی روح بندگی ہے، وہی اصل عبادت ہے، اور وہی اللہ کو مطلوب ہے۔
مگر آج کا انسان جب ہر عمل کو "یوٹیلٹی" کے پیمانے پر ناپتا ہے، تو قربانی جیسے شعائر بھی اس کی نظر میں بے معنی ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: ’’کیا فائدہ ایک جانور ذبح کرنے کا؟ اس پیسے سے اسکول بنا لو، علاج کرا دو، کسی کو قرض دے دو۔‘‘ یہ سوچ بظاہر بہت بلند نظر آتی ہے، مگر اس کے پیچھے دین سے بغاوت چھپی ہوتی ہے — کیونکہ وہ اللہ کے حکم کو بندے کے نفع سے کم تر سمجھتا ہے۔
یہ سوچ جب معاشرے میں عام ہوتی ہے تو لوگ عبادات کی روح سے خالی ہو جاتے ہیں۔ سنتیں محض روایتیں بن جاتی ہیں، اور شریعت کا ڈھانچہ خدمت خلق کی ایک بے روح این جی او میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
اسی لیے اس وقت لازم ہے کہ ہم ان فتنہ خیز افکار کا علمی، دینی، اور فکری سطح پر محاسبہ کریں۔ ہم یہ واضح کریں کہ قربانی کی عبادت کو کسی نیکی سے بدلنے کا تصور نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ دین کی بنیادی فکر کے خلاف ہے۔ ہم یہ بتائیں کہ عبادات صرف نفع رسانی کے لیے نہیں، بلکہ محض اطاعت کے لیے ہوتی ہیں۔
بالا مذکورہ میں ہم نے اس فکری انحراف کی جڑوں کو کھودا جو "قربانی کے بجائے تعلیم یا صدقہ" جیسے دلائل کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ اب ہم اس تمہید کی روشنی میں ان دلائل کا تحقیقی، شرعی، اور فکری جائزہ پیش کریں گے، ہم ہر دلیل کو سنجیدگی سے پرکھیں گے، اور اس کا جواب اہل سنت والجماعت کی روشنی میں دیں گے، نہ کہ محض جذباتی یا سطحی انداز میں۔
جب فکری انحراف کی شکل میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ "کیا قربانی کے بجائے کسی اور بہتر کام میں رقم صرف کرنا زیادہ عقل مندی نہیں؟" تو یہاں دراصل ایک ایسا معیار اپنایا جا رہا ہے جو شریعت کا نہیں بلکہ انسانی سوچ کا ترازو ہے۔ اسی لیے اب ہم اس سوال کے پیچھے موجود دلائل کا سنجیدہ جائزہ لیں گے، اور ہر دلیل کو اس کے مزعومہ عقلی اور دینی وزن کے ساتھ پرکھیں گے۔
* پہلا مغالطہ: "تعلیم، صحت اور فلاحی کاموں کا فائدہ زیادہ ہے"
یہ دلیل بظاہر بہت مدلل نظر آتی ہے کہ قربانی کے جانور پر ہزاروں روپے خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ وہی پیسہ کسی بچے کی تعلیم، کسی مریض کے علاج یا کسی غریب کے گھر کی تعمیر پر لگایا جائے۔ مگر یہ بات صرف اس وقت درست ہو سکتی ہے جب دین کا مقصد صرف دنیاوی فائدہ ہو۔
حالانکہ دین اسلام کا تصور عبادت نفع رسانی نہیں بلکہ اطاعت پر مبنی ہے۔ اگر نفع ہی کا پیمانہ ہوتا تو فجر کی نماز میں نیند قربان کرنا یا رمضان میں روزہ رکھ کر بھوک سہنا غیر منطقی ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادات کی بنیاد توقیف (یعنی محض اللہ کے حکم کی پیروی) ہے نہ کہ مفاد۔
* دوسرا مغالطہ: "نیت اصل ہے، عمل ثانوی"
بعض لوگ قرآن کی اس آیت کا سہارا لیتے ہیں:
> ﴿لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ﴾ (الحج: 37)
کہ اللہ کو نہ گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ تمہارا تقویٰ۔ لہٰذا اگر نیت خالص ہو تو جانور کے ذبح کی ضرورت نہیں، کوئی اور اچھا کام بھی کیا جا سکتا ہے۔
مگر یہ آیت دراصل قربانی کی روح کو بیان کر رہی ہے، نہ کہ اسے ختم کر رہی ہے۔ اس میں بتایا جا رہا ہے کہ قربانی میں اصل مقصود ظاہری چیزیں نہیں بلکہ دل کی کیفیت ہے، لیکن یہ کیفیت اسی وقت معتبر ہوگی جب عمل شریعت کے مطابق ہو۔
اگر نیت ہی سب کچھ ہوتی تو نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، سب محض نیت سے کافی ہوتے، مگر ایسا نہیں ہے۔
* تیسرا مغالطہ: "جانور ذبح کرنا ظلم ہے"
یہ دلیل ایک مغربی ماحولیاتی یا vegan فلسفے سے متاثر ہے، جس کا تصور یہ ہے کہ جانور کو ذبح کرنا ظلم اور تشدد ہے۔ مگر اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ:
> "وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ" (النحل: 5)
اللہ نے جانوروں کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے۔ اگر جانور کو ذبح کرنا ظلم ہوتا تو اللہ کبھی اسے عبادت قرار نہ دیتا۔ قربانی میں جانور کو نہایت نرم روی اور رحمت کے ساتھ ذبح کیا جاتا ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اس میں اعلیٰ ترین اخلاقی تعلیمات دی ہیں۔
