شاعری کیا ہے؟ازقلم : محمد حسین ساحل۔۔ ممبئی، مہارشٹر(انڈیا )

شاعری کیا ہے؟
ازقلم : محمد حسین ساحل۔۔ 
ممبئی، مہارشٹر(انڈیا )
               Mob. 9284205066
         
شاعری کیا ہے؟
لوگ نہ یہ سوچتےہیں اور نہ لوگوں کے پاس یہ سوچنے کے لیے وقت ہے کہ شاعری کیا ہے؟ اور ہم شاعری کیوں کرتے ہیں۔شاعر شاعری کےذریعہ اپنے دل اور گردوپیش کے حالات کی عکاسی کرتا ہے اور غم جاناں کو غم دوراں اور آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر پیش کرتا ہے۔درج ذیل اشعار میں شعراءحضرات نے اس طرح کی عکاسی بہت خوب کی ہے :

ہم    کو  اچھا  نہیں   لگتا  کوئی  ہم  نام  ترا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
(احمد فراز)
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
(قتیل شفاٸی)     
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
(عباس تابش)
 •جو سچ تھا تم نے اس کو ہی باطل سمجھ لیا
دنیا نے اک مسیحا کو قاتل سمجھ لیا 
(اشفاق دیشمکھ)

• کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
(پروین شاکر)
•انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد
(کیفی اعظمی)
 
اس نا خدا نے چھوڑا تھا طوفان میں مجھے 
تقدیر میرے ساتھی میں ساحلوں میں تھا
(نعیم پر کار)
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری الفاظ کا وہ استعمال ہے، جس میں ایک طرف معانی کی وسعت ذہن کو تسخیر کرے تو دوسری جانب نغمگی کی تاثیر دل کو جکڑ لے۔ گویا ایک اچھا شعر انسان کے پورے وجود کا تجربہ ہے۔ موزوں الفاظ میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں۔
• ہم اہل طلب کو وعدوں کی دنیا میں بسایا جاتا ہے
ہمت بھی بڑھائی جاتی ہے اوسان گھٹایا جاتا ہے
(سيف الله سيف)
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ( موزوں الفاظ میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں۔) 
•قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(مولانا محمد علی جوہر)
•دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
(کلیم عاجز)
• لے گئے کچھ لوگ بھی ہم سے اجالا مانگ کے
 ہم لہو دل کا چراغوں میں جلاتے رہ گئے
(شریف منظر)
•وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے
(احمد وصی)
•مٹاکر نفرتیں اپنی،کریں  چرچا محبت کا
چلو مل کر بناتے ہیں نیا  فرقہ محبت کا
(محمدحسین ساحل)
•مبتلا عشق میں ہے جو، اُسے کیا یاد رہے
 نہ کہا یاد رہے کچھ نہ سنا یاد رہے
(ذوالعقار سرگروه،کوکن)
•کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں
(قتیل شفاٸی)
•خوشبو میں بسا ایک نگر دیکھ رہا ہوں
میں اپنی محبت کا  اثر  دیکھ رہا ہوں
(صابر عمر گالسولکر )
•مرے کھانے سے گھبرایا بہت ہے 
وہ دعوت دے کے پچھتایا بہت ہے لفافہ دیکھ کر بولا وہ مجھ سے دیا کم ہے میاں کھایا بہت ہے
(محشر فیض آبادی)
• ہم نے حرفوں کو لکیروں کے بھی جب پیکر دئے
شاعری کی شکل میں  سب  مرحلے  طے  کردئے
(سید جاوید علی آغاز ، برہانپوری)
شاعری وہ جذبہ ہے جو دل و دماغ سے ہوتے ہوئے روح کی گہرائی میں اُتر جاتا اور قرطاس ابیض پر ثبت ہوتا ہے پھر جن کی بھی نظریں اُس قرطاس ابیض سے ٹکرائی انھوں نے بھی اُس جذبہ کو محسوس کرنا شروع کیا۔
شعر اظہار کے ذرائع میں ایک بہت مؤثر ذریعہ ہے جس سے انسان اپنی بات دوسروں تک پہنچاتا ہے، دوسروں کو متاثراور قائل کرتا ہے اور کبھی کبھی گھائل بھی کر دیتا ہے۔
شاعر اپنے احساسات قلم زد کر دیتا ہے وہ جو کچھ بھی دیکھتا ہے محسوس کرتا ہے لکھ ڈالتا ہے خوشیاں بھی غم بھی ، ُپر اُمید شاعری آپ کو حمد و نعت اور نغموں وغیرہ میں بکثرت مل جائیں گی۔ روز مرہ زندگی میں ہم لوگ مسائل اور رکاوٹوں سے دوچارہوتے ہیں جو دیکھتےہیں وہ ہماری گفتگو کا محور و مرکز ہوتا ہے سو یہی باتیں ہماری نظم و نثر تحریروں کالموں فلموں ڈراموں کا موضوع ہوتی ہیں۔
• ہم کو نرگس ہی پکارے یہ زمانہ لیکن 
نام خاموشی میں تیرا ہی صدا یاد رہے
(نرگس تلوے،کوکن)
•دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
• کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
(احمد فراز)
•کام جب جب بھی کرے کوئی سدا یاد رہے
 اس میں ہر لمحہ ہو مالک کی رضا یاد رہے
(جمال یوسفی،چپلون)
اس میں کوئی شک نہیں کہ محاسنِ شاعری کا یکجاہوناشاعری کا حسن بھی ہے اور کمال بھی۔ شعر کی جمالیات جن عناصر میں پنہاں ہے ایک شاعر کے لیے ان کا ادراک ضروری ہے۔
 حسنِ شعر دو اہم محاسن وزن اور تخیل کا پابند ہے۔ لیکن اس میں ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ تخیل حقیقت سے جتنا قریب ہو گا شعر کا حسن اتنا ہی دیرپا اور جاوداں ہو گا۔ مجازی اشعار بھی بسا اوقات بلند تخیل کی وجہ سے بہت اونچے سنگھاسن پر فائز کیے جاتے ہیں لیکن ایسا کم کم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ حقیقت کو وزن اور خیال کے سانچے میں ڈھالنا ہی حسنِ شعر ہے۔
•جب رات گئے کوئی کرن میرے برابر
چپ چاپ سی سو جائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
(جانثار اختر)
•میں تو قاضی ہوں مرا کام ہے حق پر چلنا 
آنکھ انصاف سے آخر میں چراؤں کیسے
(مصطفی قاضی)
•سیدھی باتیں ہیں سب ہماری 
عشق  میں  فلسفہ نہیں ہوتا
مسکرا   کر  نظر  جھکا  لینا
راؔہی یہ  بے   وجہ نہیں ہوتا
(اسامہ ابن راہی )

