افسانہ۔۔ "اظہار"ازقلم۔۔۔ مدثر خاکسار
افسانہ۔۔ "اظہار"
ازقلم۔۔۔ مدثر خاکسار
گرمی کی چھٹیاں ختم ہو گئی تھیں ۔۔ بڑے چچا اپنے گھر والوں کے ساتھ واپسی کی تیاری میں مصروف تھے ۔۔۔ دیو بھی اپنی چیزوں کو درست کرنے میں لگا ہوا تھا ۔۔ مگر اس بار شکنتلا چاہتی تھی کے دیو اب دوبارہ گاؤں نہ آئے ۔۔ اور گاؤں آئے بھی تو اس کے گھر پر نہ آ ۓ۔۔۔
وہ نم آنکھوں سے یہ تمام منظر دیکھ رہی تھی ۔۔ اور دل ہی دل میں اپنے آپ کو سزا سنا رہی تھی ۔۔
شکنتلا نے گاؤں میں آنکھیں کھولی اور کبھی اس کی آنکھوں نے اس کے گاؤں سے باہر کا منظر نہیں دیکھا تھا ۔۔ ہاں ۔۔۔مگر ان آنکھوں نے دیو کو دیکھا تھا ۔۔
اسے یاد نہیں کے اس نے دیو کو پہلی بار کب دیکھا ۔۔ بس اتنا یاد ہے کی ۔۔ ہر گرمیوں کی چھٹیوں میں اس کے گھر کے سامنے ایک بڑی سی کار آکر رکتی اور اس میں سے ۔۔ چند لوگ اترتے ۔۔ اور پھر گھر میں ہر دن عید اور ہر رات چاند رات ہوتی ۔۔۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد کار دوبارہ دھول اڑاتی ہوئی ۔۔ کہیں چلی جاتی ۔۔ اچانک ۔۔ صبح کی روشنی ۔۔رات کے سائے میں کہیں چھپ جاتی ۔۔ اور پھر دن اسی طرح گزرنے لگتے ۔۔
شکنتلا پھر دوبارہ اس کار کے آنے کا انتظار کرتی ۔۔
سال مہینوں میں اور مہینے دنوں میں گزرنے لگتے ۔۔
پھر گرمیاں آجاتیں ۔۔ اور اس گرمیوں کے ساتھ وہ کار بھی ۔۔ شکنتلا کو اپنے بڑے چچا اور بڑی چچی سے بڑی محبت تھی ۔۔۔مگر ایک جزبہ اور بھی اس کے دل میں نہ جانے کب سے اپنا گھر بنائے ہوئے تھا ۔۔ اس بات کا پتہ خود شکنتلا کو بھی نہ چل سکا ۔۔
شکنتلا کے بڑے چچا،چچی اور ان کا بیٹا دیو ۔۔ شہر میں رہا کرتے تھے ۔۔ بڑے چچا عرصے سے شہر کا پانی پی رہے تھے ۔۔ اب وہ شہری بابو کہلانے لگے تھے ۔۔ مگر ۔۔گاؤں کی مٹی جو کبھی بھلا نہ سکے ۔۔اسی وجہ سے شہر میں رہنے کے بعد بھی ہر گرمیوں کی چھٹیاں اپنے گاؤں میں آکر گزارتے۔ ۔۔۔
شکنتلا جب راتوں میں دادی کے پاس بیٹھ کر کہانیاں سنا کرتی اور اس کہانی میں جب کسی شہزادے کا نام آتا اس وقت شکنتلا تصور میں کار سے اترتے ہوئے شہزادے کو دیکھتی ۔۔ اور جھٹ سے شرما جاتی ۔۔ اسے نہیں پتہ تھا کی ۔۔ اس شہزادے کے تصور سے اسے کیا خوشی ملتی ہے ۔۔ بس وہ چپ چاپ اس شہزادے کے آنے کا انتظار کرتی رہتی ۔۔ اور جب کبھی وہ شہزادہ اس کے گھر میں اپنی کار سے اترتا ۔۔۔ اس وقت شکنتلا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا ۔۔ وہ گرمیوں کا ہر دن اس شہزادے کے ساتھ گزارتی ۔۔ اور اس کے ساتھ بہت سارے کھیل کھیلا کرتی ۔۔
دیو تھا بھی شہزادوں کے جیسا نازک ۔۔
دن یوں ہی گزرتے گئے ۔۔نہ جانے کتنی گرمیوں کی چھٹیاں آئی اور گزر گئی ۔۔ ہر گرمیوں میں بڑے چچا اپنے گھر والوں کے ساتھ آتے ۔اور گرمیوں کی چھٹی ختم کر کے واپس اپنے گھر لوٹ جاتے ۔۔ ۔۔
مگر اب شکنتلاوہ پہلی والی شکنتلا نہیں رہی ۔۔
اسے اپنے اندر تبدیلیاں محسوس ہونے لگیں تھیں ۔۔ اب وہ ہر کسی کے سامنے جانے سے جھجکتی ۔۔ گھر کے دولت کھانے میں اماں کا ہاتھ بٹایا کرتی ۔۔ گھر کے کاموں میں حصہ لیتی ۔۔ اور ساتھ ہی ساتھ پڑھائی بھی کیا کرتی ۔۔
.....................................................
