میرے بچپن کی چھبیس جنوری۔کا لم نگار : ٹی این بھارتی۔

میرے بچپن کی چھبیس جنوری۔
کا لم نگار : ٹی این بھارتی۔ 

امی جان ! امی جان ! امی جان ! چھبیس جنوری کو چھبیس جنوری کیوں کہتے ہیں ؟ ارے میری نا دان بیٹی چھبیس جنوری تو صرف تم بچے لوگ کہتے ہو۔ دراصل یوم جمہوریہ کے دن کو ہی چھبیس جنوری کہتے ہیں۔ اس خاص دن کی بہت اہمیت ہے ۔ اچھا ! وہ جو بھالو کا ناچ دکھاتا ہے وہ جو بولتا ہے ناچ جھمورے ناچ ! وہ ہے یوم جھمو ر ہ ؟ آف توبہ ! ! اس بچی کے سوالوں کے جواب کیسے 
دوں ؟ ارے میری پیاری بیٹی درست بولو یوم جھمو رہ نہیں کہا میں تو یوم جمہو ریہ بتایا ہے اچھا اس دن کیا ہوا تھا ؟ چھبیس جنوری 1950 کو ہمارے ملک کا آئین لاگو ہوا تھا 
آئین مطلب آئینہ جس کو دیکھ کر آپ میک اپ کرتی ہیں امی نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہتیں ارے نہیں بھئی آئینہ نہیں میں آئین کی بات کر رہی ہوں ۔ ا ف امی جان مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ آئین کیا ہوتا ہے ؟ دیکھو بیٹی ہمارے ملک کو جب انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی تو ہمارے دیش میں سب کام ہماری مرضی سے ہونے لگے تو انگریزوں کو کیسے بھگا دیا ؟ امی مجھے گود 
میں بیٹھا کر سمجھانے لگتیں انگریزوں کے ساتھ ہمارے جانباز سپاہیوں نے جان کی بازی لگا دی ؟ جا ن کی بازی مطلب ؟ سمجھو انگریزوں کے ساتھ آزادی کی جنگ میں سینے پر گولی کھا کر شہید ہو گئے ۔ کسی نے جان گنوا دی کسی نے قلم کی لڑائی سے انگریزوں کو مار بھگایا ۔ میں نے حیران کن لہجہ میں پوچھتی امی جان یہ قلم کی لڑائی کیا ہوتی ہے ؟ قلم سے توکوئی نہیں مارا جا سکتا ۔ ارے بیٹی تم ابھی بہت کم سن ہو۔ اسکول میں بڑی جماعت کی کتابوں میں تم سب معلومات حاصل کرو گی۔ ا می نے ٹا لتے ہوئے کہا چلو جاو باہر جا کر کھیلو 
نہیں امی مجھے نہیں کھیلنا میں ضدی انداز میں بولی مجھے آئین کے با رے میں بتایئے آئین کیا ہوتا ہے ؟ امی جان نے میرے رخسار پر بوسہ دیا اور بولیں میری ضدی بیٹی غور سے سنو ۔ 
آئین اس طریقہ کار کا نام ہے جس میں آزادی کے بعد ہمارے ملک کے چنندہ تعلیم یافتہ لیڈروں نے مل جل کر ملک کی ترقی کے لئے اصول مرتب کیئے سب کو ان کی قابلیت کے لحاظ سے کام کرنے کی زمے داری دی گئ ۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سب کو انصاف دینے کے لئے قانون تیار کیا ۔ آئین سمجھو ایک کتاب ہے جس میں ملک و قوم کی ترقی اور بھلائی کے لئے کام کرنے کی باتیں شامل کی گیئں ۔ امی کل پچیس جنوری ہمارے اسکول میں ا پر وگرام ہے مجھے تو میڈم نے اندرا گاندھی بنایا ہے ۔ اچھا امی جان یہ تو بتائیے چھبیس جنوری پر اور کیا کریں گے ؟ ہاں یہ کام کا سوال ہے اس دن انڈیا گیٹ سے لال قلعہ تک پریڈ نکلے گی ہمارے ملک کے فو جی میلوں دور پیدل چلیں گے فو جی ٹینک نکلیں گے رنگ برنگی جھانکیاں نکلیں گی صدر ہند کو فوجی سلامی پیش کریں گے 
اسکول کے بچے کرتب دکھا ئیں گے 
امی جان میں تو پریڈ دیکھنے جاوں گی ۔ تم نہیں جا سکتی ہو بیٹی سردی بہت ہے بہت صبح جاگنا ہوگا سارے راستہ بند ہو جائیں گے ۔میں رونے لگی میں تو جاوں گی میں تو جاوں گی !!! مجھے نیا ڈریس بھی چاہیئے مہندی چو ڑی بھی چاہئے میں زو ر سے رونے لگتی دروازہ پر با بو جی کی دستک پر میں چونکہ جاتی ارے بیگم کیا مسئلہ ہے ؟ میری شہزادی کیوں رو رہی ہے ؟ دیکھئے ناں جی ! یوم جمہوریہ کی پریڈ دیکھنے کی ضد کر رہی ہے ۔ اتنی صبح کیسے جاگے گی ؟ کوئی بات نہیں بیگم آپ سارا معاملہ ہم پر چھوڑ دیجئے با بو جی میرے آنسو صاف کرتے اور گود میں اٹھا لیتے 
