فلسطین کے تناظر میں۔ بقلم۔۔۔۔ محمد ناظم ملی استاد جامعہ اکل کوا ں
فلسطین کے تناظر میں۔
بقلم۔۔۔۔ محمد ناظم ملی استاد جامعہ اکل کوا ں
وائٹ ہاؤس سے ہری جھنڈی ملنے کے بعد اسرائیل اپنے گریٹر خواب کو پورا کرنے کے لیے ہر اس کوشش کو بروئے کار لانا چاہتا ہے جس سے اس کے خواب کی تکمیل ہو اور اس کے لیے وہ ہر اس مزاحمت کو اور رکاوٹ کو اپنے راستے سے دور کرنا چاہتا ہے جو اس کے اس خواب کو پورا کرنے میں حائل ہو اور دنیا جانتی ہے کہ اس کے خواب کو پورا کرنے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ اس کے راستے میں 1948 کے بعد سے لے کر اج تک اگر کوئی ہے تو وہ فلسطینی عوام اور ان کی مزاحمت کار جماعتیں ہی رہی ہیں اور ان مزاحمت کار جماعتوں کو لے کر ہمیشہ عالمی طاقتیں کنفیوز رہی ہیں بلکہ انہوں نےدھوکہ دیا ہے جب جب بھی وہ اپنی مزاحمت کے لیے اپنی سے کوششیں بڑھاتے رہے ہیں تو انکل سام "امریکہ " اپنا دوغلا چہرہ لے کر فلسطینیوں کی پیٹھ تھپتھپانے کا کام کرتا رہا ہے اس میں کچھ مسلم ممالک اور ان کی اپنی سرکردہ جماعتیں بھی برابر کی شریک ہیں کبھی او ائی سی o I c اور عرب لیگ پر دبان ڈال کر ان کو بہلا یا جاتا رہا ہے اور یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہے کہ فلسطینی مزاحم کاروں کو امیدوں پر امید یں دلا دلاکر تاریخوں پر تاریخیں طے کر کر کے ان کو ہر بار دھوکہ ہی دیا جاتا رہا ہے اور پوری پلاننگ اور منصوبہ جات طریقے سے فلسطینی مزاحم کار جماعتوں کو ٹریریسٹ tere rest اور اسلامی اتنکواد کا نام دے کر دیگر ممالک سے ان کو اچھوت بنا دیا گیا ہے اس پورے معاملے میں پاس پڑو س اور اس کے قریبی عرب ممالک نے تو جو بے شرمی کا چولا پہن رکھا ہے اور جن کی بے غیرتی کی کوئی حد باقی نہیں رہیی ہے یہ تاریخی میں بے مثال ہے اور یہ تاریخ کا سب سے گھنونا جرم ہے مسلم ممالک اور خصوصا عرب ملکوں کا وہ تو اپنے عیش و عشرت میں مست مئے خواب ہیں اپنی رنگ رلیوں میں محو خانہ شباب ہے نہ ان کو کبھی کسی فلسطینی ننھے بچے یا کسی معصوم شیر خوار بچی کی اواز ان کے کانوں تک سنائی نہیں دے رہی ہے کوسوں دور بیٹھے بیٹھے مسلم و غیر مسلم سبھی ان کی اس بے بسی پر تڑپ رہے ہیں ان کے مظالم پر انگشت بدنداں ہیں ان کی بھوک پیاس کی تڑپ انسانیت اور مانوتا سے بھرے دل کو تڑپا رہی ہے مگر عربوں کی حس بیدار نہیں ہوتی ان کا مردہ ضمیر نہیں جاگتا ان کے وھن زدہ قلوب پر کیوں کر ان کے تڑپنے خون میں لت پت لاشوں کے ڈھیر کا اثر ہو سکتا ہے وہ تو اپنی خواب گاہوں میں عشرت کدوں میں مصروف اور منہمک ہیں مگر وہ یہ نہ بھولے کہ تاریخ ہمیشہ اپنے اپ کو دہراتی ہے جن پر یہ عرب ممالک تکیہ کر کے بیٹھے ہیں یہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہیں یہ مکار صیہونی مقتدرہ اور ان کے ہمنوا ممالک خصوصا انکل سام۔۔امریکہ۔۔اور ان کی پوری لابی lobby کا منشا اور مقصد واضح ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کا خواب iرض مقدس فلسطین کی سرزمین پر پورا ہو