گرمیوں کے دن قریب آگئے .... شکنتلا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔۔ وہ انجانے طور سے دن گنے لگی ۔۔ اس کے لیے یہ بچے ہوئے دن بڑے کٹھن تھے ۔۔
آخر شکنتلا کے لیے وہ دن آہی گیا ۔۔ صبح صادق کو ہی کار آکر دروازے پر رکی ۔۔اور اس کار سے بڑے چچا بڑی چچی اور دیو اترے ۔۔۔ ان کے چہروں سے بھاری تھکن ٹپک رہی تھی ۔۔ وہ لوگ فوراً ہی کمرے میں جا کر آرام کرنے لگے۔۔
شکنتلا کونے میں کھڑی ہو کر ۔۔ دیو کے چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔۔تھکن تو شکنتلا کو بھی تھی ۔۔اس اجالے صبح کی اندھیری رات کے چاروں پہر شکنتلا نے کروٹیں بدل بدل کر گزاری تھی۔
مگر دیو کو دیکھنے کے بعد اسے اپنی تھکن یاد ہی نہیں رہی ۔۔
وہ جلدی سے اماں کے ساتھ دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئی ۔۔ دوپہر کو کھانے کے وقت جب دیو کمرے سے باہر آیا ۔۔ شکنتلا نے شرمائی ہوئی نگاہوں کو دیو کی طرف اٹھایا ۔۔ وہ بھی اب پہلے سے بدل چکا تھا ۔۔ نکلتا ہوا قد، چھریرا بدن کے دیو کو دیکھ کر شکنتلا من ہی من میں شرمانے لگی ۔۔
کھانے سے فارغ ہوکر ۔۔ سارے لوگ آرام کرنے چلے گئے ۔۔ شکنتلا چھت پر سے کپڑوں کو بٹورنے چلی گئی اسی وقت دیو بھی اس کے پیچھے پیچھے آگیا ۔۔
اور شکنتلا کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا ۔۔ شکنتلا جیسے ہی پیچھے کی طرف موڑی ۔۔ اس کا سر دیو کے سینے سے جا ٹکرایا ۔۔ وہ جلدی سے دور ہٹ گئی۔۔۔ دیو کھڑا مسکرا رہا تھا ۔۔ شکنتلا کی نظریں دیو کے سینے پر گئی ۔۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ سینا اس کے سر کے آرام کے لیے بنایا گیا ہے
دیو وہیں کھڑا کھڑا شکنتلا سے باتیں کرنے لگا ۔۔ کافی دیر کے بعد دونوں نیچے آئے ۔۔
زندگی پھر چلنے لگی ۔۔
مگر اس بار شکنتلا کو زندگی کی یہ رفتار پسند نہ آئی ۔۔ وہ دنوں کو اپنی ملائم انگلیوں پر گنا کرتی ۔۔
اکثر دیو شکنتلا کے پاس آکر باتیں کیا کرتا ۔۔شہر کی ۔۔ اپنے کالج کی ۔۔ دوستوں کی ۔۔اور جب کبھی شکنتلا دیو کے منہ سے کسی لڑکی کا نام سنتی تو اس کے دل میں جلن کی لہر دوڑنے لگتی ۔۔گھر والے بھی جب ان دونوں کو یو باتیں کرتیں دیکھتے تو مسکرانے لگتے ۔۔ بڑی چچی کو ہی بس دیو کا ۔۔شکنتلا سے باتیں کرنا پسند نہیں تھا ۔۔ اور وہ جب بھی ان دونوں کو دیکھتیں ۔۔ دیو کو آواز دے کر اپنے پاس بلا لیتیں ۔۔ یا کسی کام کے لیے بھیج دیا کرتیں ۔
اکثر دیو باتیں کرتے کرتے شکنتلا کے قریب آجایا کرتا ۔۔
