اپنے اہل و عیال اور ماتحتوں کی اصلاح و درستگی کی فکر کرنا امر ضروری۔ازقلم : مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
اپنے اہل و عیال اور ماتحتوں کی اصلاح و درستگی کی فکر کرنا امر ضروری۔
ازقلم : مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اہنے اہل و عیال اور اپنے ماتحتوں کی دینی و اخلاقی درستگی و اصلاح کی فکر کرنے کو واجب و ضروری قرار دیا گیا ہے اور بروز قیامت ہر ایک ذمہ دارسے اسکے ذمہ داریوں کے ادائیگی کے بارے میں باز پرس بھی ہوگی جیساکہ حدیث مبارکہ میں واضح طورپر بیان ہوا ہے
قرآن کریم میں نبئ کریم کو مخاطب فرماتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں
اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر قائم رہو ( سورہ طہ)
اسطرح دوسری جگہ ارشاد ہے
اے ایمان والو بچاو تم اپنی جانو کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے ( سورہ التحریم)
حدیث شریف میں ھیکہ حضرت ابوھریرہ بیان فرماتے ھیکہ حضرے علی بن حسن نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈالی تو رسول اللہ نے فرمایا نہیں نہیں اسے پھینک دو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقے کی چیز نہیں کھاتے
آپ اور آپ کی آل کو صدقہ حلال نہیں تھا اور اس حدیث شریف سے بچوں کی تربیت کا پہلو بھی واضح ہوتا ھیکہ جن چیزوں سے بچوں کو روکنا ضروری ہے والدین کی ذمہ داری ھیکہ وہ انکا خیال رکھیں اور انھیں ان چیزوں سے روکتے اور سمجھاتے رہیں اسطرح صدقہ و خیرات کا مال یہ قومی امانت ہے لہذا جن گھروں میں اور جن اداروں میں یہ مال جمع ہو تو انکے ذمہ داروں کا فرض ھیکہ وہ اسکی حفاظت کریں اور اصل مستحقین تک اسے پہنچائیں اور اپنے عزیز و اقارب کی دست برد سے اسے بچائیں
حضرت عمر بن ابی سلمہ جو نبئ کریم کے پرودہ ہیں بیان فرماتے ھیکہ میں بچہ تھا اور نبئ کریم کے زیر پرورش تھا اور میرا ہاتھ ( کھاتے وقت ) پیالے میں گھومتا تھا تو رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا اے لڑکے اللہ کا نام لو ( بسم اللہ پڑھو ) داہنے ہاتھ سے کھاو اور اپنے قریب سے کھاو چنانچہ اسکے بعد میرے کھانے کا طریقہ یہی رہا ( بخاری و مسلم)
اس حدیث شریف میں بچوں کو بچپن سے ہی اخلاق و آداب سکھانے کی بات کہی گئی ھیکہ کھانے کا آغاز بسم اللہ سے اور اپنے داہنے ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کرنا چاہئے اسطرح بچوں کو موقع پر ہی تنبیہ اور نصیحت کیجائے تو اسکا زیادہ اثر ہوتا ہے اسلئے والدین کو چاہئے کہ بچپن سے ہی اہنے بچوں کی تربیت کی فکر کریں اور انھیں اچھے اخلاق وعادات اور آداب کا عادی بنانیکی کوشش کریں
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ھیکہ نبئ کریم نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم سب سے اسکی اپنی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی امیر ( اپنی رعایا ) کا ذمہ دار ہے آدمی اپنے اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے عورت اپنے خاوند کے گھر اور اسکی اولاد کی ذمہ دار ہے چنانچہ تم سب ذمہ دار ہو اور تم میں سے ہرایک سے اسکی اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائیگا ( بخاری و مسلم )
اس حدیث شریف میں معاشرے کے ہر فرد کو چاہے وہ حکمران ہو یا ایک عام آدمی ہو حتی کہ گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے والی عورت کو بھی اسکے اپنے دائرے میں اپنے فرائض ادا کرنے اصلاح کرنے اور عدل و انصاف کے قیام کا ذمہ دار اور اس میں کوتاہی کرنے پر بازپرس کا حق دار قرار دیا گیا ہے
حضرت عمرو بن شعیب کی روایت میں ھیکہ آپ نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز کی تلقین کرو اور جب دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو اس پر انھیں سرزنش کرو اور انکے درمیان بستروں میں تفریق کردو ( ابوداود )
اس حدیث شریف سے نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ھیکہ تعلیم و تربیت کیخاطر بچوں کو اس انداز میں مارنا جائز ھیکہ تربیت بھی ہوجائے اور بچے کو کوئی جسمانی نقصان بھی نہ پہنچے لیکن یہ فلسفہ بالکل غلط ھیکہ بچوں کو کچھ نہ کہا جائے مار پیٹ تو دور کی بات ہے ڈاٹ ڈپٹ بھی نہ کی جائے حالانکہ تہذیب و تربیت کے لئے مناسب سزا ضروری ہے آج اسکی وجہ سے بچوں کا یہ نقصان ہورہا ھیکہ بچے اچھے اخلاق و عادات سے خالی ہوتے جارہے ہیں نہ انکے دلوں میں اپنے والدین کا کوئی ادب و احترام ہے اور نہ انکے نزدیک اپنے اساتذہ کرام کی ہی کوئی اہمیت ووقعت ہے
اسطرح دس سال کی عمر عام طورپر کوئی بچہ بالغ نہیں ہوتا لیکن اس کے اندر کچھ تمیز اور شعور پیدا ہوجاتا ہے اسلئے اس عمر سے انھیں ایکساتھ سلانے کی بجائے الگ الگ بستروں پر سلادیا جائے خاصکر بچے اور بچیوں کو
اسطرح اور ایک حدیث شریف میں ھیکہ نبئ کریم نے نے ارشاد فرمایا کہ تم بچے کو سات سال کی عمر میں نماز سکھاو اور دس سال کی عمر میں اس پر انکی سرزنش کرو
ظاہر بات ھیکہ بچوں کو نماز کی یہ تعلیم و تلقین وہی والدین اور اساتذہ کرسکتے ہیں جو خود پہلے نماز کے پابند ہوں حضرات صحابہ کرام کے زمانے میں یہ تصور ہی نہیں تھاکہ کوئی مسلمان بھی ہو اور پھر وہ نماز نہ پڑھے لیکن بد قسمتی سے آج کل کے مسلم معاشروں میں اساتذہ ووالدین کی اکثریت فریضہ نماز سے غافل ہے پھر ان حالات میں بچوں کو نماز وغیرہ سکھانے اور پڑھانے کی ترغیب اور تلقین کون کریگا ?
اسلئے والدین اور سرپرست حضرات کو اپنے ماٹحتوں کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے انھیں پورا کرنیکی کوشش کرنی چاہئے ورنہ بروز قیامت بازپرس ہوگی۔
Comments
Post a Comment