زکوة و صدقات.ازقلم ۔۔مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
زکوة و صدقات.
ازقلم ۔۔مولوی شبیر عبدالکریم تانبے۔
زکات یہ دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے اللہ تعالی نے جن حضرات کو مال و دولت عطا فرمایا ہے اور جنکا مال زکات کے نصاب کی مقدار ہو تو انکے ذمہ اپنے مال کی زکات نکالنا فرض و ضروری ہے لیکن جو لوگ صاحب نصاب ہونیکے باوجود اپنے مالوں کی زکات نہیں نکالتے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں انکے لئے بڑی وعیدیں سنائی گئی ہیں
اللہ تعالی فرماتے ہیں
اور جو لوگ گاڑ کے رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسکو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں سو انکو خوشخبری سنادے دردناک عذاب کی ( سورہ توبہ)
حدیث مبارکہ میں ھیکہ
جسکو اللہ تعالی مال دے پھر وہ اسکی زکات نہ دے تو قیامت کے دن اسکا مال گنجا آنکھوں کے پاس دو سیاہ نقطے والا سانپ بن جائیگا اور اسکے گلے کا طوق بنادیا جائیگا پھر وہ اسکے جبڑے کو گرفت میں لےکر اور کہیگا میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں ( بخاری)
زکات و صدقات یہ مالی تعاون کیساتھ عبادت کا بھی درجہ رکھتے ہیں اسطرح عام صدقات و خیرات کے مقابلے میں زکات کے مستحقین کی صراحت و وضاحت خود قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے اسلئے زکات کی ادائیگی کا فریضہ اسوقت ادا ہوگا جب زکات انھیں مستحقین کو دی جائیگی ورنہ زکات ادا نہیں ہوگی
اللہ تعالی فرماتے ہیں :
صدقات تو دراصل حق ہے فقیروں کا ، مسکینوں کا اور ان اہلکاروں کا جو صدقات کی وصولی پر مقرر ہوتے ہیں اور انکا جنکی دلداری مقصود ہے نیز انھیں غلاموں کے آزاد کرنے میں اور قرضداروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں کی مدد میں خرچ کیا جائے یہ فریضہ ہے اللہ تعالی کی طرفسے اور اللہ علم کا بھی مالک اور حکمت کا بھی مالک ہے ( سورہ توبہ)
اس آیت مبارکہ میں ان آٹھ قسم کے لوگوں کا تذکرہ ہے جو زکات کے مال کے مستحق ہیں یعنی انھیں لوگوں کو زکات دینے سے زکات ادا ہوگی ورنہ ذمہ میں باقی رھیگی
لیکن علماء کرام فرماتے ھیکہ آج کل عام طورپر فقراء مساکین مقروض اور مسافر یہ چار قسم کے افراد ہی پائے جاتے ہیں۔
اسطرح جس بستی میں زکات نکل رہی ہے اور اس بستی میں زکات کے مستحقین موجود ہوں تو دوسری جگہ زکات کا مال منتقل نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اسی بستی کے مستحقین میں زکات تقسیم کردینی چاہیئے اسلئے کی صحیحین کی روایت میں ھیکہ انکے امیروں سے زکات لے کر انھیں کے فقراء کو لوٹائی جائیگی اور ہر بستی کے مستحقین کی نگاہیں اور امیدیں اس بستی کی زکات سے وابستہ ہوتی ہیں۔ اگرچہ علماء کرام نے دوسری بستی میں زکات کے منتقل کرنیکی اجازت مرحمت فرمائی ہے فقیر اور مسکین کہ جنکی آمدنی اور کمائی کے ذریعے انکی اور انکے اہل و عیال کی ضرورتیں پوری نہیں ہورہی ہوں یا اطمینان کیساتھ پوری نہ ہوریی ہوں تو ایسے حضرات زکات کے مستحق ہیں
اسطرح جس آدمی نے اپنی جائز ضرورتوں کے خاطر قرض لیا ہو اور قرض کی ادائیگی کا وقت بھی آچکا ہو لیکن اسکے پاس اپنے قرض کی ادائیگی کی کوئی شکل و صورت نہیں ہے تو ایسے آدمی کو بقدر ضرورت زکات دینی چاہیئے
اسطرح جو فقیر و مسکین اپنی غربت کی وجہ سے اپنا کاروبار یا پیشہ شروع نہیں کر پارہا ہو تو اسکو اتنی مقدار میں زکات دینی چاہیئے جس سے وہ اپنا کاروبار یا اپنا پیشہ شروع کرکے اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے اور آئندہ زکات کا مستحق نہ رہے ورنہ سالوں زکات کی ادائیگی کے باوجود غربت اور محتاجگی دور نہیں ہوتی ہے اور زکات کے لینے والوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہی جاتی ہے
لیکن آج زکات کا زیادہ تر حصہ دینی اور عصری درسگاہوں میں ہی جاتا ہے اور اسمیں کوئی شک نہیں ھیکہ دینی مدارس ہی حفاظت دین اور اشاعت دین کے قلعے ہیں اور علماء کرام کے ذریعے ہی دین اسلام کی حفاظت و اشاعت ہوگی اسطرح عصری علوم میں مہارت یہ بھی آج قوم مسلم کے لئے وقت کی اہمیت و ضرورت ہے اسپر بھی خرچ ہونا چاہیئے۔ لیکن کیا اسکے لئے شادی و بیاہ خوشی و غمی کھیل و کود اور بڑی بڑی اور عالیشان عمارتوں کے بنانے میں یا دیگر غیر شرعی چیزوں میں جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے یا دیگر جو کچھ فضول خرچیاں کی جاتی ہیں اسپر کنٹرول کرکے ان تعلیمی درسگاہوں کی ضروتوں کو پورا نہیں کیا جاسکتا؟ کیا بعض مستحقین زکات کو محروم کرکے ہی ان اداروں کی ضرورتوں کو پورا کرنا افضل اور اجروثواب کا کام ہے ؟ علماء کرام و دیگر ذمہ داران کو اسپر غور و خوض کرنا چاہیئے اور صحیح اور درست کوئی لائحہ عمل بنانا چاہیئے تاکہ مستحقین تک زکات پہنچے اور زکات کا مقصد کہ قوم سے غربت کا خاتمہ یا اسمیں کمی ہوجائے حاصل ہوجائے
لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ جب بعض زکات کے مستحقین کو محروم رکھکر جن پر جن مقاصد کے خاطر زکات کو خرچ کیا جارہا ہے وہ مقاصد و برکات بھی حاصل نہیں ہو پارہے ہیں نہ علم وعمل میں پختگی اور نہ بلندہ اخلاق اور نہ وہ دینی و ایمانی غیرت و حمیت اور نہ وہ ایمانی و اسلامی جزبہ جو ہمارے اسلاف و اکابر حضرات میں ہوا کرتا تھا
اللہ تعالی صحیح طورپر مستحقین کو زکات ادا کرنیکی توفیق عطا فرمائے اور دینی و عصری درسگاہوں کی حفاظت فرمائے اور انکی ساری ضرورتوں کو پورا فرمائے۔
Comments
Post a Comment