ایک روز تو وہ اتنی قریب آگیا کی شکنتلا کو یو محسوس ہوا جیسے دیو کی گرم سانسیں شکنتلا کے ٹھنڈے بدن پر چلنے لگی ہو ۔۔ شکنتلا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔۔ اس نے اپنے دل پر اس ڈر سے ہاتھ رکھ دیا کے کہیں وہ اوچھل کر دیو کے پاس نہ چلا جائے ۔۔
اس نے شرمائی ہوئی نگاہوں کو زمین میں گاڑ دیا ۔۔ شکنتلا کی نظریں زمین کو چیر کر اس اندر پیوست ہوگئی ۔۔ ۔وہ گھبرا کر کام کا بہانہ کرکے دیو کے پاس سے ہٹ گئی ۔۔
اس رات بھی شکنتلا کو ایک پل کے لیے نیند نہ آئی ۔۔
نہ جانے کتنی راتیں اس نے ایسے ہی جاگ کر گزاری تھی ۔۔مگر آج کی رات شکنتلا کے دل کا عجب حال تھا ۔ وہ بار بار مچل کر اس کے سینے سے باہر نکل جانا چاہتا تھا ۔۔ اور کھلے آسمان میں کہیں گم ہو جانا چاہتا تھا ۔۔ اسے پرانی ایک بات یاد آگئی۔۔۔
بچپن میں ایک بار کھیل کھیل میں دیو نے شکنتلا سے کہا تھا کی وہ پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرے گا ۔۔!! اس بات کے بعد شکنتلا کو پڑھائی سے لگاؤ ہوگیا ۔۔ اور من لگا کر وہ پڑھنے لگی ۔۔
اب وہ میٹرک کا امتحان دینے والی تھی ۔۔ اس کے آگے کی پڑھائی گاؤں میں نہیں تھی ۔۔ اس بات سے شکنتلا کو بڑا افسوس ہوا ۔۔کے اب وہ میٹرک کے بعد پڑھ نہیں پائے گی ۔۔
صبح کی ا
اذان نے اسے سلا دیا ۔۔۔ آج صبح دیر سے اٹھنے کی وجہ سے ۔۔ اماں نے اسے ڈانٹا ۔۔ مگر وہ اس ڈانٹ سے دور خلا میں دیو کے سینے پر سر رکھے زندگی اور موت سے بے پرواہ ۔۔ سکون سے لیٹی ہوئی تھی ۔۔
آج وہ خوش تھی ۔۔ اور خوشی سے زیادہ شرم اس کے چہرے پر دیکھائی دیے رہی تھی ۔۔
دوپہر کے کھانے کے بعد دیو پھر اس کے کمرے میں آکر باتیں کرنے لگا ۔۔
باتیں کرتیں کرتیں اچانک اس نے شکنتلا کا ہاتھ تھام لیا ۔۔ اور اپنی آنکھوں کو بڑی کر کے شکنتلا کی طرف دیکھنے لگا ۔۔ شکنتلا اسکی آنکھوں کے اندھیرے میں مستقبل کی روشنی دیکھنے لگی ۔۔ایک پل میں ہی اس روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئی۔۔وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگی ۔۔ تب ہی دیو اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کی مضبوطی میں جکڑ کر ۔۔ کہنے لگا "کیا تمہیں مجھ سے کچھ کہنا ہے شکو"
شکنتلا ایک دم سے گھبرا گئی ایسا لگا جیسے اس کی چوری پکڑ ی گئی ہو ۔۔ اور عدالت میں اسے اپنے جرم قبول کرنے کے لیے کہا جا رہا ہو۔۔۔ اس کے ماتھے پر پسینے کی ایک لکیر ابھر گئی ۔۔ "جی میں آپ کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہو ۔۔" ۔۔۔ یہ بات شکنتلا نے دیو سے نہیں کہی ۔۔۔۔ دیو اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کررہا تھا ۔۔دیو نے شکنتلا سے پھر پوچھا ۔۔ کہوں!! کچھ کہنا ہے ؟"