یہ بھی دیکھنے میں ایا ہے کہ جب جب بھی مزاحمت کاروں کی طرف سے سخت افتاد پڑتی ہے اور ان کا جانی مالی نقصان ہونے لگتا ہے تو وہ سیس فائر ceasefire کا راگ الاپنے لگتے ہیں ویسے بھی امریکہ اور اسرائیل کی اگر اسٹریٹجی strategy کام کرنے کا طریقہ کار اپ دیکھیں گے تو وہ شروع ہی سے یہی کرتے ہیں کہ عام شہریوں کو زیادہ نشانہ بناتے رہے ہیں اور خفیہ سازشیں تو ان کی عادت ہیں جس کے لیے امریکہ اور اسرائیل میں مخصوص این جی او NGO موجود و مستعد ہیں اور اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کرتے نظر اتے ہیں جیسا کہ شہید اسماعیل ہانیہ اور دیگر سربراہوں کے ساتھ وہ کرتے رہے ہیں فلسطین ہو یا لبنان عراق ہو یا افغان ہر جگہ انہوں نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا اور ان کے انفراسٹراکچر infero structure کو ہی نشانہ بنایا ہے ان کی سوچ یہ ہے کہ اس طرح کر کے مخالفین کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرے اور ان کے ملک کی عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں مگر یہ انتہا ہی ناقص اور بونی سوچ ہے اس لیے کہ جنگ الات حرب و ضرب سے نہیں بلکہ حوصلوں سے لڑی جاتی ہے حوصلہ ہو تو غزہ کی تباہی سے بھی ہلاکت کی وارداتیں سامنے اتی ہیں جیسا کہ اج رافہ غزہ اور خان یونس اور ویسٹ بینک کے ملبو ں سے امید کی نئی کرنیں پھوٹ رہی ہیں اس طرح عوام کو نشانہ بنانے سے ان کی حکمتیں عملی یہی ہے کہ عوام مزاحمت کاروں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں مگر یہ بھی ممکن نہ ہو سکا خود غلط بود انچہ ماپنداشتیم سال بھر کی شدید بمباری کے باوجود نئے نئے بارود اسلحہ اور بموں کے استعمال کے باوجود فلسطینی عوام اور لبنانی عوام نے اے امریکہ اور اسرائیل کی سوچ کو غلط ثابت کر دیا ہے ان کے دانت کھٹے کر دیے ہیں الٹا انہوں نے جوابی کاروائی کرنا اور منہ توڑ جواب دینے کو اپنا لیا ہے اور کامیابی کے ساتھ جواب دے رہے ہیں اور اسرائیل کے اقتصادی اور انٹلی جنس intelligence مقامات اور اسلحہ خانوں اور فیکٹریوں factoriyo تک کو نشانہ بنایا ہے اسرائیل کے ائرن ڈوم iron Domکے سارے نظام کو معطل اور بے کار کر کے رکھ دیا ہے امریکہ ویسے تو مسلم ممالک اور خصوصا عربوں سے اپنا تعلق بنائے رکھتا ہے مگر جہاں فلسطین یا دوسرے اور ممالک کی بات اتی ہے تو وہ اسرائیل کے سامنے ناک رگڑتا رہتا ہے اور گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھنے والا صیہونی مقتدرہ اس پر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے بلکہ دیکھنے میں یہ بھی ایا ہے امریکہ خود اسرائیل کا غلام بنا ہوا ہے کئی ایسے مواقع ائے جب امریکہ کی باتوں کو اسرائیل نے سرے سے ٹھکرا دیا ہے اور وائٹ ہاؤس white House اس پر بجائے ناراض ہونے کے اس کی چاپلوسی میں لگ گیا یہی نہیں امریکہ ہر سال صیونیوں کو جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی technology سے لیس کر دیتا ہے اور عرب ممالک منہ تکتے رہ جاتے ہیں اج وقت ہے تاریخ کہیں اپنے اپ کو دہرا نہ لے عربوں نے ہوش کے ناخن لینا چاہیے کاش کہ عرب اندلس کو مد نظر رکھتے جہاں صرف ایک عیسائی ریاست نے اپس میں جوڑ جماو کر کے اندلس کی 800 سالہ مسلم حکومتوں کے جو رجواڑوں کی شکل میں قائم تھیں ایک ایک کر کے سب کو نگل گیا تھا۔ اور اسرائیل کا خواب یہی ہے