شاعری حالات و واقعات کی ترجمان ہوتی ہے اور اس معاشرے اور ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں شاعر رہتا ہے، صرف فن شاعری ہی شاعری کا موجد نہیں، بلکہ وہ جذبات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کریں، شاعری ہے۔ اس کی تعریف ایسے بھی مناسب ہے، شاعری ان منظم جذبات کا نام ہے جو فی البدیہہ نازل ہوتے ہیں۔ ان جذبات کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں یا پھر ،جو ہو جائے وہ شاعری، جو کرنی پڑے وہ تک بندی۔
•تجھکو پانے کے لئے کی ہے دعا یاد رہے
 تو ہے تقدیر مری جان وفا یاد رہے
(بلال بزمی)
•غزل میں بندش الفاظ ہی نہیں سب کچھ
جگر کا خون بھی کچھ چاہئے اثر کے لیے
• مَیں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تُو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گِلا کچھ بھی نہیں
(اختر شمار)
یہ گمان ہوتا تھا آسمان ہوں جیسے
ماں مری ہتھیلی پر چاند جب بناتی تھی
      (نظام نوشاہی)
•راستے یاد رہے، نہ رہنما یاد رہے خود کو اپنے ہی گھر کا نہ پتہ یاد رہے
(اقبال عامل، مہاڈ)
شاعر بھی الله کی عجیب وغریب مخلوق ہے ۔الله نے اُ سے انسان بنا کر بھیجا مگر اس انسان نے خود کواپنی مرضی سے یا تو شاعر بنا دیا یا تخلص کا استعمال کرکے خود کو شاعر کہلوانے لگا ۔ شاعری میں اپنے محبوب سے چاند ستارے توڑ کر لانے کے وعدے کرنے لگا ( چاند ستارے لانا تو  دُور کی بات اگر وہ گھر میں دال آٹا ہی لائے تو غنیمت ہے ) پھر شاعر کا معاملہ یہی نہیں تھمتا وہ اپنے محبوب کی زلفوں پر اتنے اشعار لکھنے کا کام کرتا ہے کہ زلف کی تعداد سے زیادہ اشعار کی تعداد ہوجاتی ہے ۔ پھر اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اگر محبوب کا ایک بال اگر دال میں غوطہ زن ہوتا ہے تو وہی شاعر آپے سے باہر ہو جاتا ہے ۔
• کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصرؔ گھر میں رہو تو بہتر ہے
(ناصرؔ کاظمی)
•کوئی آتا ہی نہیں مجھ کو منانے کے لئے 
ہر کوئی ملتا ہے بس دل کو دکھانے کے لئے
(مصطفٰی قاضی،راجیواڑی)
•بڑی مشکل گھڑی ہوتی  کہ جگنو چمکتے ہیں  
مری پلکوں  پہ  آدھی رات کو  آنسو  چمکتے  ہیں
• کسی دن شہر میں  آوارگی  کرنا  سلیقے سے
عجب منظر غضب منظر  یہاں ہر سو چمکتے ہیں
(محمد حسین ساحل)