"مجھے اپنے ساتھ لے چلئے " یہ بات بھی شکنتلا دیو سے نہ کہہ پائی
شکنتلا گھبرائی ہوئی اپنی نظروں کو چاروں طرف گھما رہی تھی ۔۔
اسی وقت دیو کو ماں نے آواز لگائی اور وہ باہر چلا گیا ۔۔
شکنتلا کانپنے لگی ۔۔اور جلدی سے دروازہ بند کر کے خود کو رزائی سے ڈھانک دیا ۔۔ اتنی گرمی کے باوجود اسے بہت تھنڈ محسوس ہونے لگی تھی ۔۔
شام ہوتے ہوتے اس کا بدن بخار سے تپنے لگا ۔۔ رات کو جب وہ اماں کے ساتھ دوا لانے گئی ۔۔ اس وقت دیو بھی ان لوگوں کے ساتھ تھا ۔۔ راستے میں دیو نے کئی بار شکنتلا کو۔چھیڑا ۔۔ مگر وہ ۔۔ نظریں جھکائے چلتی رہی ۔۔
صبح کو اسے اپنی طبیعت میں کچھ افاقہ محسوس ہوا ۔۔ مگر اس دن بھی وہ بستر پر لیٹی رہی ۔۔بڑی چچی اور اماں ۔۔تھوڑی تھوڑی دیر پر اس کا حال پتہ کرنے کے لیے آیا کرتیں ۔۔ البتہ دیو آج بڑے چچا دیپ کے ساتھ دوسرے گاؤں گیا ہوا تھا ۔۔۔اسی لیے وہ ایک بار بھی شکنتلا سے ملنے نہیں آیا ۔۔
شکنتلا بستر پر لیٹے لیٹے کل ہوئی واردات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔اور اپنے آپ کو ملامت بھیج رہی تھی ۔۔کہ کل اسے دیو کو اپنے دل کا حال بتا دینا چاہیے تھا ۔۔ اس سے کتنی بڑی بھول ہوگئی ۔۔ کل کتنا اچھا موقعہ تھا ۔۔
وہ دن بھر اسی طرح کے خیالات سے خود کو کوستی رہی ۔۔ رات ہونے تک ۔۔ وہ۔کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔ رات کا کھانا سب کے ساتھ کھایا۔۔
دیو اب کبھی کبھار اس کے پاس آیا کرتا ۔۔ دنوں کی رفتار بڑھ گئی ۔۔اور یہ چھٹی بھی ختم ہو گئی ۔۔
رخصتی کی صبح جب سارے لوگ کار کے پاس کھڑے ہوکر الوداع کہہ رہے تھے اس وقت شکنتلا پردے کے پیچھے سے یہ سارے منظر کو دیکھ رہی تھی ۔۔
دیو کار میں بیٹھنے سے پہلے شکنتلا کے پاس آیا ۔۔اور اسے الوداعی کلمات کہنے لگے ۔ دیو کی نظریں جیسے ہی شکنتلا کی سوجی ہوئی آنکھوں کی طرف گئی ۔۔ اس نے حیرانی کے ساتھ شکنتلا سے اس کی آنکھوں کے سرخ ہونے کا سبب پوچھا ۔۔
اس نے جلدی سے بہانہ بنانا شروع کردیا ۔۔اور ٹال مٹول کرنے لگی ۔۔ دیو ۔۔ زیادہ وقت وہاں نہ ٹھہر سکا ۔۔ اور جلد ہی وہ واپس کار کی طرف جانے لگا ۔۔ شکنتلا کو ایک بار پھر ۔۔ ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی دنیا اس سے بچھڑی جا رہی ہے ۔۔ اس نے سوچا ۔۔۔ دیو کو جا کر اپنے دل کی بات بتا دیے ۔۔۔جیسے ہی اس نے اپنے قدموں کو آگے بڑھانا چاہا ۔۔ اسے ایک انجانی زنجیر نے آکر تھام لیا ۔۔ شکنتلا کو یو محسوس ہوا جیسے اس کے دونو پیر زمین نے پکڑ لیے ہے ۔۔وہ۔وہیں پر انسانی پتلا بن کر کھڑی ہوگئ ۔۔
..................................................
