تاریخ کے جھروں کو سے۔ بقلم۔۔ محمد ناظم ملی تونڈا پوری (استاد جامعہ اکل کواں)

تاریخ کے جھروں کو سے۔  

بقلم۔۔ محمد ناظم ملی تونڈا پوری 
(استاد جامعہ اکل کواں)

یہ حقیقت ہے کہ کردار اخلاق کریکٹر جب تک بلند اور اچھے نہ ہو اللہ کی مدد اس کی نصرت اور اس کی طرف سے تائید و اعانت نہیں ہوتی اور اگر مخلوق خدا سے ہمدردی خدائے رب العالمین کے اصولوں کی پاسداری کرنے والا چاہے وہ کوئی ہو اللہ کی طرف سےاسکی اعانت اور تائید ہوتی رہتی ہے علامہ اقبال نے شکوہ جواب شکوہ میں بہت قیمتی باتیں بیان کی ہیں جس میں انہوں نے ایسے ہی سوالات کو طشت ازبام کیا ہے وہ عرض کرتے ہیں جیسا کہ عام لوگوں کے ذہن میں یہ بات اتی ہے کہ ہم تو اللہ کے ماننے والے ہیں اس کے اطاعت گزار ہیں قوم مسلم ہیں اس کے در کے سوا کسی سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں جبین نیاز کے لیے ہم نے رب العالمین کی چوکھٹ کو طے کیا ہے پھر یہ پریشانیاں اور مصائب و الام مشکلات ہمارے ہی ساتھ کیوں؟ان سارے فاسد خیالات کو وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں خدا کے نہ ماننے والے بے خدا تہذیب کو گلے لگانے والے اسلامی تہذیب و تمدن سے نہ اشنا اسلامی کلچر کو نہ اپنانے والے بظاہر ان کی زندگیاں لالہ وزار ہے گل و گلزار ہیں ان کی پوری زندگی میں رنگینیاں ہیں چمک ہے رونق ہے تعیش اور شادابی کے سارے سامان موجود ہیں اقبال کہتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ ملے کافر کو حور و قصور 
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور 
وہ اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں 
مسلم ائین ہوا کافر تو ملے حور و قصور 
اگے پھر کہتے ہیں
تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں 
جلوہ طور تو موجود ہے موسی ہی نہیں 
پھر اگے کہتے ہیں 
تھے تو وہ اباء تمہارے تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو 
تاریخ گواہ ہے! غیاث الدین بلبن 22 سال ہندوستان پر حکومت کرتا رہا تخت پر بیٹھا تو ہمیشہ باوضو رہا کرتا تھا نمازوں کی پابندی کا یہ حال تھا کہ تہجد چاشت اور اشراق بھی اس سے نہ چھوٹتی تھیں کھانا کبھی اکیلا نہ کھاتا تھا امیر و وزیروں کو اپنے دسترخوان پر نہ بلاتا تھا ہمیشہ کوشش یہ کرتا کہ علماء کے ساتھ کھانا کھائے ان کی موجودگی میں کسی چیز کی طرف خود پہلے ہاتھ نہ بڑھاتا تھا جمعہ کی نماز پڑھ کر ان کے گھر جاتا ان سے استفادہ کرتا دنیا دار عالموں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا علمائے سو ء اور دنیا دار علماء کو کلاب الدنیا سے تعبیر کرتا تھا کہتا تھا یہ ریاکار اور سودے باز ہوتے ہیں اپنے عمرہ اور وزرا کو بھی ان سے دور رہنے کی تاکید کرتا تھا ایک دن اس نے اپنے بیٹے بغرا خان اور خان شہید کو بلایا۔ اور بولا سلطان شمس الدین التمش فرماتے تھے کہ انہوں نے شہاب الدین غوری کی محفل میں دو بار سید مبارک غزنوی کو دیکھا وہ پائے کے عالم اور بڑے اللہ والے تھے غوری ان کی باتیں بڑی دھیان اور توجہ سے سنتا تھا غوری یہ باتیں سن کر سلطان التمش کو بتاتا تھا ان سے قطب الدین ایبک اور میں نے سنیں
محمد قاسم فرشتہ نے اپنی تاریخ میں یہ تفصیل دی ہے سید مبارک غزنوی فرماتے تھے کہ حکمرانوں کے اکثر کام شرک کی حدوں کو چھو لیتے ہیں وہ بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جو سنت نبوی کے خلاف ہوتے ہیں ان کے وزیر امیر اور حاشیہ بردار کبھی انہیں ٹوکتے نہیں وہ ہمیشہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں میرے بیٹو ! حکومت کرنے والے کے لیے چار باتوں کا خیال ضروری ہے بغرا خان اور خان شہید باپ کی باتیں غور سے سن رہے تھے اور وہ ذرا بھی بیٹھے تھے انہوں نے پوچھا کہ وہ چار باتیں کیا ہیں؟