• چونکا دیا مجھے ترے لمسِ خیال نے
جمتا ہوا لہو بھی روانی میں آگیا
(ثانی اسلم ،ممبئی)

• میں اس سے ملتا تو وہ مجھکو معاف کر دیتا
ذرا سا   کام   تھا   لیکن   ہوا نہیں مجھ سے
(یاسین ڈاوڑے فنا )
• مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
(سلیم کوثر)
• کب تلک باتوں میں اُلجھاۓ رھو گی یوں مجھے
اس زبانی عشق کے  آگے بھی کچھ ھے  یا نہیں
(شمیم عباس، ممبٸی)
• سمجھ لینا کوئی مقصد ہے اس کی چاپلوسی میں
جھکا کر سر کوئی اخلاص سے اتنا نہیں ملتا
(عادل راہی،ممبٸی)

• آنکھوں سے قتل کرنے کا انداز خوب ہے 
ترچھی نظر کو تیر بنائے ہوئے ہو تم
(ڈاکٹر شکیل پردیسی،کوکن)

کولرج نے شاعری کو انسانی تخلیقی کام جیسا عمل قرار دیا۔ کولرج کے خیال میں شاعری بامعنی حسن کی تخلیق ہے جو بہت بامعنی الفاظ میں کی جاتی ہے یعنی اس نے عمدہ  الفاظ کی استعمال کو لازم قرار دیا۔ اس کے علاوہ کولرج شاعری کے لیے ارفع خیالات کو لازم قرار دیتا ہے اس کا کہنا ہے کہ ” شاعری میں ذوق سلیم ضروری ہے اور عظیم فن پاروں کا مطالعہ، قواعد و ضوابط اور نفسیات سے لگاو ذوق سلیم کا ایک حصہ ہے“۔
•کہنے   کو   یہ جہاں   تو مثل بہشت ہے
ایسی بہشت جس میں کہ رہنا عذاب ہو
(امیر حمزہ حلبے)