شکنتلا کے لیے اب دن گزارنے بڑے مشکل ہو رہے تھے ۔۔ وہ رات کو تھک ہار کر اپنے بستر سے جا لگتی ۔۔۔ اور کروٹیں بدل بدل کر ۔۔۔ دیو کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کی یادوں میں کھو جاتی ۔۔۔
اسے دیو کا یوں قریب آکر بات کرنا بہت بھاتا تھا ۔۔
شکنتلا کی زندگی ان یادوں میں ہی سمٹ کر رہے گئی تھی ۔۔ وہ اپنی ہر خوشی اور غم کو ان یادوں سے منسلک کرنے لگی ۔۔ جس کی وجہ سے شکنتلا کے لیے ایک ایک پل گزارنا مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔۔
اس کی نظریں اکثر کلینڈر پر بے اختیار اٹھ جاتی اور نا جانے کتنے وقت وہ مہنیوں اور دنوں کا حساب لگایا کرتی ۔۔ اس سال اس کے میٹرک کے امتحان تھے ۔۔اور وہ دل لگا کر پڑھنا بھی چاہ رہی تھی ۔۔مگر اس کا دل ۔۔ دور شہر میں کہیں کھو گیا تھا ۔۔ شہر سے ایک دو بار خط بھی آئے ۔۔مگر وہ خط بڑی چچی نے اما ں کو لکھے تھے ۔۔ شکنتلا چوری سے اس خط کو پڑھتی ۔۔ مگر اس میں دیو کی کوئی بات نہیں لکھی ہوتی ۔۔ اور نہ ہی شکنتلا کے لیے کوئی پیغام ہوتا ۔۔ اس کے باوجود بھی ۔۔ شکنتلا ان خطوں کو کئی دفعہ پڑھتی ۔۔کبھی دل سے لگا۔لیتی ۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔ دن گزر گئے ۔۔ کلینڈر نے سال بدل دیا ۔۔۔
شکنتلا نے میٹرک کا امتحان بھی دے دیا ۔۔
اب اسے بس گرمیوں کی چھٹیوں کا انتظار تھا ۔۔
گرمی ۔۔اس نام سے ہی شکنتلا کو انسیت ہو گئی تھی ۔۔ اور وہ دن بھی آگیا جب کار دوبارہ سے گھر کے دروازے پر کھڑی تھی ۔۔ شکنتلا بڑی بے چینی سے ۔۔۔ گھر کے آنگن میں ٹہل رہی تھی ۔۔ وہ کن انکھیوں سے کسی کی تلاش میں گم تھی ۔۔ بڑے چچا دیپ اور چچی مالتی ۔۔ آگئی ۔۔ مگر ان کے پیچھے اور کوئی نہ آیا ۔۔۔ شکنتلا پریشانی کے ساتھ بار بار کار کی طرف دیکھتی ۔۔مگر ۔۔ کار سے اب کوئی نہیں اترنے والا تھا ۔۔
شکنتلا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کیا کرے
واپس گھر میں آنے کے بعد ۔۔۔ شکنتلا جا کر اماں کے پاس بیٹھ گئی ۔۔
اماں نے باتوں باتوں میں ۔۔۔دیو کے بارے میں پوچھا ۔۔
اور بڑی چچی نے بتایا ۔۔کی وہ کالج سے ٹور پر گیا ہوا ہے ۔۔
یہ سنتے ہی شکنتلا کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔۔ اسے یو محسوس ہوا ۔جیسے کسی نے اس کے سینے پر چاقو سے وار کر دیا ہے ۔۔ بس وہ زمین پر گر جائے گی ۔۔ وہ اس جگہ سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی ۔۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کی اسے ہو کیا گیا ہے ۔۔
شکنتلا کے اندر غصے کی لہر دوڑنے لگی ۔۔۔اسے دیو پر بہت غصہ آرہا تھا ۔۔ وہ ضبط کرنے کے باوجود بھی تھر تھر کانپ رہی تھی ۔ اس شدید غصے کی لہر نے آنکھوں کے راستے سے اپنے باہر آنے کی جگہ بنا لی تھی ۔۔ شکنتلا کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوںلگرنے لگے ۔۔ جو زمین کی مٹی میں جذب ہوتے چلے جا رہے تھے ۔۔
