سورۃ الکهف ہر ہفتہ پڑھنے پر ایک گہری نظر۔۔ازقلم : پروفیسر مختار فرید، بھیونڈی مہاراشٹر۔
سورۃ الکهف ہر ہفتہ پڑھنے پر ایک گہری نظر۔۔
ازقلم : پروفیسر مختار فرید، بھیونڈی مہاراشٹر۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿١٢١﴾ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 121 میں اللہ کہتا ہے " وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے وہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں جو اس سے انکار کرتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں" یعنی قرآن کو پڑھو جیسا اسے پڑھنے کو کہا گیا ہے، عام فہم زبان میں غور کرکے سوچ سمجھ کر۔ جی ہاں، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی آیات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ ذیل میں چند اہم آیات پیش ہیں جو اس بات کی تاکید کرتی ہیں:
1. سورۃ محمد (47:24):
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
"تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟"
2. سورۃ ص (38:29):
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُو۟لُوا ٱلْأَلْبَـٰ
"یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں، اور عقل والے نصیحت حاصل کریں۔"
یہ تمام آیات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ قرآن صرف تلاوت کے لیے نہیں، بلکہ تدبر، تفکر اور عمل کے لیے نازل ہوا ہے۔ ہم ہر ہفتے سورۃ الکہف اس امید پر پڑھتے ہیں کہ سورۃ الکہف کے متعلق ہر جمعرات یا جمعہ کو پڑھنے کی فضیلت پر کئی روایات مشہور ہیں، جو اس کے پڑھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں، خصوصاً جمعہ کے دن جو شخص جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھے، اس کے لیے دو جمعوں کے درمیان روشنی (نور) چمکے گی ۔
جو شخص سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کرے گا، وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔یعنی آخری دس آیات کے متعلق بھی دجال سے حفاظت کا ذکر آیا ہے۔
قرآن کا یہ استعمال قرآن میں کہیں موجود نہیں۔ سورۃ کہف کو غور سے پڑھیں اور اس کے صحیح پیغام کو پانے کی کوشش کریں ۔
سورۃ الکهف کی پہلی آیت میں ہم کہتےہیں الحمد للہ جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی، ٹھیک اتاری تاکہ اس سخت عذاب سے ڈراے جو اس کے ہاں ہے اورایمان داروں کو خوشخبری دے جو اچھے کام کرتے ہیں کہ ان کے لیے اچھا بدلہ ہے۔
یہ سورۃ اکہف کا پہلا پیغام ہے۔
آیت نمبر 7 میں اللہ فرماتا ہے جو کچھ زمین پر ہے بے شک ہم نے اسے زمین کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں کون اچھے کام کرتا ہے۔ یہ آیت انسانی زندگی کا مقصد بتاتی ہے، اللہ نے انسانوں کو زمین پر اسلئے بھیجا کہ وہ اچھے کام کرے۔ جب ہم قرآن میں اچھے کاموں کی تلاش کرتے ہیں، سب سے زیادہ اچھے کاموں کی جو تاکید کی گئی وہ ہے، بھوکوں کو کھانا کھلانا.۔
یہ دوسرا پیغام ہے، کہ انسانوں کے تخلیق کا مقصد تاکہ دنیا میں امن اور سکون قائم ہو۔ جس کے اصل معنی اسلام ہیں۔
سورۃ الحاقہ میں آیت نمبر34 میں اللہ جہنمی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے " اور نہ وہ مسکین کے کھانا کھلانے کی رغبت دیتا تھا" اسی طرح سورۃ الانسان آیت نمبر 8 میں فرماتا ہے "اور وہ اس کی محبت میں مسکین آور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں" یہ اللہ کی محبت ہے جو اللہ کے اچھے بندے جو بھوکوں کو کھانا کھلانے ہیں۔ غرض دوسرا اہم پیغام بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے۔ بہترین عمل: بھوکے کو کھا نا کھلانے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:“سب سے بہترین عمل یہ ہے کہ تم اپنے مومن بھائی کے دل میں خوشی داخل کرو، اس کا قرض ادا کرو، یا اسے روٹی کھلاؤ۔”(سنن بیہقی، شعب الایمان)
