"زبان اور شناخت: کلام کا سفر، وجود کی پہچان" (حتمی ایڈیشن)۔ ازقلم: ڈاکٹر نسرین فرحت صدیقی۔

"زبان اور شناخت: کلام کا سفر، وجود کی پہچان" (حتمی ایڈیشن)۔ 
ازقلم: ڈاکٹر نسرین فرحت صدیقی۔

انسانی تہذیب کے اسیرِ حیرت ہونے کا سب سے گہرا تجربہ اُس لمحے ہوتا ہے جب ہم سمجھتے ہیں کہ زبان محض حروف کی رقصندگی نہیں، بلکہ ہمارے شعور کی پہلی دھڑکن ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں فرد اپنی ذات کو دیکھتا ہے، قوم اپنی روایت کو پہچانتی ہے، اور تہذیبیں اپنے عروج و زوال کے قصے سناتی ہیں۔ مادری زبان کی یہ سحر انگیزی کسی شاعر کے تخیل کا کرشمہ نہیں، بلکہ نفسیات، لسانیات اور تاریخ کے سنگم پر کھڑی ایک سائنسی حقیقت ہے۔  
جب کوئی بچہ اپنی ماں کی گود میں پہلا لفظ کہتا ہے، تو وہ محض ایک لفظ نہیں سیکھ رہا ہوتا۔ وہ دراصل اپنے ذہن کے لیے ایک نئی کائنات تعمیر کر رہا ہوتا ہے۔ لیو وائگوٹسکی کے الفاظ میں، یہ وہ لمحہ ہے جب "فطرت کی آوازیں" انسانی شعور میں ڈھل کر ایک ایسے ادراکی نظام میں تبدیل ہوتی ہیں جو دنیا کو پرکھنے، سوال کرنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں سیکھی گئی زبانیں چاہے کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہوں، وہ ذہن کی اس گہرائی تک نہیں اتر پاتیں جہاں مادری زبان نے اپنے بیج بو دیے ہیں۔ روسی زبان میں نیلے رنگ کے دو الگ الفاظ (goluboy اور siniy) کا وجود اس بات کی زندہ مثال ہے کہ زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ادراک کی معمار ہے۔ یہاں تک کہ رنگوں کو پہچاننے کی رفتار بھی لسانی ساخت سے متاثر ہوتی ہے، ایک ایسی حقیقت جو سپیر-ورف کے نظریے کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کرتی ہے۔  
تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو زبان کی یہی سحر قوموں کے مقدر کو بدلتی نظر آتی ہے۔ جب انیسویں صدی کے آخر میں ایلیعزر بن یہودا نے عبرانی کو زندہ کرنے کا عزم کیا تو وہ محض ایک زبان کو نہیں، بلکہ یہودی قوم کی اجتماعی روح کو بچا رہے تھے۔ آج عبرانی اسرائیل کی سرکاری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تہذیبی علامت ہے۔ اسی طرح کیٹالونیا کی سرزمین پر فرانکو کی آمریت کے تاریک دور میں دبائی گئی کیٹالان زبان نے جمہوریت کی بحالی کے بعد تعلیم اور میڈیا کے ذریعے ایک نئی زندگی پائی۔ یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ زبان کی بحالی دراصل شناخت کی بازیابی کا عمل ہے۔  
لیکن جب زبان کو سیاست کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس کے اثرات صرف لسانی نہیں رہتے۔ بھارت میں اردو بولنے والے 5 کروڑ افراد کی زبان آج تعلیمی اداروں سے محروم ہو رہی ہے۔ بھارتی وزارت تعلیم کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق، اردو میڈیم اسکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کی شرح میں گزشتہ دہائی میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ کشمیر کے ایک سرکاری اسکول کا وہ طالب علم جو اردو میڈیم سے انگریزی میں منتقل ہونے پر تعلیمی صلاحیتوں میں 40 فیصد کمی کا شکار ہوا، یا حیدرآباد کا وہ نوجوان جو اپنی مادری زبان میں سائنسی اصطلاحات کے فقدان کی وجہ سے یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور ہوا,یہ صرف فرضی مثالیں نہیں، بلکہ ذہنوں کی موت کے المناک منظر ہیں، جو اردو معاشرے میں عام ہوتا جا رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔  
عصرِ حاضر کے ڈیجیٹل طوفان نے اس المیے کو اور گہرا کر دیا ہے۔ گوگل ٹرانسلیٹ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، اردو ترجمے میں 30 فیصد غلطیاں ثقافتی باریکیوں کے ناقص تجزیے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ جبکہ جنوبی کوریا نے اپنی زبان کے ڈیجیٹل تحفظ کے لیے سیول نیشنل یونیورسٹی کے ساتھ مل کر ایک ایسا AI ٹول تیار کیا ہے جو 85 فیصد کورین مواد کو محفوظ کر چکا ہے۔ یہ فرق بتاتا ہے کہ ٹیکنالوجی کو مقامی زبانوں کا اتحادی بنانے کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ایک نوجوان نے "اردو کے لیے ڈیجیٹل جنگ" کے نام سے ایک مہم چلا کر صرف دو ماہ میں 50 ہزار نوجوانوں کو کلاسیکل شاعری سے روشناس کرایا,اور ان میں سے 78 فیصد نے اردو کو اپنی ڈیجیٹل گفتگو کا حصہ بنایا۔ یہ وہ اختراعی کوششیں ہیں جو زبان کو صرف زندہ نہیں رکھتیں، بلکہ اسے نئی نسل کی سانسوں میں شامل کر دیتی ہیں۔  
آخر میں، یہ سوال محض ایک زبان کے تحفظ تک محدود نہیں۔ یونیسکو کی 2022 کی رپورٹ 
The Atlas of Endangered Languages 
کے مطابق، ہر دو ہفتے میں ایک زبان کے ختم ہونے کا مطلب ہے کہ انسانیت اپنی فکری دولت کا ایک خزانہ کھو دیتی ہے۔ اردو کا معاملہ اس لیے منفرد ہے کہ یہ صرف ایک زبان نہیں، بلکہ برصغیر کی گنگا جمنی تہذیب کا آخری شاہکار ہے جو فارسی کی شائستگی، سنسکرت کی حکمت اور مقامی بولیوں کی رنگینی کو سموئے ہوئے ہے۔ جیسے دریائے نیل کے کنارے قدیم مصری تحریریں ہمیں زمانوں کے سفر پر لے جاتی ہیں، ویسے ہی اردو کی ہر غزل، ہر نثر ہمیں اپنی تاریخ کے اسرار سے روبرو کراتی ہے۔ زبان کی موت دراصل تہذیب کی موت ہے،اور اسے بچانا محض لسانی ذمہ داری نہیں، بلکہ انسانی وقار کے احترام کا سبق ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