اس بار گرمیوں کی چھٹی اسے کے لیے عذاب بن گئی تھی ۔۔ اس کا دل کسی جگہ نہیں لگ رہا تھا ۔۔ ان دنوں چڑچڑا پن اس کی طبیعت میں شامل ہوگیا ۔۔ اس بات کا احساس اماں کو بھی ہوا ۔۔اور ایک مرتبہ اماں نے شکنتلا سے اس بارے میں پوچھا بھی ۔۔ مگر ۔۔ شکنتلا نے ۔۔ اماں کو گول مول باتوں میں لگا کر بات بدل دی ۔۔
دن گزرتے گئے ۔۔۔ گرمیوں کی چھٹی ختم ہوگئی ۔۔ بڑے چچا اور چچی واپس شہر کے لیے روانا ہوگئے ۔۔ ۔اس مرتبہ شکنتلا کو ان لوگوں سے کوئی سروقار نہ رہا ۔۔وہ چپ چاپ بس اپنا کام کیا کرتی۔۔۔
میٹرک کے نتائج بھی آگئے ۔۔۔ شکنتلا اچھے نمبرات سے کامیاب ہوگئی ۔۔
اس نے اپنی اس کامیابی کا سہرا من ہی من ۔۔ دیو کے سر باندھ دیا ۔۔حالانکہ وہ دیو سے بہت ناراض تھی ۔۔ اس کے باوجود دیو کے خیال سے اپنے آپ کو بچا نہ سکی ۔۔
پڑھائی سے فراغت کے بعد ۔۔ شکنتلا کی زندگی میں گھر کے کاموں کے علاؤہ کچھ نہیں بچا تھا ۔۔
اماں کبھی کبھی شکنتلا کے ابا سے دبی دبی زبان میں شکنتلا کے بیاہ کا ذکر کرتیں ۔۔ شکنتلا دور بیٹھی کن انکھیوں سے انہیں ۔۔ دیکھا کرتی ۔۔
ایک دو دفع ۔۔ اس نے اماں سے دیو کانام بھی سنا ۔۔
اس وقت شکنتلا کی طبیعت میں خوشی کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا ۔۔ وہ من ہی من ۔۔ مستقبل کے بارے میں سوچنے لگی ۔۔ خوشی اس کے پیٹ میں کہیں سے آکر مچلنے لگی ۔۔
وقت کے پہیہ زندگی کی گاڑی کو ۔۔ تیز رفتاری کے ساتھ کھنچتا چلا جا رہا تھا ۔۔ برسات گئی ۔۔ بہار آئی ۔۔
بہار نے سرما کو دعوت دی ۔۔۔ اور پھر گرمیاں اپنے آنے کا شور مچانے لگی ۔۔ شکنتلا کا دل دوبارہ سے تیز تیز دھڑکنے لگا ۔۔
کار دوبارہ سے دروازے پر رکی ۔۔ اس بار دیو بھی آیا ہوا تھا ۔۔یہ دیکھ کر شکنتلا کے دل کے باغ میں ۔۔۔ بے شمار پھول کھلنے لگے ۔۔ اس دن شکنتلا نے دیو سے کچھ بات نہ کی۔۔ اگلے دن بھی شکنتلا انتظار میں تھی کے دیو اس کے پاس آئے گا ۔۔ اس نے دوپہر کو جان بوجھ کر چھت پر جانے کا ارادہ بنایا ۔۔ جاتے ہوئے اماں کو تیز آواز سے اپنے اوپر جانے کے بارے میں بتایا ۔۔ آواز اس کمرے سے بھی ٹکرائی جس کمرے میں دیو تھا ۔۔شکنتلا اوپر چھت پر چلی گئی ۔۔
شکنتلا کافی دیر تک چھت پر یوں ہی ٹہلتی رہی ۔۔ مگر دیو نہ آیا ۔۔شکنتلا کو دیو پر کافی غصہ آرہا تھا ۔۔مگر اس کے باوجود وہ ضبط سے کام لے رہی تھی ۔۔
شام کے وقت جب وہ نیچے اتری ۔۔ اس کا منہ اترا اترا تھا ۔۔ چھت سے اترنے کے بعد وہ ۔۔ اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔
رات بستر پر لیٹنے کے بعد ۔۔۔ شکنتلا کے من میں عجیب عجیب طرح کے خیال آنے لگے ۔۔ اس نے سوچا وہ کل خود دیو سے بات کرےگی ۔۔ اس خیال کے آتے ہی شکنتلا کا من خوشی سے جھولنے لگا ۔۔ صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلیں ۔۔ وہ جلدی جلدی اٹھ کر ۔۔ باورچی کھانے کی طرف لپکی ۔۔ اور ناشتے کے انتظامات کا پچھنے لگی ۔۔ اماں نے اس سے کہا ۔۔"ناشتہ سب لوگ کر چکے ہے اور دیو کا ٹفن بھی بن چکا ہے" یہ بات سن کر ۔۔شکنتلا کچھ سمجھ نہ پائی ۔۔ اس نے پوچھا۔۔ "دیو کا ٹفن کس لئے"