2. جنت کی ضمانت،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھلوں سے کھلائے گا۔"(ترمذی، حدیث حسن)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:“رحمٰن کی عبادت کرو، کھانا کھلاؤ، سلام کو عام کرو، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔(ترمذی، صحیح)
حضور کا امتحان لینے کےلئے کچھ مشرکین مکہ نے مدینہ سے آئے ہوئے وفد کو کہا کہ حضور سے اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں پوچھو کہ وہ کتنے لوگ تھے۔ جب یہ سوال کیا گیا تب حضور نے سوچا کہ کل جب جبریل آئیں گے تو میں پوچھ کر بتاؤں گا مگر جبریل علیہ السلام تقریباً پندرہ دنوں تک نہیں آئے، حضور کافی پریشان ہوئے اور سوچنے لگے کہ شاید سلسلہ وحی بند ہوگیا۔ جب وحی نازل ہوئی تو اس تنبیہ کے ساتھ وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ﴿٢٣﴾اورکسی چیز کے متعلق یہ ہر گز نہ کہو کہ میں کل اسے کر ہی دوں گا. إِلَّا أَن يَشَاءَ کر ۚ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا ﴿٢٤﴾مگر یہ کہ الله چاہے اور اپنے رب کو یاد کر اورجب بھول جائے تو کہہ دو امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی بہتر راستہ دکھائے. یہ تنبیہ قرآن میں آئی کہ کل کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا غیب کا علم سوائے اللہ کے کسی کو بھی نہیں۔ حضور نے یہ آیت چھپائی بھی نہیں۔ اس کے بعد بھی اصحابِ الکہف کی تعداد ظاہر نہیں کی۔
تیسرا پیغام غیب کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں معلوم۔ اپنے عقل کے گھوڑے دوڑانے کی اجازت نا حضور کودئی گی ہےنا ہی کسی اور انسان کو۔ اور اگر کوئ کام کرنا ہے تو انشا اللہ کہنا نا بھولو۔
وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا . 27۔ اے محمد تم پر جو کتاب نازل کی جارہی ہے، اسے پڑھ کرسمجھاؤ، اس کے الفاظ بدلنے والے نہیں ، اور نا ہی اور تو اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائے گا۔
چوتھی نصحیت اللہ کی کتاب میں ایک لفظ کا رد وبدل نہیں ہوسکتا۔
هَٰؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً ۖ لَّوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِم بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ ۖ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا
﴿١٥﴾۔ اوریہ ہماری قوم نے اللہ کے سیوئے اورمعبود بنا لیے ہیں ان پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے پھر اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے الله پر جھوٹ باندھا۔
اصحابِ کہف نے جب دیکھا کہ پوری قوم شرک میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس قوم کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا، اور چونکہ ان کی تعداد کم تھی تو وہ بغیر لڑے بستی کو چھوڑ کر نکل گئے۔
پانچویں نصیحت ، عبادت کے بارےمیں بغیر دلیل کے کسی کی بات قبول نا کرو۔
وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا ﴿٢٥﴾اور وہ اپنے غار میں تین سو سے زائد نو برس رہے ہیں۔
یہ اللہ کے قدرت کا کرشمہ ہے کہ دنیا کے گردش جس کی رو سےسال اور مہینوں کا حساب لگایا جاتا ہے، 300 سال پہلے بتایا گیا،یہاں قمری تقویم اور شمشیر تقویم کا حساب بتایا گیا ہے ، یعنی اصحاب کہف تین سو سال غار میں رہے، مگر قرآن کہتا ہے کہ اس میں نو سال مزید جمع کرو۔ اگر ہم حساب لگائیں تو پتہ چلے گا کہ تین سو سال میں نو سال کا فرق ہوگا۔ یعنی شمشی سال کے حساب سے تین سوسال اور قمری تقویم کے تین سو دس سال ہوئے۔
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا ﴿٢٨﴾۔