میری گڑیا پر یڈ دیکھنے ضرور چلے گی میں لے کر جاوں گا ۔ بابو جی میرے رخساروں پر بوسوں کی بارش کردیتے ۔ اور میں خوشی سے اچھلتی کو دتی گلی کے بچوں سے بتانے لگتی میں تو چھبیس جنوری کی پریڈ دیکھنے جاوں گی ۔ بڑا مزہ آئے گا ۔ 
آخر کار چھبیس جنوری کو صبح سویرے خود ہی جاگ جاتی تھی امی فجر کی نماز کے بعد مجھے نیا لباس کے ساتھ میرے ننھی منی کلائی میں ترنگہ چو ڑیاں پہنا دیتیں ترنگہ ربن سے دو چو ٹی باندھ کر گرم کو ٹ اور موزے جوتے پہن کر میں تیار ہو کر بابو جی کے ساتھ گلی قاسم جان سے ابراہیم کی ٹال دور حاضر میں جو مرزا غالب کی حویلی ہے سے گزرتے ہوئے ہندوستا نی دواخانہ سے بائیں ہاتھ مڑ کر بلیماران کی طرف رخ کر تی پنجابی پھاٹک گلی سودگران سے ہوتے ہوئے اسلامی سبیل تک پہنچ جاتی چاندی چوک کے نکڑ پر مو ٹے ڈنڈے دیکھ کر میں سہم سی جاتی اور بابو جی سے سوال کرتی یہ ڈنڈے کیوں لگائے ہیں ؟ بیٹا یہاں سامنے چوڑی سڑک سے کھڑے ہو کر ہم آرام سے پریڈ دیکھ سکتے ہیں ا د ھر کھاری باولی فتح پوری کی سائڈ سے پریڈ آئے گی لال قلعہ تک جائے گی اور میں زور زور سے اسکول کا ایک گیت گانے لگتی : 
آج آئی ہے چھبس جنو ری دیوس
میں سویا ہند جگا دوں گی 
اس دیش کے بچے بچے کو میں 
اندرا گاندھی بنا دو ں گی 
ذرا دیر میں رنگ بر نگے ڈریس میں سجے اونٹوں گھو ڑوں پر سوار فو جیوں کو دیکھ میں خوشی سے تالیاں بجانے لگتی ۔ پھر دو ر سے ٹینک اور ہتھیاروں سے لیس فو جیوں کو آتا دیکھ میں گھبرا جاتی بابو جی مجھے دلاسہ دیتے ڈرو مت بیٹا کہہ کر اپنے کندھوں پر بیٹھا لیتے اور میں ہاتھ ہلا کر فو جیوں کا استقبال کرتی ۔ کبھی شرارت سے بابو جی کی گود سے اتر کر ڈنڈ وں کے نیچے سے کٹرہ نیل کی طرف بھاگ جاتی پولیس والے چلا تے ارے رے رے یہ کس کی لڑکی ہے اس کو پکڑو اور کوئی پولیس والا مجھے اٹھا کر بابو جی کی گود میں پٹک دیتا ۔ پھر خوبصورت جھانکیاں دیکھ کر میں تالیاں بجاتی اور منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگتی ۔ جھانکی میں رقص کرتی ہوئی رقصا یئں مجھے بہت اچھی لگتیں میں بابو جی کا ہاتھ چھڑا کر جھانکی کے اندر جانے کی کوشش کرتی تو بابو جی فرسٹ ایڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے دیکھو وہ ڈاکٹر انکل تم کو سوئی لگا دیں گے ۔لو مونگ پھلی کھاو اور میں مونگ پھلی میں مگن ہوجاتی دھیرے دھیرے تمام جھا نکیاں نظروں سے اوجھل ہو جاتیں اور میں ٹا ٹا بائے بائے کہہ کر خوشی محسوس کرتی بابوجی سے بچکانہ سوال کرتی یہاں انڈیا گیٹ تو آیا نہیں امی جان نے تو کہا تھا انڈیا گیٹ سے پریڈ نکلے گی ارے بیٹا بس سوال بند کرو چلو اب گھر چلتے ہیں بابو جی ایک بار پھر مجھے گود میں اٹھا لیتے اور گھر آکر دستر خواں پر رکھے مٹر پلاو اور شلجم مولی کا پانی والا رائی اچار دیکھ میں جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھا کر سو جاتی۔ پھر رات میں ایک مرتبہ پھر امی جان مجھے لال قلعہ میدان لے کر جاتیں جہاں تمام جھانکیاں دیکھ کر میری با نچھیں کھل جاتیں قریب میں آرام فرما فو جیوں سے ہاتھ ملاتی اور چابدنی چوک کے دریبا بازار کے نکڑ سے دیسی گھی کی جلیبی کھاتی  
پھر گھنٹہ گھر حلوائی کی دکان سے دیسی گھی نمکین خریدتی اور فتح پوری سے کراچی حلوہ لینے کے لئے ضد کرتی ۔ چھینا حلوائی کے لڈو بھی ضرور خریدتی پھر 
رات میں تھک کر گہری نیند سو جاتی تو جناب یہ تھی میرے بچپن کی چھبیس جنوری جو آج تک میرے دماغ میں پیوست ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