اس پوری جنگ میں جس کو اب ایک سال ہو گیا ہے او ائی سی oic اور عرب لیگ Arab league کا کوئی کردار نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عرب رجواڑے عیش و طرب میں مست مئےجام ہیں ان کے اپنے پاس تو اپنی خود کی فوج تک نہیں جو اپنا دفاع کر سکے یہ فلسطینی مزاحمت کار ہی ہیں جو اب تک برابر ڈٹے ہوئے ہیں اور دفاع کر رہے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو یقینا منظر نامہ کچھ اورہی ہوتا اور ممکن تھا گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو جاتا اور عربوں کو وہاں سے بے دخل کر دیا جاتا لیکن اللہ کی مہربانی ہے کہ اللہ نے فلسطینیوں کو حوصلہ بخشا ہے ایک چھوٹا سا علاقہ جس نے گریٹر اسرائیل کے خواب میں مضبوط سیندھ لگا رکھی ہے اب بھی وقت ہے دنیائے اسلام عرب ملکوں کو بیدار ہونے کے لیے ورنہ" جب چڑیا چک گئی کھیت پھر کیا ہوت" ویسے تو اللہ کے فضل و کرم سے فلسطینی رفتہ رفتہ کامیابی کی طرف گامزن ہیں اور دنیا اپنی انکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ ملبے کے ڈھیر سے بھی امید کی نئی کرنیں پھوٹ رہی ہیں جہاں تک سوال ہے فلسطینی کاز کی کامیابی کا تو اقوام متحدہ میں اس کو مستقل رکنیت مل گئی ہے اس کے علاوہ 120 ارکان کی اکثریت نے یہ بھی منظور کر لیا ہے اور اسرائیل کو کہا گیا ہے کہ 1967 میں قبضائ گئی ارض مقدس فلسطینی زمین کے علاقوں کو خالی کرنا ہوگا ہمارے ملک بھارت نے بھی صاف صاف لفظوں میں گہار لگائی تھی اور "اٹل جی" نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کی زمین سے اسرائیل کو نکلنا پڑے گا
حسن نصر اللہ کی شہادت پر عرب میڈیا میں خوشی کا اظہار کیا گیا ہے یہ بڑی قابل افسوس سچائی ہیے تف ہے ایسی سوچ پر مد خلی یہ سعودی فرقہ ہے یہ بڑا کٹر سلفی فرقہ ہے یہ اپنے علاوہ سب کو بد عقیدہ تصور کرتا ہے حتی کہ اور ماتریدیہ کو بھی بد عقیدہ سمجھتا ہے اور اسی فرقے نے شیعہ و سنی میں زیادہ تفرقہ پیدا کیا ہے اور کر رہے ہیں مگر ان کو سمجھنا چاہیے شیعہ سنی ہمارے اپنے گھر کا مسئلہ ہے یہاں تو یہ مدنظر رہنا چاہیے کہ ہمارا مقابلہ ایک ایسے خون خار درندے سے ہیں جس کے پیچھے درندوں کا ایک بڑا جھنڈ ہے اور یہ سب وہ ہیں جن کی ڈکشنرdictionary میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں اس کی نظر میں شیعہ سنی دونوں برابر ہے اس لیے اب عربوں اور مسلم ممالک نے کوئی متحدہ پلیٹ فارم platform اپنے دیری نہ دشمن کو سخت جواب دینا چاہیے اور فلسطینیوں کو کسی دوسرے کے سہارے بے یار و مددگار نہیں چھوڑنا چاہیے اج فلسطینیوں کے لیے ایران اٹھ کھڑا ہے تو عربوں کا اس طرح ساحل پر تماشہ بھی بن کر منہ تکتے رہنا کسی بھی طرف ٹھیک اور درست نہیں یہ ہے کہ رب مالک ایران کو تو خطرہ سمجھ رہے ہیں مگر اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں سمجھتے ہیں تو ایسی عقل و فہم اور ایسی سوچ پر
ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تاب خاک کاشغر
Comments
Post a Comment