تو ان لوگو ں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیاہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا ہے اور ا سکا معاملہ حد سے گزر ا ہوا ہے۔
چھٹی نصیحت: اچھی صحبت اختیار کرو، ان لوگوں دوست بناؤ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیاہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا ہے۔ اپنی نظروں کو بچانے اور صنف نازک کی مست نگاہوں میں گم نا ہو جاؤ۔
بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا ﴿٢٩﴾۔ اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے بے شک ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے انہیں اس کی قناتیں گھیر لیں گی اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے فریاد رسی کیے جائیں گے جو تانبے کی طرح پگھلا ہوا ہو گا مونہوں کو جھلس دے گا کیا ہی برا پانی ہو گا او رکیا ہی بری آرام گاہ ہو گی۔
قرآن ایک حق ہے اور اس کے احکامات حق ہیں، اب یہ ہم انسانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے ، کہ اس کو مانو یا نا مانوں ، جو مان لیں ان کے آخیرت میں جنت کی بشارت دی جارہی ہے اور جو اس کا انکار کریں انھیں دردناک عذاب ہو گا۔
یہ ساتویں تنبیہ ہے۔ اچھےکام کا بدلہ اچھا ہوگا اور مغرور کا انجام جہنم کی آگ۔
وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَىٰ رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا ﴿٣٦﴾ اورمیں قیامت کو ہونے والی خیال نہیں کرتا اور البتہ اگر میں اپنے رب کے ہاں لوٹایا بھی گیا تو اس سے بھی بہتر جگہ پاؤں گا۔۔
یہاں دو اشخاص کا ذکر کیا گیا ہے، ایک کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا تھا اور دوسرے کے پاس نا ہی اولاد کی کثرت تھی نا ہی دولت۔ پہلا اس اللہ کے فضل کو اپنا حق سمجھ کر غرور میں تھا، اور بڑی ڈینگے مار رہا تھا۔ قیامت سے انکار کے علاؤہ وہ موت کے بعد دو بارہ زندہ کئے جانے سے بھی انکار کرتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ اگر واقعی ایک روز ہم دوبارہ اٹھائیں جائیں گے تو مجھے وہاں بھی اچھا ملے گا. اورمیں قیامت کو ہونے والی خیال نہیں کرتا اور البتہ اگر میں اپنے رب کے ہاں لوٹایا بھی گیا تو اس سے بھی بہتر جگہ پاؤں گا۔ قیامت کا انکار جس کا جہنم کی آگ ہے، اسے اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران میں نے کہا کیا تو اس کا منکر ہو گیا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے بنایا پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا۔ لیکن میرا تو الله ہی رب ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروں گا
یہاں پھر ایک بار اللہ ذات میں کسی کو شریک نا کرنے کی تنبہ کی گئی ہے. یہ دل جلی حرکت سے ساتھی کی زبان سے نکل گیا ، کہ کہیں اللہ تمہاری شیخ بازی پر ناراض نا ہوجائے اور پورا باغچه الٹ پالٹ نا جائے، اور یہی ہوا، اور اس کا پھل سمیٹ لیا گیا پھر وہ اپنے ہاتھ ہی ملتا رہ گیا اس پر جو اس نے اس باغ میں خرچ کیا تھا اور وہ اپنی چھتریوں پر گرا پڑا تھا اور کہا کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
یہ اس سورۃ کی آٹھویں تنبیہ ہے. اللہ نا ڈینگباز کو پسند نہیں کرتا اور کسی کا دل جلاؤ گے تو اس کا بدلہ اللہ کی طرف سزا کے طور ملتا ہے. یہاں سب اختیار الله ہی کا ہے اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیاہوا بدلہ اچھا ہے۔
آیت نمبر 45 میں دنیا کی زندگی کی مثال پیش کی گئی ہے. اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو مثل ایک پانی کے ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا پھر زمین کی روئیدگی پانی کے ساتھ مل گئی پھر وہ ریزہ ریز ہ ہو گئی کہ اسے ہوا ئیں اڑاتی پھرتی ہیں اور الله ہر چیز پر قدرت رکنے والا ہے۔ آیت 46 مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں.