•اشک باری کا یہ جل تیرے نام
ہجر کی شب کا عمل تیرے نام
دل کے کاغذ پہ جو لکھی ہے ابھی
مہکی مہکی سی غزل تیرے نام
(منظر خیامی، کوکن)
•اس نئے زمانے کے آدمی ادھورے ہیں
صورتیں تو ملتی ہیں سیرتیں نہیں ملتی
•آج کل وہی افسر کوستے ہیں قسمت کو
جن کو اونچے عہدوں پر رشوتیں نہیں ملتیں
• شہرتوں پہ اترا کر خود کو جو خدا سمجھیں
منظر ایسے لوگوں کی تُربتیں نہیں ملتیں
(منظر بھوپالی)
•زندگی تھوڑی ہے ہر وقت، سدا یاد رہے 
کچھ رہے یا نہ رہے دل سے خدا یاد رہے
(فیض افسر،کوکن)
• تو نہیں تو کچھ بھی اے ہم دم نہیں
زندگی میں پیار کی سرگم نہیں
•جب کہے دل یار کے لگ جا گلے
پیار کرنے کا کوٸی موسم نہیں
•مانا تھے فاروق ،غالب اور میر
شعر اپنا بھی کسی سے کم نہیں
(ڈاکٹر فاروق رحمان،ممبٸی)
•امیر زادے تو غربت میں دور دور رہے
جو تھے غریب وہی لوگ آس پاس آئے
(حبیب ندیم۔ مسقط عمان)
•آج بھی میسر ہے وہ حسین پل مجھکو
ماں مرے خیالوں میں آکے سر دباتی ہے
(علی فاضل)

• محبت کی لہروں میں  بہتے چلے ہم 
یہ  لہریں  جو  آئیں  یکے   بعد آئیں
• منڈاتے ہی سر اولے سر پر پڑے ہیں
 نہ آگے  بڑھے ہم نہ پیچھے ہٹے ہیں
(عباس شاداب)
ورڈز ورتھ (Wordsworth) نے تخیل کو اہم قرار دیا اور کہا کہ
"Poetry is a matter of fact of the overflow of the powerful feeling”

شاعری طاقتور احساسات کا بے ساختہ بہاؤ ہے:  سکون میں یاد کیے جانے والے جذبات سے اس کی ابتداء ہوتی ہے۔
جرمن شاعر اور نقاد گوئٹے نے اپنی تنقیدوں میں فطری شاعری کی چار خصوصیات بتائی ہیں:
1.  روانی اور شیریں بیانی
2.  خصوصی مضامین جو عام نہ ہوں
3.  تخیل میں وسعت و گہرائی
4.  نیا پن
اس کے علاوہ حالی کہتے ہیں کہ غزل میں ”قافیہ بھی وزن کی طرح شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے۔ جس سے کہ اس کا سننا کانوں کو نہایت خوشگوار و بھلا معلوم ہوتا ہے اور اس کے پڑھنے سے زبان زیادہ لذت پاتی ہے “۔ (حالی مقدمہ شعروشاعری)
•بے وفا تیری جفاؤں نے کیا ہے احساں
 کہہ کے مجنوں مجھے مشہور کیا یاد رہے
(ڈاکٹر ایم کنول، کوکن)
•ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
(فانی بدایونی)

