ہم سے پوچھو بات غزل کی ۔۔۔رفیق جعفر.شیواجی کالج اودگیر میں مقابلۂ بیت بازی کا کامیاب انعقاد ،رفیق جعفر،پروفیسر مقبول احمدمقبول اور پروفیسر حامد اشرف کے خطابات اور تقسیم انعامات۔
اودگیر : (محبوب شیخ کی خصوصی رپورٹ ) 24فروری ۔ شعبۂ اردو شیواجی کالج اودگیر اور مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی ممبئی ، کے اشتراک سے 22 فروری 2025 کو ڈگری کالج کے طلباوطالبات کے لیے بیت بازی کا مقابلہ منعقد کیا گیا۔ جس میں بی اے ، بی کام ، بی .ایس سی کے طلبا و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
پروگرام کی صدارت کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر آر ۔ ایم مانجرے نے کی ۔ معروف افسانہ نگار ، شاعر اور صحافی جناب رفیق جعفر (پونہ) نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی .مہاراشٹر اودے گیری کالج کے صدر شعبۂ اردو پروفیسر حامد اشرف بطور ریسورس پرسن حاضر رہے جبکہ معروف شاعر و نقاد پروفیسر مقبول احمد مقبول نے مقابلے کے جج کے فرائض انجام دیے۔ شہ نشین پر کسان شکشن پرسارک منڈل کے معتمد جناب پی ٹی شندے، صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر نداف محمد فیاض ، پروگرام کوآر ڈی نیٹر پروفیسر محبوب ثاقب کے علاوہ شعبہٴ مراٹھی کے پروفیسر این اے کدم اور شعبہٴ ہندی کے پروفیسر بالاجی سوریہ ونشی بھی جلوہ افروز رہے۔
شیخ افروز متعلم بے اے سال اول کی تلاوتِ کلامِ پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ ام بشریٰ متعلم بی ایس سی سال اول نے نعت شریف پیش کی۔مہمانوں کی گلپوشی کے بعد صدر شعبۂ اردو ڈاکٹرنداف محمد فیاض نے شعبۂ اردو کا تعارف پیش کرتے ہوئے ماضی میں شعبۂ اردو کی جانب سے منعقدہ دو قومی سیمیناروں کا حوالہ دیا اور شعبے کی کارکردگی پیش کی۔پروگرام کوآرڈی نیٹر پروفیسر محبوب ثاقب نے مقابلے کے اغراض مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس مقابلے سے طلبا میں شعرو ادب کے ذوق کی آبیاری کرنا مقصود ہے ۔اس کے بعد بیت بازی کا آغاز ہوا ۔بیت بازی کے لیے طلبا و طالبات کو اے، بی، سی اور ڈی کے نام سے چار گروپ میں تقسیم کیا گیا ۔پروفیسر شیخ محبوب نے بیت بازی شروع کرنے کے لیے بشیر بدر کے اس شعر
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
کو بطورِ آغاز مقابلہ پیش کیا۔ مقابلہ پُر جوش رہا ۔ چاروں گروپ کے طلبا و طالبات نے بہترین اشعار سناکر ناظرین سے خوب داد حاصل کی۔
مقابلے کے ختم پر پروفیسر مقبول احمد مقبول نے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزا الفاظ میں تعریف کی اور نتائج کا اعلان کیا ۔ اس مقابلے میں گروپ سی کو ونر اور گروپ بی کو رنر قرار دے کر مومنٹو اور سند سے نوازا گیا۔مقبول احمد مقبول نے اپنے خطاب میں شبعۂ اردو کے استاتذہ اور کالج کے پرنسپل صاحب کو مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا کہ شبعۂ اردو کی یہ پیشکش قابل ستائش ہے کیونکہ بیت بازی سے یادداشت تیز ہوتی ہے۔اس سے طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کو فروغ ملتا ہے۔مہمانِ خصوصی رفیق جعفر صاحب نے اردو زبان اور فلمی دنیا سے اپنی وابستگی کے واقعات سناکر کہا ہے کہ میں نے اپنی 78سالہ زندگی قلم سے روزگار حاصل کر کے بسر کی ۔گویا کہ میں قلم کا مزدور ہوں۔علم و قلم پر گرفت ہو تو روزگار کا حاصل کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ اس موقعے پر انھوں نے اپنی دو غزلیں بھی سنائیں۔ ان کی غزل کے اس شعر :
ہم سے پوچھو بات غزل کی
ہم کو ملی سوغات غزل کی
پر خوب داد حاصل کی ۔پروفیسر حامداشرف نے کہا کہ طلبا جتنی تیاری سے مقابلے میں حصہ لیتے ہیں مقابلہ اتنا ہی شاندار ہوتا ہے۔یہ مقابلہ بھی بڑا شاندار ہوا ہے۔اس مقابلے سے ایک روز قبل مضمون نویسی اور تقریری مقابلے بھی منعقد کیے گیے تھے۔اس پروگرام میں تینوں مقابلوں میں جیت حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو مسند پر تشریف فرما مہمانوں کے بدست سند و مومنٹو سے نوازا گیا۔تقریری مقابلے میں بی ایس سی سال اول کی طالبہ سیدہ فائزہ نےانعام اول ، بی اے سال سوم کی طالبہ پٹیل مسکان نے دوم جبکہ پنچنی شاذیہ متعلم بی اے سال سوم نےانعام سوم حاصل کیا۔
مضمون نویسی کے مقابلے میں شیخ ثنا بی اے سالِ سوم نے انعامِ اول،ثنا شفیع بی اے سالِ اول نے انعامِ دوم اور پٹیل نہاں علیم بی اے سالِ دوم نے انعامِ سوم حاصل کیا۔اس موقعے پر طلبا وطالبات کی جانب سے ترتیب دیا گیا دیواری رسالہ"نورس" کا مہمانوں کے ہاتھوں اجرا عمل میں آیا۔مہمانوں نے کالج میں قائم بزمِ ادب کےعہدے داران اور اراکینِ کاپھولوں کے ذریعے استقبال بھی کیا اور شعبۂ اردو کی سرگرمیوں کو سراہاتے ہوئے کہا کہ اس قسمکی سرگرمیاں ہمیشہ جاری رہنی چاہیے۔ایسی سرگرمیوں سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ ہترین اشعار سے بھرپورپروگرام کی نظامت بی اے سال سوم کی طالبات پٹیل مسکان اور پٹھان نازیہ نے کی۔ شیخ ثنا بی اے سالِ سوم کے شکریے پر اس تقریب کااختتامعمل میں آیا۔
Comments
Post a Comment