بلبن نے کہا کہ شان و شوکت اوررعب داب کی فکر کرنے والے حکمرانوں کو اللہ سے ڈرنا اور اللہ کے بندوں کی بھلائی کا سب سے پہلے خیال رکھنا چاہیے اور کسی پر کسی طرح کا کوئی ظلم اس سے سرزد نہ ہونا چاہیے دوسری بات یہ ہے کہ حکمراں کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے ملک میں بدکاری نہ پھیلے بے ایمان بدیانت سود خور منافق اور بے غیرت لوگوں کو ہمیشہ ذلیل و رسوا کرنا چاہیے اگر سرکار دربار میں بدکاروں اور حرام خوروں کو جگہ مل جائے تو حکومت کے اہل کار اور فوج و سپاہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ بگڑ جائے گا خائن بدقماش بے ایمان ظالم زانی اسی طرح چاپلوس لوگوں سے دور رہنا چاہیے تیسرا کام جو حکمران کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس کے صوبے دار اس کے وزیر و مشیر اچھے با اخلاق مہذب تعلیم یافتہ زی استعداد ہر طرح کی صلاحیت رکھنے والے اور خدا سے ڈرنے والے یعنی خدا ترس لوگ ہونا چاہیے اگر ایسے لوگ نہ ہو تو ملک فسادات سے بھر جائے گا حکومت ٹوٹ جائے گی یہ یاد رکھیں کہ ضابطے اصول قوانین صداقتیں ہمیشہ زندہ رہنے والی اور باقی رہنے والی ہوتی ہے چاہے زمانہ ماضی ہو یا حال ہو یا مستقبل ہو قدرت کے اصول بدلتے نہیں فطرت کے اصول اپنی جگہ قائم دائم رہتے ہیں اب چاہے وہ محمد شاہ رنگیلا ہو یا واجد علی پیا ہو یا اج کے دور کے فاسق و فاجر حکمراں جو بھی دنیا کے سامنے دستاویز شرافت کو پہاڑ کر اس کی دھجیاں بکھیرے گا ظلم کی چادر تانے گا فطری اصولوں کو پامال کرے گا ظلم و زیادتی سے پیش ائے گا اس کی حکومت تہس نہس ہو جائے گی دیر سویر سے ہی کیوں نہ ہو اس لیے سپر پاور ہونے کے گھمنڈ میں اور اپنی نہ ماننے والے نہتے فلسطینیوں کے ساتھ انکل سام اور اس کی ناجائز اولاد زائنیٹک genetic اسرائیل اگر طاقت و قوت کے نشے میں ظلم و برکمر بستہ ہے تو اس کو یقینا ایسی ہی وارداتوں سے پالا پڑے گا 
یہ حقیقت ہے کہ مملکتوں کو سب سے زیادہ نقصان دہرے رویے اور دہرےمعیار سے پہنچتا ہے جیسا کہ اج مسلم مملکتیں خصوصا او ائی سی o i c اور عرب حکمراں فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں
جب کوئی حکمرا یہ کہہ دے کہ وہ اچھے اور مہذب اور با اصول لوگوں کو حکومت کے کاروبار سونپنا چاہتا ہے تو اسے یہی کرنا چاہیے اگر وہ اپنے صوبے دارو ں اور حاشیہ برداروں کے کہنے میں اکر انہی گرگوں کو ملک پر مسلط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے حکمرانوں کے زمانے میں بھی حکومت پر فائز رہیں اور عوام انہیں ناپسند کرتے ہیں تو اللہ کا قانون اسے معاف نہیں کرے گا 
سیاست ایک دینی علم ہے جب کسی مملکت کے نظم و نسق کی بات ہوتی ہے تو یہ اصل میں مملکت کے عوام کے ظاہر و باطن کی بات ہے۔ سیاست کا ماخذ ہمیشہ سے دینی احکام رہے ہیں سیاست کی داغ بیل ڈالنے والے بھی اللہ کے پیغمبر ہیں اج بھی دنیا کے کسی خطے کی کسی بڑی یا چھوٹی مملکت کو لے لیجئے اس کے اصول و قوانین کی چھان بین کیجئے تو ایک ہی بات سامنے ائے گی ان کا مقصد اس مملکت کے عوام کے ظاہر و باطن کو ٹھیک کرنا ہے انسان مل کر رہنے کا عادی ہے اس لیے اسلام نے خاص طور پر امور سیاست پر توجہ دی ہے 
دین اور نظام دین کو غالب کرنے کے لیے نبی اخر الزماں کو مدینے میں ایک مملکت قائم کرنا ضروری تھا تاکہ دنیا کے سامنے ایک نمونہ ا جائے بلبن نے اپنی اولاد سے کہا کہ اخری اور چوتھی بات یہ ہے کہ۔ حکمراں کو چاہیے کہ وہ عدل سے کام لے! ما تحتوں کی کار گزاری کا سختی اور انصاف سے جائزہ لیتا رہے تاکہ ملک سے ظلم و ستم کا نام و نشان مٹ جائے اور اس کی حکومت مضبوط ہوتی رہے ممکن ہے اس کے کارندوں میں کئی ایسے لوگ ہو جو ظالم خائن بدقماش بدمعاش سود خور رشوت خور ہوں اور اسے پتہ نہ چلے 
تاریخ اصل میں دوسروں کے تجربات کی کہانی ہے فراست اور بصیرت یہ ہے کہ ادمی دوسروں کے مشاہدات سے فائدہ اٹھائے

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