معلم انسا نیت۔از قلم : مولوی شبیر عبدالکریم
معلم انسا نیت۔
از قلم : مولوی شبیر عبدالکریم ۔
5 ستمبر کو ہمارے ملک بھارت میں ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے اور یہ دن بھارت کے پہلے نائب صدر جناب رادھا کرشنن کا یوم ولادت بھی ہے اور وہ بھی ایک معلم تھے اس موقع پر تعلیمی اداروں میں مختلف قسم کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں طلبہ کرام کے سامنے تدریسی پیشے کی اہمیت وضرورت اور اساتذہ کرام کے مقام ومرتبہ کے بارے میں تقاریر اور مقالات پیش کئے جاتے ہیں اور طلبہ بھی خوشی خوشی بڑے جوش و خروش کے ساتھ اس دن تدریسی خدمات انجام دینے میں بڑھ چڑھکر حصہ لیتے ہیں
معلم انسا یت نبئ کریم کی ذات اقدس کو اللہ تعالی نے پوری انسانیت کے لئے معلم بناکر بھیجا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں اسکا تذکرہ ہے اللہ کے رسول ارشاد فرماتے ھیکہ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں اور آپ کی سیرت مبارکہ میں اساتذہ اور معلمین کے لئے ایک بھترین آئیڈیل اور نمونہ ہے کہ معلم کو کیسا ہونا چاہئے شاگردوں کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرنا چاہئے اور انکے ساتھ عاجزی اور تواضع سے پیش آنا چاہئے اسلئے کہ اس کے بغیر نفع بخش علم حاصل نہیں ہو سکتا جیسا کہ کہا گیا ہے علم حاصل کرو اور جس سے علم حاصل کرو اسکے ساتھ تواضع اور عاجزی اختیار کرو حدیث جبرئیل میں متعلم کو اپنے استاذ کے سامنے کسطرح بیٹھنا چاہئے اسکا طریقہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت جبرئیل جب آپکی خدمت میں کچھ سوالات لیکر آئے تھے تو وہ آپ کے گھٹنے سے اپنے گھٹنے لکاکر اور اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر رکھکر بیٹھے تھے اسلئے علماء فرماتے ھیکہ استاذ کے سامنے بیٹھنے کا یہ طریقہ ھیکہ باادب بیٹھے اور استاذ کے سامنے اونچی آواز سے بات نہیں کرنی چاہئیے بلکہ خاموشی اختیار کرنی چاہییے جیساکہ حضرات صحابہ کرام جب آپ کی خدمت میں بیٹھتے تھے تو مکمل خاموشی اختیار فرماتے تھے اسطرح اگر کسی طالب علم سے جھالت اور ناواقفی کیوجہ سے کوئی غلط اور نامناسب کام ہوجائے تب بھی استاذ کو اسکے ساتھ شفقت اور مہربانی کا معاملہ کرنا چاہئیے جیساکہ حدیث شریف میں ھیکہ جب ایک دیہاتی مسجد میں پیشاب کرنے لگے تو صحابہ کرام انکو مارنے دوڑے تو آپنے اس دیہاتی کو نرمی کیساتھ سمجھایا اور حضرات صحابہ کرام کو اس ناپاک جگہ پر پانی بہانے کا حکم فرمایا اسطرح ایک صحابی فرماتے ھیکہ میری غلطی پر آپ نے نہ مجھے ڈاٹا اور نہ ڈپٹا حضرت انس فرماتے ھیکہ میں دس سال تک آپ کی خدمت میں رہا لیکن آپ نے مجھے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے یہ کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا تو استاذ کو اپنے شاگردوں سے شفقت نرمی اور مہربانی کا برتاو کرنا چاہئیے اس سے انکے دلوں میں اساتذہ کی عزت اور احترام بڑھ جائیگی ہمیشہ مار دھاڑ اور ڈاٹ ڈپٹ اور سختی کرنا یہ ایک کامیاب استاذ کی نشانی نہیں ہوتی اسطرح نبئ کریم حضرات صحابہ کرام سے انکی علمئ اور ذہنی قابلیت اور صلاحیت جانچنے کے لئے ان سے کبھی سوالات بھی کرتے تھے جیساکہ حدیث شریف میں اسکا تذکرہ ہے جسکو آج ہم اسکالر شپ کا امتحان کہتے ہیں اسطرح کبھی دل لگی اور دلجوئی کے لئے ان سے ہنسی مزاق بھی فرماتے تھے لیکن ایسی دل لگی کہ جسمیں اسکی تحقیر اور تذلیل نہ ہو یا جسمیں کوئی جھوٹ نہ یو جیساکہ احادیث مبارکہ بہت سارے واقعات موجود ہیں اسطرح استاذ کو جاہئیے کہ اپنے شاگردوں کو دعاووں سے بھی نوازے جیساکہ ایک موقع پر نبئ کریم نے حضرت ابن عباس کو کتاب و حکمت کے عطا ہونے کی دعا فرمائی تھی
تو بہر حال اگر ہم چاہتے ھیکہ ہم ایک کامیاب معلم بنیں اور ہمارے ذریعے قوم و ملت اور انسانیت کو فائدہ اور نفع پہنچے تو ہمیں نبئ کریم کی سیرت مبارکہ کو دیکھنا چاہئیے کہ آپ نے اپنا یہ تدریسی فریضہ کس حسن و خوبی کیساتھ ادا فرمایا
اللہ تبارک وتعالی ہمیں نبئ پاک کی سیرت مبارکہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
Comments
Post a Comment