"ہنسی خوشی کے بہانے کہاں کہاں سے لائیں"تحریر : ابرارالحق مظہر حسناتی

"ہنسی خوشی کے بہانے کہاں کہاں سے لائیں"
تحریر : ابرارالحق مظہر حسناتی

میرے شہر کے لوگوں کا ذکر کیا جائے تو یہ لوگ اپنے مزاج، طرزِ زندگی، اور دلکش انداز میں نہایت انوکھے ہیں۔ ان کی محفلیں ایک داستان کا سا منظر پیش کرتی ہیں، جہاں ہر چہرے پر مسکراہٹ، ہر بات میں شوخی، اور ہر مکالمے میں لطف و رنگینی چھپی ہوتی ہے۔ یہ لوگ زندگی کو گویا ایک خوبصورت کھیل سمجھتے ہیں، جس میں ہر لمحہ قہقہوں میں لپٹا ہوا ہے، ہر جملہ طنز و مزاح کا پتہ لیے ہوئے ہے، اور ہر تبصرہ دلوں کو باغ باغ کرنے والا ہے۔
ان کی گفتگو میں ایسی تازگی اور روانی ہوتی ہے کہ جیسے دریا کی پرسکون لہریں اپنی ہنسی بکھیر رہی ہوں۔ ان کے ہنسی مذاق کے انداز بھی کمال کے ہیں۔ جب بھی دو یا دو سے زیادہ لوگ کسی محفل میں جمع ہوں، تو وہاں ایسا سماں ہوتا ہے جیسے چاندنی رات میں جگنو چمکنے لگے ہوں، اور فضا میں خوشبو سی بکھر جائے۔ ان کی باتوں میں لطافت، شوخی، اور دل لبھانے کا ایسا رنگ ہے کہ ہر ملنے والا ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ گویا یہ اپنی محفلوں کو فقط بات چیت کے لیے نہیں، بلکہ ایک ایسا ہنسی کا جہاں بنانے کے لیے سجاتے ہیں جہاں سب کی زندگی کا ذائقہ مزیدار ہو جائے۔
ان کی مجلسیں کبھی ہنسی کی پھوار، کبھی قہقہوں کے طوفان، اور کبھی ایسی معنی خیز باتوں کا مرکز ہوتی ہیں جو دل کو گدگدانے کے ساتھ ساتھ عقل کو حیران کر دیتی ہیں۔ یہ لوگوں کو باتوں میں ایسا اُلجھاتے ہیں کہ سننے والا اپنے غم بھول کر خود بھی اس شوخی کا حصہ بن جائے۔ یہاں ہر دل ایک خاص قسم کی خوشی اور اطمینان کے ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتا ہے، اور زندگی کے دکھوں کو بھلانے کا ایسا نسخہ ہاتھ آتا ہے کہ گویا اس شہر کے لوگوں نے ہنسی کی طاقت کو اپنی زندگی کا راز بنا رکھا ہے۔
اس لیے میرے شہر کے لوگ اپنے آپ میں ایک کہانی ہیں، اور ان کی محفلیں ایسی کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں جو نہ صرف دل کو بھاتی ہیں بلکہ روح کو بھی سرشار کر دیتی ہیں۔ ان کے چہروں کی مسکراہٹ اور باتوں کی شگفتگی ایک ایسا جادوئی اثر رکھتی ہے جس سے انسان اپنے دکھ درد بھول کر، فقط ہنسی کا ایک لمحہ چھین کر زندگی کو جینے کی نئی تحریک پا لیتا ہے۔
میرے شہر کے لوگوں کا وقت سے رشتہ خاصا دلچسپ اور نرالا ہے۔ یہ وقت کو گویا اپنی مرضی سے برتتے ہیں؛ گھڑی کی ٹک ٹک کا انہیں کم ہی احساس ہوتا ہے، اور اگر کہیں جانے کا وعدہ کر لیا، تو اس وعدے کا اپنا ایک قصہ ہوتا ہے۔ یہ کہتے ہیں "ابھی پہنچ رہے ہیں"، اور پھر ابھی کبھی کبھار گھنٹوں میں بدل جاتا ہے، کبھی پورا دن گزر جاتا ہے، لیکن "ابھی" کی حقیقت بدستور قائم رہتی ہے۔ وقت کی اس بے پروائی میں ان کے چہرے پر ایسی معصومیت جھلکتی ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
رشتے ناطے بھی ان کے لیے محض رسم سے زیادہ کچھ نہیں، بلکہ یہ انہیں نبھانے کا اپنا الگ سا طریقہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی تقریب میں شریک ہوتے ہیں تو گویا اپنے مخصوص انداز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہاں ہر چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے، لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے چھپے معنی کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ مجلسوں میں باتوں کے تانے بانے اس طرح سے بُنے جاتے ہیں کہ سننے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض قصے کہانیاں نہیں، بلکہ دلوں کی "اصلی" حالت کو ظاہر کر رہی ہیں۔ رشتہ داری کا یہ انداز گویا "مصلحتی" نوعیت کا ہے، جہاں ایک دوسرے سے ملنا بھی ہوتا ہے اور فاصلہ رکھنا بھی۔
