ادب برائے زندگی۔۔ازقلم۔۔۔۔اشفاق زید۔
ادب برائے زندگی۔۔
ازقلم۔۔۔۔اشفاق زید۔
ادب انسانی جذبات و احساسات اور افکار کا مظہر ہے۔ادب میں نظریات کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ان نظریات کو سمجنے کے لئے ہمیں ادب کے حوالے سے جاننا بہت ضروری ہے۔ادب کیا ہے؟
نیومین نے ادب کی تعریف اس طرح بیان کی ہے کہ " انسانی افکار، خیالات اور محسوسات کے اظہار کر ادب قرار دیا ہے۔ "
ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں روز مرہ کے خیالات سے بہتر اور روز مرہ کی زباں سے بہتر زبان کا اظہار ہوتا ہے۔ادب انسانی تجربات کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔انسان دنیا میں جو کچھ دیکھتا ہے، جو تجربے حاصل کرتا ہے، جو سوچتا سمجھتا ہے اس کے ردعمل کا اظہار ادب کی شکل میں کرتا ہے۔
ادب میں نظریات کا بہت گہرا اثر رہا ہے جس میں دو نظریات ہیں ایک ادب برائے ادب اور دوسرا ادب برائے زندگی۔ادب برائے ادب یہ ہے کہ انسان اپنے دل کی تسکین کے لئے لکھے۔جو کچھ بھی ذہن کے پردے پر ابھرے اسے باضابطہ ادبی شکل دے کر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہر لکھنے والے کی اولین ترجیح ہوا کرتا ہے۔معاملہ سخن گوئی کا ہو یا نثر نگاری کا بات ذاتی ذوق و شوق اور لگن سے شروع ہو کر ذاتی تسکین پر ختم ہوتی ہے۔ہر دور کے لکھنے والوں نے یہی طریق اپنایا ہے۔ادب برائے ادب اصل میں علمیت کا اظہار ہے کیونکہ اس دور کے ادب میں علمیت اور دقیق الفاظ کا استعمال کرنا ہی اپنی پہچان سمجھا جاتا کیونکہ ادب صرف علم والے لوگوں کے لئے ہوا کرتا جو کہ ذاتی محفلوں میں سنایا جاتا یا پڑھا جانا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ادب کی تشکیل اپنی تسکین کے لئے کی گئی ہے۔جو ادب برائے ادب کہلایا۔
ادب برائے ادب کا دور ادب سے زیادہ علم کا تھا۔عام قاری جو ادب کو سننے جاتا وہ اہل علم ہوا کرتے تھے۔ اس لئے اس دور کے اہل ادب اپنی بات کو خالص علمی انداز سے بیان کرنے کے روادار تھے۔ علمیت کی بنیاد پر سرہانے جانے کی خواہش کے توانا رہنے کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ جو کچھ بھی کہا جاتا وہ خاصا دقیق ہوتا تھا۔گویا اس بات کی زیادہ اہمیت تھی کہ جو کچھ بھی کہا جائے وہ کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آئے۔
ادب برائے ادب کے نام جب علمیت انتہا کو پہنچ گئی تب ردعمل کے طور پر کچھ ایسا کہنے کا آغاز ہوا جو سہل ہو، لوگوں کی سمجھ میں آئے۔اگر بات پڑھنے یا سننے والوں کے سروں سے گزر جائے تو کہنے کا فائدہ؟ یوں قدر آسان کہنے کی ابتداء ہوئی۔مگر خیر یہ بھی کچھ ایسا آسان نہ تھا۔ ابھی علمیت کا دبدبہ قائم کرنے کی خواہش نے پوری طرح دم نہیں توڑا تھا۔ مجموعی طور پر تخلیقات کا معیار اتنا بلند رکھا جاتا تھا کہ عام قاری کے لئے بات مکمل سمجھنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوتا تھا۔