اس وقت اماں نے بتایا "دیو واپس شہر جا رہا ہے ۔۔ "
شکنتلا نے فوراً ہی وجہ جاننے کی کوشش کی مگر اماں کا خاموش چہرہ دیکھ کر ۔۔ اسے بہت جھنجھلاہٹ ہوئی ۔۔ اس سے رہا۔نہیں گیا ۔۔ دوبارہ سے اماں سے پوچھا ۔۔ اس دفعہ اماں نے کہا
" اسے بھی پتہ نہیں ۔۔بس بڑی چچی نے کہا تھا کہ دیو شہر جا رہا ہے آج ہی "
شکنتلا کو ایک بار پھر دھچکا لگا ۔۔ اس نے اٹھ کر آہستہ سے قریب کی دیوار کو تھام لیا ۔۔
شکنتلا ۔۔ جو ۔۔ دیو کی آمد سے کھل کر ۔۔ پھول بن گئی تھی ۔۔ وہ دیو کی رخصتی پر مرجھا گئی ۔۔ وہ جلدی سے اپنے کمرے کی طرف لپکی ۔۔ راستے میں اسے دیو نظر آیا ۔۔
اس نے دیو کی طرف دیکھا بھی نہیں ۔۔ اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔
کچھ دیر بعد ۔۔ کمرے کے باہر۔۔۔۔ اسے ۔۔کچھ آوازیں آئی ۔۔اور رخصتی کلمات سنائی دیئے ۔۔ اس کے باوجود بھی شکنتلا کمرے کے باہر نہ آئی ۔۔ دیو جا رہا تھا ۔۔
شکنتلا کی زندگی ایک بار پھر اس سے دور جا رہی تھی ۔۔ کپڑا ببول کے کاٹو میں چپک کر دوبارہ کھینچنے لگا۔۔
شکنتلا ۔۔ دیر تک کمرے میں ہی رہی ۔۔
گرمیاں ۔۔ جو اس کے لیے ٹھنڈک کا سامان مہیا کرتی ۔۔ اب انگاروں کا کام دے رہی تھی ۔۔ شکنتلا کو اس بار اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا ۔۔
اس کے اندر کہی سے آواز آرہی تھی ۔۔
"اپنا آپ ۔۔ کسی کو سونپا نہیں جاتا ۔۔ " ۔۔
شکنتلا کے من میں ایک بات اور آئی کہ جس شخص کے ساتھ اس نے اپنی خوشیاں وابستہ کر رکھی ہے ۔۔کیا اس شخص کو اس بارے میں پتہ ہے ۔۔ اس خیال کے ساتھ ہی شکنتلا کے من میں کئی سارے خیالات کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
شکنتلا کو اپنے آپ پر اور غصہ آیا۔۔
اسے ماضی کا وہ دن یاد آنے لگے ۔۔جب دیو اس کے قریب آکر اس کے من کی بات جاننا چاہتا تھا ۔۔
وہ رونے لگی ۔۔ اپنے آپ کو دو طمانچے بھی مارے ۔۔
آج تاروں بھرے آسمان میں چاند کے سوا کوئی اور نظر نہیں آرہا تھا ۔۔ نیچے زمین پر شکنتلا ۔۔ بھی خود کو تنہا محسوس کر رہی تھی ۔۔
صبح پھر اپنے معمول پر ہوئی ۔ دن ہمیشہ کی طرح سے چلنے لگا ۔۔ مگر ۔۔
مگر شکنتلا ۔۔۔ وہ ہارے ہوئے سپاہی کی طرح سست تھی ۔۔ وہ خاموشی سے گھر کے کام کرتی رہی ۔۔
دن انگڑائی لے کر کروٹ بدلنے لگا ۔۔ دوپہر سے شام اور شام سے رات ہوگئی ۔۔
پھر اگلی صبح آئی ۔۔
کائنات اپنے مدار پر گھومتی رہی ۔۔
گرمیںوں کی چھٹیاں ختم ہوگئی ۔۔۔
قافلے اپنی منزلوں پر پہنچنے لگے ۔۔۔ پرندوں نے گھونسلوں کو دوبارہ سے ٹھیک کرنے کا کام شروع کر دیا ۔۔
کار نے دوبارہ سے ۔۔۔ شہر کا رخ لیا ۔۔
شکنتلا اندھیروں میں رہنے لگی ۔۔
