"جی ایس ٹی سے ہوتا ہوا بسکٹ: اے ایک بے ظالم تجزیہ"ازقلم : ابرارالحق مظہر حسناتی۔
"جی ایس ٹی سے ہوتا ہوا بسکٹ: اے ایک بے ظالم تجزیہ"
ازقلم : ابرارالحق مظہر حسناتی۔
اربابِ ذوق و دانش کے انوکھے سونچکے۔
(رقم:۳)
یہ بسکٹ، جو کبھی چائے کی پیالی کے کنارے آرام دہ انداز میں رکھا جاتا تھا، اب ایک لمبے، پیچیدہ، اور ظالمانہ سفر سے گزر کر ہماری پلیٹ میں آتا ہے۔ یہ صرف آٹا، چینی، اور تیل کا مرکب نہیں، بلکہ اس پر کئی ٹیکسوں، پالیسیوں، اور سرکاری معیشت کے بوجھ کی تہیں جمی ہوئی ہیں۔ ایک عام آدمی کے چائے کے ساتھ بسکٹ کھانے کا عمل، جو کبھی محض ایک سادہ سی خوشی تھی، اب جی ایس ٹی کے اعداد و شمار میں کہیں الجھ کر رہ گئی ہے۔
کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ معاشروں میں اشیاء سستی اور آسان ہوا کرتی ہیں، مگر یہاں، جہاں ترقی کے جھنڈے گاڑے جا رہے ہیں، ایک عام مزدور اپنی چائے کے ساتھ بسکٹ لینے سے پہلے دس بار سوچتا ہے۔ بسکٹ، جس کی قیمت کبھی چند پیسے ہوا کرتی تھی، آج اتنی ہو چکی ہے کہ گلی کے چائے والے کے ہوٹل میں بیٹھے مزدور، ڈرائیور اور ریڑھی بان صرف چائے پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے سامنے رکھی ہوئی شیشے کی جار میں سجائے بسکٹ یوں لگتے ہیں جیسے کسی نایاب چیز کی نمائش ہو رہی ہو—دیکھنے کی اجازت ہے، مگر ہاتھ لگانے کی نہیں!
یہ سب کچھ کب شروع ہوا؟ شاید اس دن، جب معیشت کے اعلیٰ دماغوں نے ٹیکس کے ایسے جال بچھائے کہ عوام کی روزمرہ کی خوشیاں بھی ان کے قابو میں آ گئیں۔ پہلے آٹے پر ٹیکس، پھر چینی پر، پھر گھی پر، پھر بسکٹ بنانے کی مشین پر، پھر پیکنگ پر، پھر دکان پر، اور آخر میں، خریدنے والے کی جیب پر۔ یوں، بسکٹ ایک فیکٹری سے نکل کر صارف تک پہنچتے پہنچتے ایک ایسی قیمتی شے بن چکا ہے کہ اس پر اب "لگژری آئٹم" کا شبہ ہونے لگا ہے۔
ایک طرف ٹی وی اسکرین پر وہ معزز ماہرینِ معیشت بیٹھے ہیں جو کہتے ہیں کہ "یہ سب ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے"، اور دوسری طرف، وہ عام آدمی ہے جو بسکٹ خریدتے وقت قیمت سن کر چپ چاپ اسے واپس رکھ دیتا ہے۔ ترقی اور عوامی زندگی میں یہ تضاد ایسا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ اصل ترقی کس کی ہو رہی ہے—ملک کی یا مخصوص طبقے کی؟
اور بسکٹ کے سفر کا یہ المناک باب صرف معیشت تک محدود نہیں۔ یہ ایک ایسی سماجی حقیقت بھی بن چکا ہے جسے ہم روز جیتے ہیں۔ ایک بچے کی معصوم آنکھوں میں جھلکتا وہ خواب، جب وہ دکان کے شیشے کے پیچھے سجے چمکیلے بسکٹ کے پیکٹ کو دیکھتا ہے، اور اس کی ماں کا وہ جھوٹا وعدہ—"بیٹا کل لے لیں گے"—یہ معاشی بربادی کی وہ بے آواز چیخ ہے جو کوئی سننا نہیں چاہتا۔
کسی دور میں گلی کے نکڑ پر بیٹھے چائے نوش مزدور، سیاست اور دنیا کے حال پر گفتگو کرتے تھے۔ آج ان کی گفتگو کا محور صرف یہ رہ گیا ہے کہ "بھائی، سب کچھ مہنگا ہو گیا ہے!" ان کے سوالات میں وہی معصومیت ہے جو کسی ناواقف بچے کے ذہن میں ہوتی ہے، مگر جوابات دینے والا کوئی نہیں۔ کیونکہ جواب دینے والوں کے میزوں پر بسکٹ کی کمی نہیں، اور جوابات سننے والوں کے پیٹ میں بھوک کے سوا کچھ نہیں۔
پھر کوئی حکومتی ترجمان آئے گا، جو ہمیں سمجھائے گا کہ "جی ایس ٹی کی پالیسی معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔" کوئی ماہرِ معاشیات گراف دکھائے گا، جس میں ملک کی بڑھتی ہوئی ترقی کا نقشہ نظر آئے گا۔ مگر جو مزدور دن بھر کی مشقت کے بعد چائے کے ساتھ ایک بسکٹ کھانے کی خواہش رکھتا تھا، اس کے ہاتھ میں کوئی گراف نہیں، کوئی دلیل نہیں—بس ایک خاموشی ہے، اور وہی شیشے کی جار، جس میں بسکٹ اب بھی ویسے ہی سجے ہوئے ہیں، جیسے کسی ایسے خواب کی تعبیر، جو کبھی پوری نہیں ہوگی۔
Comments
Post a Comment