آزادیِ نسواں – کھوکھلے نعروں کی تباہ کاریاں(ابرارالحق مظہر حسناتی)قسط:5
آزادیِ نسواں – کھوکھلے نعروں کی تباہ کاریاں
(ابرارالحق مظہر حسناتی)
قسط:5
یہ دنیا تضادات کی دنیا ہے۔ یہاں آزادی کے نام پر غلامی بیچی جاتی ہے، انصاف کے نام پر استحصال ہوتا ہے، اور ترقی کے نام پر پستی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ جو چیز جتنی پرکشش دکھائی دیتی ہے، عموماً حقیقت میں اتنی ہی کھوکھلی ہوتی ہے۔ عورت کی "آزادی" بھی ایسے ہی ایک خوبصورت دھوکے کا شکار ہے، جس کے تحت اسے چمکدار خواب دکھا کر ایک ایسی راہ پر دھکیل دیا گیا ہے جہاں اس کا وقار، اس کی عفت، اور اس کی فطرت سب کچھ داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔
یہ سوال ہمیشہ سے موجود ہے کہ:
کیا عورت کی اصل آزادی اسی میں ہے کہ وہ اپنی فطرت سے بغاوت کرے؟
کیا اس کی ترقی اسی میں ہے کہ وہ اپنے جوہرِ نسوانیت کو دفن کرکے مردوں کی دنیا میں اس کی نقل کرے؟
کیا اس کا احترام اسی میں ہے کہ وہ اشتہارات، فلموں، اور بازاروں میں نیلام کی جائے؟
یہی وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کی تلاش میں ہمیں تاریخ، فلسفہ، اور سماجیات کی گہرائیوں میں جانا ہوگا، تاکہ ہم جان سکیں کہ "عورت کی آزادی" کے نام پر اس کے ساتھ کیا ظلم کیا گیا ہے، اور اس ظلم کو کیسے "ترقی" کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔
فیمینزم – ایک نظریاتی فریب
جدید فیمینزم کی تحریک کا آغاز یورپ میں ہوا، جب صنعتی انقلاب نے ساری دنیا کی معیشت کا رخ موڑ دیا۔ عورت، جو صدیوں سے خاندان کا مرکز تھی، اب کارخانوں کی مشین بننے پر مجبور کی گئی۔ یہ عمل محض ایک "اتفاق" نہیں تھا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک سوچی سمجھی چال تھی، جس کا مقصد سستی لیبر پیدا کرنا تھا۔
عورت کو کہا گیا:
"گھر میں رہنا تمہاری غلامی ہے، باہر نکل کر نوکری کرنا تمہاری آزادی ہے!"
یہ وہ سب سے بڑا دھوکہ تھا جسے جدید دور میں "عورت کی ترقی" کا نام دیا گیا۔ اس تحریک نے کئی تضادات کو جنم دیا:
ایک طرف کہا گیا کہ عورت کو برابری چاہیے، مگر حقیقت میں اسے مساوات نہیں بلکہ مردوں کی تقلید پر مجبور کیا گیا۔
ایک طرف کہا گیا کہ عورت کو خود مختاری دی جائے، مگر حقیقت میں اسے ایک کارپوریٹ غلام بنا دیا گیا۔
ایک طرف کہا گیا کہ عورت کو آزادی دی جائے، مگر اس آزادی کے نتیجے میں وہ گھر اور خاندان سے محروم ہو گئی۔
یہ تضادات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جدید فیمینزم درحقیقت عورت کی آزادی کے بجائے، اس کے حقیقی استحصال کا دوسرا نام ہے۔
"میرا جسم، میری مرضی" – بے راہ روی کا نیا جواز
یہ نعرہ جو بظاہر عورت کی خودمختاری کی علامت سمجھا جاتا ہے، درحقیقت سب سے زیادہ نقصان دہ ہتھیار ہے جو عورت کے خلاف استعمال کیا گیا۔
یہ درست ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی پر حق حاصل ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان جو چاہے کرے، بغیر کسی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کے؟
"میرا جسم، میری مرضی" درحقیقت سرمایہ دارانہ ذہنیت کا پیدا کردہ نعرہ ہے، جو عورت کو "مارکیٹ پروڈکٹ" میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
پہلے عورت اپنے والد، بھائی، شوہر، یا بیٹے کے زیرِ کفالت ہوتی تھی، جو اس کی عزت اور حفاظت کرتا تھا۔
آج وہ ایک کارپوریٹ مشین کے ہاتھوں میں ہے، جہاں اس کا جسم، اس کی شخصیت، اور حتیٰ کہ اس کی عزت بھی خرید و فروخت کی چیز بن چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں میں عورت سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے، سب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے، اور سب سے زیادہ بے سکونی کی حالت میں ہے۔
عورت کی معاشی آزادی – حقیقت یا دھوکہ؟
کہا جاتا ہے کہ اگر عورت معاشی طور پر خودمختار ہو جائے، تو وہ آزاد ہو جائے گی۔ مگر یہ بات مکمل سچ نہیں، بلکہ ایک اور دھوکہ ہے۔
معاشی خودمختاری کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت ہر قیمت پر نوکری کرے، چاہے اس کی عزت اور وقار کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
معاشی خودمختاری کا مطلب یہ بھی نہیں کہ عورت اپنی فطری ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈال کر مرد کی طرح کارپوریٹ غلام بن جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشی آزادی صرف اسی وقت حقیقی آزادی بن سکتی ہے جب وہ عورت کے فطری تقاضوں اور اس کے وقار سے ہم آہنگ ہو۔
خاندانی نظام کی تباہی اور معاشرتی انحطاط
یہ "نسوانی آزادی" کے کھوکھلے نعرے درحقیقت خاندانی نظام کی جڑیں کاٹنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
جب عورت گھر سے نکلی، تو بچے بے راہ روی کا شکار ہونے لگے۔
جب عورت نے ماں کے کردار کو ثانوی حیثیت دی، تو نسلیں تباہ ہو گئیں۔
جب عورت نے خاندان کی ذمہ داریوں سے انکار کیا، تو پورا معاشرہ اخلاقی بحران میں چلا گیا۔
یہ حقیقت آج کے مغربی معاشرے میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں شادی کا تصور ختم ہو رہا ہے، طلاق کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے، اور عورت سب کچھ حاصل کر کے بھی تنہا ہے، بے سکون ہے، اور غیر محفوظ ہے۔
حقیقی آزادی کہاں ہے؟
اگر عورت کو واقعی آزادی چاہیے، تو اسے کھوکھلے نعروں سے نکل کر حقیقی نسوانیت کی طرف واپس آنا ہوگا۔
حقیقی آزادی وہی ہے جو اسلام نے دی:
جہاں عورت کو عزت دی گئی، مگر اس پر غیر ضروری بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
جہاں اسے حقوق دیے گئے، مگر اس کی فطرت کے مطابق۔
جہاں وہ ماں، بہن، بیٹی، اور بیوی کی حیثیت سے محترم ہے، اور ساتھ ہی اپنے علمی، فکری، اور روحانی سفر میں آزاد ہے۔
آج اگر عورت واقعی آزادی چاہتی ہے، تو اسے اسلام کے اصولوں کی طرف واپس آنا ہوگا، کیونکہ یہی اصول اس کی عزت، اس کی بقا، اور اس کی فطرت کے سب سے قریب ہیں۔
Comments
Post a Comment