پندرہویں صدی عیسوی کے بعد اہل علم نے چاہا کہ عوام کو ذہن نشین رکھتے ہوئے لکھا جائے تاکہ لکھنے سے صرف لکھنے والے کی تشفی نہ ہو بلکہ عوام بھی فیض یاب ہو۔گویا عوام کے مفاد کو ذہن میں رکھ کر لکھنے کی ابتداء ہوئی۔یہ ادب برائے زندگی کا رویہ تھا۔جسے لکھنے والوں نے شعوری طور پر اپنایا۔صدیوں کے عمل سے افکار پر جو گرد جم گئی تھی اسے دور کرنے کا سوچا گیا۔
دنیا میں تمام ادب تخلیق کرنے والے اہل قلم نے طے کیا کہ عوام کی فکری سطح بلند کرنے پر متوجہ ہوں گے یعنی ایسا لکھیں گے جس کے نتیجے میں لوگ کچھ سوچنے پر مائل ہوں۔اپنی اصلاح کا خیال دل میں لائیں اور زندگی مجموعی طور پر کچھ نیا پن محسوس کرے۔ادب برائے زندگی کی ابتداء مذہب کا سہارا لے کر کی گئی۔جس سے لوگوں کو اصلاح نفس پر مائل کیا اور اس کے لئے مذہبی تعلیمات کو بنیاد بنایا گیا۔مقصد یہ تھا کہ لوگ خود کو بدلنے پر مائل ہوں۔جب لوگ پڑھنے کے عادی ہوئے تو سوچنے کی تحریک بھی پائی۔
ادب برائے زندگی کی تحریک کو پروان چڑھانے میں مغربی معاشرے کے بدلتے ہوئے رجحانات نے کلیدی کردار ادا کیا۔جب صنعتی ترقی نے انسان کو مشین بنانے کا عمل شروع کیا تب وقت کی کمی کا احساس پیدا ہوا۔بہتر زندگی کے لئے مطلوب مادی وسائل کا حصول یقینی بنانے کی جدوجہد میں مصروف لوگوں کے لئے دقیق علمی تخلیقات سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ رہا۔حالات کے تقاضوں کے تحت لازم ہو گیا کہ وہ لکھ جائے جو مفاد عامہ کے تقاضے پورے کرتا ہو۔ یوں ادب برائے زندگی کا دور شروع ہوا۔
ہندوستان میں علی گڑھ تحریک سے وابستہ اہل قلم نے بھی ادب برائے زندگی کو اپنا مشق سخن بنایا جس کی وجہ سے عام قاری ادب سے استفادہ حاصل کرنے لگا اور اپنی زندگی میں ادب کو جگہ دی۔ اس کے ترقی پسند تحریک نے ادب برائے زندگی کا پرچم بلند کرنے ہوئے ایسے ادب کی تخلیق شروع کر دی جو صرف انسانوں کے جذبات، احساسات اور افکار کو تقویت دینے والا تھا جس کا فائدہ ادب یہ ہوا کہ ادب کے قاری دن بہ دن بڑتے گئے اور لوگوں نے اس ادب کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا۔
ادب برائے زندگی نے زندگی کے ہر شعبے میں اور ادب کے ہر صنف میں تخلیق کرنا شروع کر دیا تو انسانوں نے اپنی اصلاح شروع کر دی
اور اپنے افکار کو تقویت بخشی۔ادب برائے زندگی نے جب پیشہ ورانہ سطح پر فروغ پایا تو عوامی نوعیت کا ادب ضبط تحریر میں لانے کی ابتداء ہوئی۔بعد میں ریڈیو اور ٹی وی کے ڈراموں کی شکل میں اور فلموں کی شکل میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ بھی ادب برائے زندگی ہی کا ایک روپ ہے۔لکھنے والے کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ ادب برائے زندگی کا قائل ہو یعنی مفاد عامہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھے اور عوام کے دل سے قریب تر ہو جائے۔
ادب برائے زندگی نے انسانوں میں نئے نئے نظریات، افکار اور تخیلات کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
Comments
Post a Comment