لا الٰہ الا اللہ کی حقیقی معنی.از قلم ۔۔ پروفیسر مختار فرید۔
لا الٰہ الا اللہ کی حقیقی معنی.
از قلم ۔۔ پروفیسر مختار فرید۔
لا الہ الا اللہ کا مطلب سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے کے لئے جنت ہے۔ جملہ شروع ہوتا ہے منفی لفظ لا سے، جس کے معنی ہیں نہیں ، آسان زبان میں معنی ہوئے ۔ نہیں ہے کوئی اللہ! ہمارے اس جملے کی تصدیق سے ہم کیا سمجھ سکتے ہیں؟ ہم نے تمام معبودوں کا انکار کیا۔ ہم نے آگے کہا الا اللہ یعنی سیواے اللہ کے ہمارا کوئی اور اللہ نہیں۔ یہاں کوئی ایسا ذکر نہیں ہے جس سے اللہ کیا ہے اور اللہ کا کیا مطلب ہے۔ مگرقرآن کی سورة الاعراف آیت نمبر ۳ اس بات کی وضاحت کرتی ہے۔
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ۔
پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے( یعنی قرآن) ۔ یعنی جواحکامات نازل کئے گئے ہیں ان پر گامزن رہو اور اس کے سیواے کسی اور کی پیروی نہ کرو۔ یہاں لفظ اولیاء استعمال کیا گیا ہے۔ اولیاء ولی کی جمع ہے، اور ولی کی معنی ہوتے ہیں گائیڈ ، قریبی دوست ، سرپرست ۔ یہ حکم ہم کو کسی اور کا بنا یا ہوا قانون یا کسی اور کے من گھڑت راستوں کی پیروی کرنے سے منع فرماتا ہے۔ ہم اکثر اپنے خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ اس طرح ہم جس کسی کی بھی پیروی کریں وہ ہمارا خدا بن جاتا ہے۔ کبھی اپنے خوہشات خدا کبھی کوئی لیڈر خدا تو کبھی کوئی عزیز خدا۔
لا الٰہ کہنے سے ہم ان سارے خداؤں سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور بس باقی ایک ہی اللہ کے نازل کئے ہوئے احکا مات پر عمل کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ یہ ہوئی حقیقی معنی لا الٰہ الا اللہ کے۔ جو ان سارے باتیں اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کی تصدیق کرے گا یقیناً وہ جنت کا مستحق ہوگا۔
بہت سارے لوگ بغیر سوچے سمجھے غیر ارادی طور پر بہت سے خداؤں کی پیروی کرتے ہیں۔ زبان سے ضرور یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ایک خدا میں ہمارا یقین ہے۔ مگر جب وقت آتا ہے جہاں خواہش اللہ کے احکام پر غالب آتی ہے تب اپنے خواہش کے سامنے اللہ کے احکام کو پس پردہ ڈالتے ہیں۔ جؤا اسی طرح حرام ہے جیسے شراب اور زنا۔ جؤا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ شیطان کا کام ہے تم اس سے بچو مگر کچھ مسلمان عجیب سی طاویلات دے کر اپنے خواہشات کے غلام بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جوئے کے لیے لفظ حرام استعمال نہیں ہوا ہے۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے، زنا کے لئے بھی لفظ حرام نہیں استعمال ہوا ہے۔ کہا گیا ہے، ولا تقربوا الزني انه فاحشته و ساء السَّبِيلَا یعنی زنا کے قریب مت جاؤ یہ کھلا ہوا فحش آور راستے سے بھٹکا دینے کام ہے۔
اپنی خواہشات پر عمل کرنے کے بارے میں سورة القصص میں کہا گیا ہے۔
فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٥٠﴾
اورجب یہ لوگ تمہارے ہدایت کی طرف بلانے کا جواب نہیں دینگے تب یہ جان لو کہ یہ لوگ اپنے خواہشات کا اتباع کرتے ہیں، اور یہ اللہ کے ھدائیت کے بغیر اپنے تصورات اور خیالات کی پیروی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت گمراہی میں ہیں۔
علامہ اقبال، کہ گئے.
خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
(قلم کار کی رائے سے اخبار کا متفق ہونا ضروری نہیں)
Comments
Post a Comment