اور سب انسانوں کو جمع کیا جائے ، اور اعمال نامہ ہاتھوں میں رکھ دیا جائے گا پھر مجرموں کو دیکھے گا اس چیز سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہے اور کہیں گے افسوس ہم پر یہ کیسا اعمال نامہ ہے کہ اس نے کوئی چھوٹی یا بڑی بات نہیں چھوڑی مگر سب کو محفوظ کیا ہوا ہے اورجو کچھ انہوں نے کیا تھا سب کو موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔آیت نمبر 49۔
آیت نمبر 50 میں ایک بار پھر شیطان کی سر کشی کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بات صاف کردی گئ کہ شیطان جنوں میں سے تھا اس لئے اللہ کے حکم سے سرکشی کر گیا. کچھ لوگوں کا غلط خیال ہے کہ شیطان فرشتہ تھا جو غلط تصور ہے. فرشتے اللہ کے ہر حکم کو بجا لاتے ہیں.
آیت 54اور البتہ تحقیق ہم نے اس قرآن میں ان لوگوں کے لیے ہر ایک مثال کو کئی طرح سے بیان کیا ہے اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے۔ یہ بات بڑی زبردست ہے واقعی انسان کو کسی پل چین نہیں اور بات پر جھگڑا کرنے تیار رہتے ہیں.
موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ آیت نمبر 65 سے شروع ہوتا ہے اور 82 پر ختم ہوتا ہے۔ اس قصبہ میں ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ ظاہراً جو کام ہمیں غلط لگتے ہیں اس میں اللہ کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ اس قصبہ میں ایک بات جو مجھے اچھی لگی وہ ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے ایک گرتی ہوئی دیوار کو دو بارہ بغیر اجرت سیدھا کیا اور اس بارے کہا کہ اس کے نیچے یتیموں کا مال تھا اور چونکہ ان کے والد اچھے کام کرنے تھے اسلئے اس کی حفاطت اللہ نے کردی۔ جو انسان اچھا کام کرے اللہ اس بدلہ اس کے اولادوں کو بھی دیتا ہے۔
ایت نمبر 99 سے پھر قیامت کا ذکر ہوتا ہے۔ اور بہت صاف اور معنی سے بھرپور آیتیں ہیں جن کا لب لباب ہم بیان تفصیل سے بیان کریںگے
جب صور پھونکا جائے گا اور جہنمی لوگوں کو جمع کیا جائے گا۔ جن کی آنکھوں پر ہماری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ سن بھی نہ سکتے تھے۔ پھر کافر کیا خیال کرتے ہیں کہ میرے سوا میرےبندوں کو اپنا کارساز بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کے لیے دوزخ کو ان کی مہمان نوازی کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ یہ وہ انسان ہونگے جو اللہ کو چھوڑ اللہ کے بندوں اپنا لیڈر بنالیا تھا جو بجائے ان کو صحیح راہ بتائیں اپنی خود ساختہ راہ پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔
پھر کافر کیا خیال کرتے ہیں کہ میرے سوا میرےبندوں کو اپنا کارساز بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کے لیے دوزخ کو مہمانی بنایاہے ۔ وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھوئی گئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس کے روبرو جانے کا انکار کیا ہے پھر ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے سو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔
یہ سزا ا ن کی جہنم ہے ا سلیے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق بنایا تھا۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کی مہمانی کے لیے باغ فردوس ہوں گے ۔ جنت کا جہاں بھی ذکر ہوتا ہے۔ یہی جملہ بار بار دوہرایا جاتا ہے، کہ جنت اسے ہی ملے گی جو ایمان لائے اور اچھےکام کرے۔ میں ہمیشہ رہیں گے ۔
کہہ دو اگر میرے رب کی باتیں لکھنےکے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے اور اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم ایسا ہی اور سمندر لائیں۔ اللہ کی تعریف جنتی بھی کئی جائے اس کا اختتام ہونہیں سکتا۔
کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔
آخر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہادت ہے کہ وہ عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہیں اور جو اللہ سے ملنے کی امید رکھتے، انھیں چاہیے کہ اچھے کام کرے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نا کرے۔
Comments
Post a Comment