اور یہ ادھار لینے دینے کا قصہ! یہاں قرض دینا اور لینا جیسے زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ جب کسی کو کچھ پیسوں کی ضرورت ہو تو الفاظ ایسے استعمال کیے جاتے ہیں کہ سامنے والا خود کو اس احسان میں بندھا محسوس کرنے لگتا ہے۔ ’’ارے بھائی، جو آپ کے پاس ہے، بس ہمیں چند دن دے دیں، پھر ہم آپ کو لوٹا دیں گے۔‘‘ اور اس وعدے کا وقت کبھی کبھار یوں بڑھتا ہے کہ جیسے کل کا قرض آج تک چلتا چلا جا رہا ہو۔ ادھار کا یہ نرالا فن اس قدر لطیف انداز میں ادا کیا جاتا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ بظاہر خوش رہتے ہیں۔
یہ سب چیزیں مل کر میرے شہر کے لوگوں کا ایک منفرد مزاج بناتی ہیں۔ ان کی بے پرواہی، رشتہ داری کا یہ مخصوص انداز، اور قرض کا دلچسپ معاملہ ان کی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ یہ لوگ گویا زندگی کے ہر پہلو کو ہنسی مذاق اور لطیف شوخیوں کے ساتھ جیتے ہیں، جہاں ہر لمحہ ایک نئے رنگ میں ڈھلتا ہے۔ ان کی باتوں اور انداز میں زندگی کو مسکراہٹوں میں باندھ دینے کا ہنر چھپا ہے، اور یہ ہنر انہیں دنیا میں ایک منفرد مقام بخشتا ہے۔
میرے شہر کے بزرگ بھی کمال کے ہیں۔ تجربات کا خزانہ سینے میں لیے بیٹھے ہیں اور یہ خزانہ جب باتوں میں کھولتے ہیں تو لگتا ہے جیسے پرانی کہانیوں کی کتاب کھل گئی ہو۔ ان کی نصیحتوں میں ایک ایسی گہری چاشنی اور شوخی ہے کہ جوان سنیں تو حیران، اور کبھی کبھار خاموشی میں چھپے ان کے طنزیہ جملے سن کر محسوس ہوتا ہے کہ بات صرف کہنے کے لیے نہیں کی گئی، بلکہ سننے والے کو ایک خفیہ پیغام دیا گیا ہے۔
بزرگ اپنی باتوں میں یوں فن کاری سے دوسروں پر طنز کرتے ہیں کہ کوئی سننے والا پلٹ کر کچھ کہنے کی ہمت نہیں کرتا۔ اُن کے ایک اشارے میں کبھی حکمت کی گہرائی چھپی ہوتی ہے تو کبھی ایسی لطیف چپقلش کہ جوان ایک طرف دل کو قابو میں رکھیں تو دوسری طرف احترام میں خاموش رہیں۔ ان کی باتوں میں عقل و دانش، شگفتگی و شوخی، اور ایک بظاہر معصوم مگر دل پر اثر انداز ہونے والا لہجہ ہوتا ہے، جس سے دل تو شاداب ہو جاتا ہے مگر کبھی کبھار اپنی کمزوری کا بھی احساس ہونے لگتا ہے۔
اور نوجوان؟ ان کا انداز بھی کسی سے کم نہیں۔ ان کی باتوں میں جذبات کی شدت اور طنز کی دھار ملتی ہے۔ یہ جب دل کی بات کو لفظوں میں ڈھال کر کہتے ہیں تو گویا سیاست کی گہما گہمی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان کے جملے میں یوں جوش و ولولہ ہوتا ہے کہ جیسے وہ دنیا کا سارا رنگ اپنی باتوں میں سمیٹ کر سامنے رکھ دینا چاہتے ہیں۔ ان کے قہقہے گونجتے ہیں تو محفلوں میں زندگی بھر جاتی ہے، اور ان کی باتوں میں وہ شوخی ہوتی ہے کہ بزرگ بھی محظوظ ہو کر مسکراتے رہتے ہیں۔      
یوں میرے شہر کے لوگ اپنے آپ میں مکمل کہانی ہیں۔ ان کی محفلیں قہقہوں، شوخیوں اور دلچسپ قصوں سے بھری ہوتی ہیں، جہاں ہر دل ہنسی کے ساتھ زندگی کی خوبصورتی کو سمیٹتا ہے۔ ان کے ہنر کا کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر لمحے کو نہایت نفاست سے جیتے ہیں، اور ان کی محفلوں میں وقت گویا ٹھہر جاتا ہے، جس میں ہر عمر کا اپنا رنگ ہوتا ہے، ہر نسل کا اپنا انداز، اور ہر بات میں مزاح و محبت کا نیا پہلو۔

Comments

Popular posts from this blog

پانگل جونیئر کالج میں نیٹ, جی میں کامیاب طلباء کا استقبال۔

شمع اردو اسکول سولاپور میں کھیلوں کے ہفتہ کا افتتاح اور پی۔ایچ۔ڈی۔ ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ نکہت شیخ کی گلپوشہ

رتن نیدھی چیریٹیبل ٹرسٹ ممبئی کی جانب سے بیگم قمر النساء کاریگر گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کو سو کتابوں کا تحفہ۔