* چوتھا مغالطہ: "دل صاف ہو، قربانی کی ضرورت نہیں"
یہ ایک عام جملہ ہے کہ "اللہ دلوں کو دیکھتا ہے، اعمال کی کیا ضرورت؟" یہ جملہ ایمان کے بجائے تصوفِ باطل یا دینِ جذبات سے ماخوذ ہے۔
اسلام صرف دل کی صفائی کا مذہب نہیں، بلکہ ایمان اور عمل دونوں کو لازم قرار دیتا ہے:
> "وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ" (النساء: 125)
اگر دل کی صفائی بغیر عمل کے کافی ہوتی، تو نبی کریم ﷺ پانچ وقت نماز پڑھنے، روزے رکھنے، حج کرنے، یا قربانی کرنے کا حکم نہ دیتے۔
 فقہائے اربعہ اور اہل سنت والجماعت کا متفقہ موقف فیصلہ قربانی کے بارے میں بالکل واضح ہے: جیسے ائمہ اربعہ فرماتے ہیں
● فقہ حنفیہ:
قربانی صاحب استطاعت پر واجب ہے۔ اگر وہ قربانی کے دنوں میں جانور ذبح نہ کرے بلکہ اس کی قیمت صدقہ کر دے، تو واجب ادا نہ ہوگا۔
● فقہ شافعیہ:
سنت مؤکدہ ہے، لیکن بلا وجہ اس کا ترک مذموم ہے۔ اگر صدقہ دینا افضل ہوتا تو نبی ﷺ اور صحابہ کرام کبھی قربانی نہ کرتے۔
● فقہ مالکیہ:
سنت مؤکدہ ہے، مگر اس کو ترک کرنا سنت کے استخفاف میں داخل ہے۔ اس کا بدل تلاش کرنا دین میں بدعت ہے۔
● فقہ حنبلیہ:
قربانی ترک کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ امام احمد بن حنبل کے نزدیک قربانی کو دوسری نیکی سے بدلنا تحریف دین ہے۔
اہل علم کی صریح تصریحات ہمیں بتاتی ہیں جیسے کہ
● امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:
> "قربانی میں اصل اللہ کی اطاعت ہے، گوشت یا نفع کا پہلو مقصود نہیں۔ جو شخص اسے افادیت سے بدلنا چاہے وہ دین کا فہم ہی گم کر بیٹھا۔"
● امام نووی رحمہ اللہ:
> "اگر کوئی سمجھے کہ صدقہ قربانی سے افضل ہے تو یہ سوچ توقیفی عبادات کے اصولوں سے انحراف ہے۔"
● امام شاطبی رحمہ اللہ (الاعتصام):
> "بدعت وہی ہے جو دین کی مقرر کردہ صورت کو کسی عقلی مفاد کے لیے بدل دے، خواہ نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔"
اب دیکھتے ہیں کہ قربانی کی چھپی ہوئی حکمتیں کیا ہیں۔
(1)تسلیم و رضا: یہ عمل اس واقعے کی یاد ہے جہاں سیدنا ابراہیمؑ نے خواب میں اللہ کا حکم سنا اور فوراً تسلیم کیا — عقل سے نہیں، ایمان سے فیصلہ کیا۔
(2)اطاعت خالص: یہ وہ عبادت ہے جہاں مال، جان، جذبہ، اور عقل سب کو اللہ کے حکم کے سامنے سرنگوں کرنا ہوتا ہے۔
(3)اجتماعی شعور: قربانی صرف فرد کا عمل نہیں، بلکہ اجتماعی اتحاد، یگانگت، اور شعائر اسلام کی عظمت کا مظاہرہ ہے۔
(4)تقویٰ کا حصول: یہ عمل انسان کو دنیاوی منطق سے نکال کر تقویٰ، اخلاص، اور عبدیت کی طرف لے جاتا ہے۔
(5)سنت نبوی ﷺ کا تسلسل: نبی کریم ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں قربانی کا عمل جاری رکھا، اور اسے سیدنا ابراہیمؑ کی سنت قرار دیا۔
بہر کیف آج کی دنیا میں جب عقل کو وحی پر مقدم کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، تو ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ دین کی اصل اطاعت میں ہے، نہ کہ افادیت میں۔ عبادات کا مقصد دنیا سنوارنا نہیں بلکہ آخرت سنوارنا ہے۔
اگر ہم عبادات کو مفاد کے پیمانے پر ناپنے لگے، تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ — سب اپنی روح کھو بیٹھیں گے۔ شریعت کا ہر حکم ایک توقیفی حقیقت ہے، جسے نبی کریم ﷺ نے جیسے کیا، ویسے ہی کرنا بندگی کا اصل تقاضا ہے۔
قربانی صرف گوشت کاٹنے کا عمل نہیں، بلکہ ایک روحانی معرکہ ہے — جہاں بندہ اپنی عقل، نفع، اور خواہش کو اللہ کے حکم کے آگے قربان کرتا ہے۔ یہ عبدیت کی وہ معراج ہے جسے کسی فلاحی خدمت سے بدلا نہیں جا سکتا۔
اسی لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم قربانی کی سنت کو شعائر اسلام کی حیثیت سے زندہ رکھیں، اور ہر اس فکری انحراف کا علمی اور دینی سطح پر رد کریں جو اس شعیرۂ عظیم کو معاشرتی خدمت میں ضم کر کے بے روح بنا دینا چاہتا ہے۔
اللہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ، توقیرِ سنت، اور شعائرِ اسلام سے محبت عطا فرمائے۔ آمین

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