روز کے کاموں میں مشغول رہتی ۔۔پر اس کا من ۔۔ دور کہیں ۔۔ کھویا رہتا ۔۔ شکنتلا اپنے آپ کو بیمار سمجھنے لگی تھی ۔۔ اس کی دلچسپیوں کے سارے مراکز دھیرے دھیرے ختم ہوگئے ۔۔ برسات کا موسم گزرنے لگا ۔۔
طوفان ، آندھیاں آکر ۔۔ واپس چلی گئی ۔۔
ایک صبح آسمان کا موسم انتہائی صاف تھا ۔۔البتہ آج صبح سے ہی شکنتلا کے اندر ہیجانی کیفیت طاری تھی ۔۔ اس کے اندر کی آواز کسی آنے والی انہونی کی طرف اشارہ کر رہی تھی ۔۔ شکنتلا کو آج سے پہلے ایسا کبھی محسوس نہیں ہوا ۔ وہ کئی بار من کے اندر اس طرح کے خطرات کو محسوس کر چکی تھی ۔۔لیکن وہ محض اندیشہ ہوا کرتا ۔۔
شکنتلا آج اپنے اندر بھی ایسے ہی انجانے خوف کی آہٹ محسوس کر رہی تھی ۔۔ہر بار کی طرح اس بار بھی ۔۔اس آہٹ کو وقتی چیز سمجھ کر دل کو تسلی دینے میں مصروف تھی ۔۔ لیکن ۔۔ دل آج اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا ۔۔
شکنتلا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کی وہ کیا۔کرے ۔۔
دروازے کے باہر ۔۔ سائکل کی گھنٹی بجی ۔۔ ڈاک خانے سے اماں کے نام خط آیا تھا ۔۔
خط شہر سے مالتی چچی نے لکھا تھا ۔۔
اماں نے اسے کھول کر پڑھنا شروع کیا ۔۔
پورا پڑھنے کے بعد خاموشی سے اماں نے خط کو کمرے میں لے جا کر رکھ دیا ۔۔اماں کے باورچی کھانے میں جاتے ہی شکنتلا نے ۔۔ اس خط کو وہاں سے اٹھا لیا ۔۔ اور چھت پر لے جا کر پڑھنے لگی ۔۔ خط کی ایک ایک سطر نظر سے گزرتی جا رہی تھی ۔۔ یہاں شکنتلا کے بدن میں کپکپی دوڑنے لگی تھی ۔۔
اس نے ایک بار ۔۔۔دو بار ۔۔ تین بار ۔۔بلکے ۔ کئی بار خط کو پڑھا ۔۔ شکنتلا کا گرم بدن ایک دم سے ٹھنڈا ہو گیا ۔۔
اس خط کی سطروں میں دیو کی شادی کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔۔بڑی چچی نے دیو کی شادی ۔۔ "اپنی چھوٹی بہن کی بیٹی مینل سے طئے کر دی تھی" ۔۔ شادی آنے والے گرمیوں کی چھٹی میں تھی ۔۔ اس بار ۔۔ اماں کو گھر والوں کے ساتھ ۔۔ شہر شادی میں بلایا گیا تھا ۔۔
بہار آکر ۔۔ دروازے سے لوٹ گئی ۔۔
مرجھائے ہوئے پھولوں نے اپنا دم توڑ دیا ۔۔
پرندے آسمان میں اڑتے اڑتے زمین پر گر گئے ۔۔ زمین کو قالین کی طرح لپیٹ دیا گیا ۔۔ بارش کا ایک قطرہ شکنتلا کے چہرے پر آگرا ۔۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے آسمان سے کوئی گولہ اس کے جسم پر گرا ۔۔اور وہ ۔۔اس گولے کے وزن سے زمین میں ڈھس گئی ۔۔
شکنتلا ۔۔ دیوار کے کونے میں کھڑی ہوگئی ۔۔ بارش کی بوندوں نے خط کو بھیگا دیا ۔۔ بھیگے خط کا کاغذ بارش کی بوندوں کے ساتھ بہہ کر زمین سے جا لگا۔۔ شکنتلا نے اپنے بھاری پیروں کو اٹھایا ۔ اور پیچھے کی طرف مڑی ۔۔ اس کا داہنا پیر نیچے پڑے ہو پائپ سے ٹکرایا ۔۔ اور پائیپ کے گھوم جانے کی وجہ سے ۔۔ وہ پھسلی ۔۔پیچھے چھت کی آدھی دیوار سے اس کا بدن باہر کی طرف مڑا ۔۔اور وہ چھت سے نیچے گر گئی ۔۔
Comments
Post a Comment