• جانے کتنے سلسلے ہیں آنکھ کی دہلیز پر 
آنسوؤں کے قافلے ہیں آنکھ کی دہلیز پر
(معین علی آزاد)
• مانگ کر اُن سے گر رسوائی ملے تو کوئی بات نہیں
تاکہ انہیں شکوہ  نہ رہے کہ ہم نے ان سے مانگا ہی نہیں
(عبدالمجید پرکار فانی)
صحابہ کرامؓ میں بڑے بڑے شاعر تھے۔ ایک  شاعر ہونا اور ایک ہے سخن شناس ہونا کہ خود تو شاعر نہیں لیکن شعر کو سمجھتا ہے۔ سخن شناس ہونا بھی ایک مستقل ذوق ہے۔ شعر شناسی میں، شعر و شاعری کے ذوق میں اور اشعار کو سمجھنے میں اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ کو کمال حاصل تھا۔شعر سمجھنا اور موقع محل کے مطابق اسے استعمال کرنا ایک مستقل فن ہے۔ ماضی میں دوایسی شخصیات گزری ہیں جن کو موقع محل کے مطابق شعر فٹ کرنے کا ذوق حاصل تھا۔ تقریر میں نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم، جو خود بھی شاعر تھے اور گفتگو میں شعر کوایسے لاتے تھے کہ جیسے شعر اسی بات کے لیے کہا گیا ہے۔ جبکہ تحریر میں امام اہل السنۃ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؓ، ان کی کتابیں دیکھ لیں کہ بات بنا کر ایسے لاتے ہیں اور اس طرح شعر فٹ کرتے ہیں کہ جیسے کہا ہی اسی کے لیے گیا ہے۔ موقع محل کے مطابق شعر کا ذکر کرنے سے بات کا وزن بہت بڑھ جاتا ہے۔
ایک مرتبہ حضور ﷺنے فرمایا کہ تلوار کی جنگ میں تم سب میرے ساتھ تھے،مگر زبان کے جنگ میں کون کون میرے ساتھ ہو گا؟ اس پر تین آدمی کھڑے ہوئے۔ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ۔ تینوں اپنے دور کے بڑے شاعر تھے اور تینوں انصاری تھے، تینوں نے ذمہ داری اٹھائی کہ شعر و شاعری کی جنگ ہم لڑیں گے۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نے فرمایا، یا رسول اللہؐ ! میں اس زبان کے ساتھ کافروں کو چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا۔ حضرت حسان بن ثابتؓ حضورؐ کی مدح اور نعت بیان کرتے تھے اور کافر حضورؐ کی ہجومیں جو کلام کرتے تھے ان کا جواب دیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ رجزیہ اور رزمیہ شعر کہتے تھے کہ اُڑا دیں گے، کاٹ دیں گے، چیر پھاڑ دیں گے، تباہ کر دیں گے وغیرہ، جبکہ حضرت کعب بن مالکؓ توحید، اللہ کی صفات، اسلام کی خوبیاں، اسلام کے احکام اور عبادات کی باتیں کرتے تھے اور کفر و شرک کی برائیاں بیان کرتے تھے۔خیر موضوع طویل ہے ۔
آئے ! ہم چچا غالب کے اشعار پر سر سری نظر ڈالتے ہیں:
غالب نئے راستوں اور نئی منزلوں کی تلاش کا اظہار اس خلوص سے کرتے ہیں کہ اس جدوجہد میں اور لوگ خود بخود شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے غالب کی شاعری اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ اور قیمتی وراثت کا حصہ بن گئی ہیں۔ کسی کے فن کا یہی معراج ہے کہ ایک انسان کی جدوجہد پوری انسانیت کی جدوجہد  بن جائے۔
غالب نے بھی اپنی شاعری مزے لے لے کر کی، غالب کے ہر شعر میں سینکڑوں رنگ اور ہزاروں مفہوم پنہاں ہوتے ہیں،انھوں نے دور حاضر کے شعراء کی طرح اہل اقتدار کی دھجیاں اُڑانے میں نہ اپنا وقت گنوایا اور نہ ہی اپنی توانائی، ہر شعر کی وہ خصوصیت بخشی کہ لوگ انھیں برسوں بعد بھی اسی چائو اور خلوص سے پڑھیں گے اور ہر شعر پر تحقیقی عمل بھی جاری رہے گا۔
• ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
• نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
•خانہ دل میں اگر تجھ سا پری زاد رہے
 کیوں نہ تا عمر پھر عاشق تیرا بر باد رہے
(جاوید محشر، کوکن)
• ہزاروں خواہشیں ایسی کے ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
(مرزا غالب )
•منزلوں کا نہ سہی کچھ پتہ یاد رہے 
اپنے گھر ہی کا مجھے راستہ یاد رہے
(تاج الدین شاہد، کوکن)
اگر قاری کو یہ سمجھ آجائے کہ کونسے شعرمیں کیا کہا ہے اور اس شعرکو کسی مضمون یا کسی تقریر میں کس جملے کے بعد استعمال کرسکتے ہیں تو سمجھ لو شاعرکی محنت رنگ لائی ورنہ ایسے بھی لوگ دیکھیں ہیں جواشعار کو توڑمروڑ کر پیش کرتےہیں، مصرعہ ثانی کو مصرعہ اولیٰ کی جگہ پڑھتے ہیں۔
شاعری پڑھیے ، شاعری کو سمجھیے یقین جانیےاپنی گفتگو میں جگہ جگہ اشعار کا استعمال یا مصرعہ  کا استعمال آپ کی بات میں وزن پیدا کرنے اورمفہوم کو مزید واضع کرنے یا وسعت دینے میں معاون ثابت ہوگا۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